Inquilab Logo Happiest Places to Work

سوشل میڈیا راؤنڈ اَپ: ’’مظلوم کو ہی ظلم کا ذمہ دار ٹھہرانا تعصب کی انتہا ہے‘‘

Updated: June 01, 2025, 2:53 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

دلتوں کو فلیٹس دینے سے انکار کیا گیا تو قصور وار کون ہے؟ کیا انہوں نے کسی کا کوئی نقصان کیا ؟ مظلوم کو ہی اس پر ڈھائے جانے والے ظلم کا ذمہ دار ٹھہرانا تعصب کی انتہا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

شاعرونغمہ نگار جاوید اخترکے ایک بیان نے سوشل میڈیا کے گلیاروں میں نئی بحث چھیڑدی ہے۔ ان کا یہ بیان ’للن ٹاپ‘ کے انٹرویو کا حصہ ہے۔ جس میں میزبان سوربھ دویدی نے پاکستانی اداکارہ بشریٰ انصاری کے بیان ’’مسلمانوں کوغیرمسلم اکثریتی علاقوں میں مکان نہیں ملتا‘‘ کا ذکر کیا۔ جاوید صاحب نے اس کے جواب میں اہلیہ (شبانہ اعظمی) کے ساتھ پیش آنے والے پرانے معاملے کی مثال دی کہ انہیں ایک سندھی نے مکان نہیں بیچا۔ انہوں نے جو جواز پیش کیا اس کا مفہوم یہ تھا کہ چونکہ تقسیم کے وقت سندھیوں کو (پاکستان سے) بے گھر کیا گیا۔ اسلئے وہ کڑواہٹ ان میں اب بھی موجود ہے اور آپ لوگوں (بشریٰ انصاری و پاکستانی مسلمانوں ) کے سبب ہم پر بھی نکل جاتی ہے۔ اس بیان پرعادل حسین نے تبصرہ کیا کہ’’میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جاوید اختر کو نغمہ نگاری اور فلم رائٹنگ ہی کرنی چاہئے، یہ کام وہ بخوبی کرتے ہیں۔ اوربراہ مہربانی سوشیالوجی آف ایکسلوژن اور مائناریٹی گھیٹوائزیشن وہ ہم پر چھوڑدیں کیونکہ ہم یہ پڑھتے ہیں اور تحقیق کرتے ہیں۔ اس میں جاوید صاحب کو دسترس نہیں۔ ‘‘فاطمہ خان نے لکھا کہ’’یہ بیحد تشویشناک بات ہے کہ ایسے متعصبین کو جائز قراردینا، جوکہتے ہیں ’ایک برے مسلمان نے ان کے دادا کو نقصان پہنچایا تھا ‘جیسے واقعات کو جواز بناکر آج مسلمانوں کے خلاف نفرت و تعصب کو جائز ٹھہراتے ہیں۔ ایسے تو پھر پچھلے دس سال میں کتنے ہی مسلمانوں نے اپنے پیاروں کو ہجومی تشدد میں کھویا ہے۔ تو کیا یہ جائز ہوگا کہ وہ پھر ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلائیں ؟ افسوس ہوتا ہے جب کوئی فنکار نفرت کے اس چکر کو جائز ٹھہرانے لگے۔ ‘‘صحافی غزالہ وہاب نے لکھا کہ’’یہ تجزیہ ہراعتبار سے غلط ہے، سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ کہاں سے شروع کروں۔ جب کوئی شخص خود کو ہر مسئلے پر بولنے کا اہل سمجھنے لگتا ہے، چاہے اسے اس کا فہم و ادراک ہو یا نہ ہو۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ جاوید اختر بھی اس کا شکار ہوگئے ہیں۔ ‘‘دیپک کمار نے سوال قائم کیا کہ ’’اگر جاوید اختر کے مقررکردہ پیمانے کو معیار بنالیا جائے تو مسلمانوں اور دلتوں کو ان کے اوپر مظالم ڈھانے والوں سے شدید نفرت ہونی چاہئے تھی۔ دلتوں کو فلیٹس دینے سے انکار کیا گیا تو قصور وار کون ہے؟ کیا انہوں نے کسی کا کوئی نقصان کیا ؟ مظلوم کو ہی اس پر ڈھائے جانے والے ظلم کا ذمہ دار ٹھہرانا تعصب کی انتہا ہے۔ ‘‘ 
بنگال پولیس کی ایک کارروائی سے سوشل میڈیا کے نفرتی چنٹو سہم گئے ہیں۔ معاملہ یہ ہے کہ شرمشسٹھا نامی دوشیزہ کو نفرت انگیزی مہنگی پڑی۔ اس کے گستاخانہ تبصرے پر بنگال پولیس نے اس کے خلاف کیس درج کرلیا اور اسے گرفتار بھی کرلیا ہے۔ ’ٹیم رائزنگ فالکن ‘نے اس ضمن میں ایکس پر طویل پوسٹ کی ہے کہ ’’ہمارے پرزور مطالبے کا اثر ہے کہ شرمشٹھا کو گرفتار کرلیا گیا۔ اس نے پیغمبر حضرت محمدؐ کے متعلق گستاخانہ تبصرہ کیا تھا، ہم نے اس نفرت انگیزی کے خلاف آواز بلند کی۔ ہم یہی چاہتے ہیں نفرت انگیزی پر کسی کو بخشا نہ جائے۔ ‘‘ جِتیش نامی صارف نے شرمشٹھا کے والد کا بیان پوسٹ کیا کہ’’میری بیٹی نے وہ اہانت آمیز پوسٹ اسلئے کی تھی کیونکہ اسے رائٹ ونگ کے اکاؤنٹس نے بھڑکایاتھا اوراب کوئی بھی ہمارے فون کال کا جواب نہیں دے رہا ہے۔ ‘‘ ایڈوکیٹ اسٹرینج تیاگی نے لکھا کہ ’’بال مکند، سنہا، چُوچا، باگری اور بھارتی جیسے دیگردائیں  بازو کے احمقوں  نے اس لڑکی کی زندگی خراب کردی اور خودمزے کررہے ہیں۔ اب اسکی فیملی کے علاوہ کوئی اسے قانونی مدد نہیں دے گا۔ اسلئے براہ مہربانی کسی کے بھی مذہب اور خدا کے متعلق اناپ شناپ کمنٹ نہ کریں، کیونکہ آئی ٹی سیل والے صرف برین واش کرتے ہیں، یہ بچانے نہیں آتے۔ ‘‘
’ایم آئی ٹی‘ کی طلبہ یونین کی صدر میگھا ویموری کے مختصر سے خطاب نے انصاف پسندوں کا دل جیت لیا ہے۔ میگھا نے کانووکیشن تقریب میں گریجویشن کی سند لینے کے بعد طلبہ سے خطاب میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز اٹھائی اور اسرائیل نوازی پر یونیورسٹی انتظامیہ کو آئینہ دکھایا۔ اس کے یہ الفاظ جھنجھوڑ دینے والے ہیں کہ ’’ادھرہم نے گریجویشن مکمل کرلی اور وہاں فلسطین میں یونیورسٹیاں تباہ کردی گئیں۔ اسرائیل، فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹا رہا ہے اور دنیافقط دیکھ رہی ہے‘ ‘سدھارتھ نامی صارف نے لکھا کہ ’’ایک بار پھر طلبہ فلسطین کیلئے کھڑے ہیں، ان سبھی پر لعنت جوہنوز خاموش ہیں۔ ‘‘ رُچی انگریش نے لکھا کہ’’جیو میگھا ویموری!تم تاریخ میں صحیح سمت میں کھڑی ہو۔ ‘‘ڈانی فیتہیز نے لکھا کہ ’’یہ ہے اصل ایکٹیوازم اور یہ ہے اقتدار کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر سچ کہنا۔ خاموشی کوئی متبادل نہیں۔ ہمیں دنیا میں میگھا جیسے انسانوں کی ضرورت ہے۔ ‘‘یہ بھی قابل ذکر ہے کہ میگھا کی یہ جرأتمندی دائیں بازو کو ہضم نہیں ہورہی ہے، اس بہادر طالبہ کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہے۔ 
ہندوستانی اراکین پارلیمان کےالگ الگ وفود مختلف ممالک کے دوروں پر ہیں۔ روشن رائے نے (بانسری سوراج ) کا ویڈیو شیئر کرکے لکھا کہ ’’ملک:سیرالیون، آبادی: ۸۰؍لاکھ۔ ہندوستانیوں کی آبادی:۳۷۶۸۔ یہ خاتون (ایم پی) یہاں سے وہاں گئیں اور چند ہندوستانیوں کو اکھٹا کرکے ہندی میں تقریرکررہی ہیں۔ یہ کام تو پرتاپ گنج اور قرول باغ میں بیٹھے بیٹھے بھی ہوسکتا تھا۔ ٹیکس دہندگان کے پیسوں کی یہ فضول خرچی ناقابل یقین ہے۔ ‘‘ 
جاتے جاتےجھانسی کے ایک وائرل ویڈیو کا قصہ سنئے، یہاں ایک خانوادہ نے شادی کے موقع پر شامیانے میں کُولر لگوادئیے کہ مہمانوں کو گرمی سے راحت ہوگی، لیکن بدقسمتی کہ تدبیر الٹی پڑگئی۔ کُولر کے سامنے بیٹھنے پر کچھ لوگوں میں بحث و تکرار ہوئی۔ اور پھر شامیانہ، میدان جنگ بن گیا۔ دھکامکی اور لات گھونسوں کے ساتھ کرسیاں بھی چل گئیں۔ ’ایکس‘ پرنشی کانت ترویدی نے تبصرہ کیا کہ ’’غنیمت ہے کہ اے سی نہیں چل رہا تھا۔ ‘‘راہل تنور نے لکھا : ’’شادیوں میں رشتے دار ہی زہرپھیلاتے ہیں، باراتی تو ایسا سمجھتے ہیں کہ گویا راجا کی اولاد ہیں ‘‘فیوز کنڈکٹر نامی صارف نے لکھا :’’یہ لوگ اسٹینڈاَپ کامیڈینس کو کونٹینٹ دے رہے ہیں۔ ‘‘ خیر!کیا ہی کہیں  ؟آج ٹریجڈی کامیڈی ہےاور کامیڈی ٹریجڈی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK