Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ مہاراشٹر کالج کے ایک پروگرام میں پرنس آغا خان نے ۳؍ لاکھ کا عطیہ دیا تھا‘‘

Updated: March 16, 2025, 1:45 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

بیلاسس روڈ کے غلام محمد شیخ نےعملی زندگی کا آغاز کسٹم انسپکٹر کے طورپر کیا، بعدازیں اپنی عمدہ کارگزاری سے ڈائریکٹوریٹ آف رینیوانٹلی جنس میں انٹیلی جنس آفیسر کے عہدہ پر فائز ہوئے اور بعد میں کسٹم مرین کے ساتھ ہی ایئر کسٹم کیلئےبھی اپنی خدمات پیش کیں۔

Ghulam Muhammad Sheikh. Photo: INN.
غلام محمد شیخ۔ تصویر: آئی این این۔

جنوبی ممبئی، بیلاسس روڈ کے غلام محمد شیخ کی پیدائش ۱۹۵۱ءمیں پائیدھونی کے گھوگھاری محلہ میں ہوئی تھی۔ محمدعلی روڈ پرواقع محمدیہ اُردوہائی اسکول سے ۱۹۶۸ءمیں ایس ایس سی پاس کرنے کے بعد آگے کی پڑھائی کیلئے مہاراشٹر کالج میں داخلہ لیا اوراس کے پہلے بیچ میں شریک ہونے کا شرف حاصل رہا۔ اس وقت مہاراشٹر کالج کا تعمیراتی کام جاری تھا۔ کالج کے کمروں کےفرش پر ٹائلس نہیں لگی تھی لیکن پڑھائی شروع کردی گئی تھی۔ ۱۹۷۲ء میں وہیں سے گریجویشن کیا۔ 
کسٹم آفیسر قمرقاضی کی سرپرستی اور رہنمائی سے ۱۹۷۵ء میں کسٹم محکمے میں بطورکسٹم انسپکٹر ملازمت حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔ عمدہ کارگزاری کی وجہ سے ۱۹۸۴ء میں ڈائریکٹوریٹ آف رینیوانٹیلی جنس(ڈی آر آئی ) بامبے زونل یونٹ میں انٹیلی جنس آفیسر کے عہدہ پر فائز ہونے کا موقع ملا۔ ڈی آرآئی میں عمدہ کارکردگی اور سخت محنت کے بعد اپنا ایک مقام بنایا۔ 
غلام محمد شیخ ایک ایماندار، فرض شناس، بے خوف اور جرأتمند آفیسر رہے۔ اپنی ۳۳؍سالہ ملازمت کے دوران انہوں نے اپنے ذاتی ذرائع اور اطلاعات کی بنیاد پر سیکڑوں چھاپے مار کر بڑی مقدار میں اسمگلنگ کئے جانے والے سونے، چاندی، نارکوٹکس اور الیکٹرونکس کے ۱۰۰؍ کروڑ روپے سے زائد کےسامان ضبط کئے۔ انہیں ان کی فرض شناسی کیلئے ۱۹۸۵ءاور ۱۹۸۶ءمیں سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا تھا۔ بعدازیں متواتر ۴؍ سال تک انہیں ان کی کارکردگی کیلئے دہلی میں اعزاز سے نوازاگیا۔ یہ اعزاز، سابق مرکزی وزیر وشواناتھ پرتاپ سنگھ، مدھودنڈوتے، ایس بی چوان اوراجیت کمار پانجہ کے ہاتھوں دیا گیا تھا۔ ۱۹۹۲ء میں اُس وقت کے مرکزی وزیر منموہن سنگھ کے ہاتھوں پُروقار پریسیڈنٹ ایوارڈ دیاگیاتھا۔ اس کیلئے انہیں ۱۱؍لاکھ روپے نقد دیئے گئے تھے۔ یہ اعزاز بیرونی ممالک کو اہم سراغ فراہم کرنےکیلئے دیاگیاتھا۔ ان کے ذریعہ فراہم کئے گئے سراغ کی مدد سے ان ممالک میں نارکوٹکس کا وسیع ذخیرہ ضبط کرنےمیں مددملی تھی۔ اس کیلئے برطانیہ کی حکومت نے بھی انہیں اعزاز سے نوازاتھا۔ علاوہ ازیں کامن ویلتھ کنٹریز ایوارڈ کیلئے ہندوستان سے ۱۰؍ بہترین افسران کے ناموں کی سفارش کی گئی تھی، جن میں ایک نام غلام محمد شیخ کا تھا۔ غلام محمد شیخ نے مجموعی طور پر اپنی ۳۳؍سالہ سروس کے دوران سینٹرل ایکسائز، ڈی آر آئی، کسٹم مرین اور ایئر کسٹم (انٹرنیشنل ایئر پورٹ) ممبئی کیلئے اپنی خدمات پیش کی ہیں ۔ اس دوران انہوں نے جتنے ایوارڈاور اعزاز حاصل کئے، اتنے کسی اور آفیسر کے حصے میں نہیں آئے۔ 
غلام محمد شیخ نے اپنی سروس کے دوران سب سے بڑا، اہم اور دشوارکن چھاپہ ۱۹۸۹ء میں سنگاپور کے مرسک کلیمن ٹائن نامی جہاز پر مارا تھا۔ اس جہاز سے تقریباً ۲؍ہزار سونے کی بسکٹ ضبط کرنے پر انہیں مرکزی حکومت کی جانب سے اُس وقت کے وزیر مملکت برائے مالیات اجیت کمار پانجہ کے ہاتھوں اعزاز سے نوازا گیا تھا۔ اس جہازمیں بڑی مقدار میں سونے کی بسکٹ ہونے کی اطلاع ملنے پر غلام محمد اپنے ۴؍افسران اور کوسٹ گارڈ کے معاونین کے ساتھ ممبئی سے ۱۲۔ ۱۰؍کلو میٹر کی دوری پر موجود کلیمن ٹائن جہاز تک پہنچنے کیلئے روانہ ہوئے تھے۔ سمندر میں زبردست طغیانی تھی۔ جس جہاز سے وہ روانہ ہوئے تھے اگر اس جہاز کو مرسک کلیمن ٹائن جہاز کےقریب لے جاتے تودونوں جہاز کے متصادم ہونے کا خطرہ تھا، اس لئے کلیمن ٹائن جہاز سے کچھ دوری پر اپنے جہاز سے اُتر کرایک چھوٹے بوٹ کے ذریعے وہ اُس کی طرف روانہ ہوئے لیکن طغیانی کی وجہ سے پانی کی لہریں ان کے بوٹ کے اُوپر سے گزر رہی تھی۔ جس کی وجہ سے ایک تو بوٹ چلانے میں دشواری ہو رہی تھی دوسرے بوٹ کی موٹر میں پانی کے چلے جانے سے بوٹ بند ہوگئی تھی۔ ایسے میں ان لوگوں کیلئے بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، اس کے باوجود ان لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ موٹر کی مرمت خود کی اور کسی طرح کلیمن ٹائن جہاز کے قریب پہنچے، بوٹ سے چھلانگ لگا کر کلیمن ٹائن جہاز کی سیڑھی نما رسی کو پکڑنا بھی ایک دشوارکن مرحلہ تھا۔ خیر کسی طرح ان لوگوں نے کلیمن ٹائن جہاز پر پہنچنے میں کامیابی حاصل کی۔ اس کےبعد جہازکے ایک اہم رکن کو حراست میں لے کر تفتیش کی۔ اس نے بڑی مشکل سے بتایا کہ جہاز کی چھت پر لگی ٹیوب لائٹ اور اس کے اُوپرکی تنگ جگہ کے درمیان گولڈ بسکٹ کا ذخیرہ ہے۔ اس تنگ جگہ میں ایک ہی شخص کے جانے کی گنجائش تھی۔ جگہ تنگ ہونے کے علاوہ یہاں کیبل کا جال بچھا تھا۔ غلام محمد وہاں تنہا گئے تھے۔ بڑی مشکل اور جدوجہد کے بعد انہیں ایک ہزار ۹۹۵؍گولڈ بسکٹ ملے تھے۔ یہ ان کی سروس کےدوران سب سے بڑی چھاپہ مار کارروائی تھی۔ 
۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھو ٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران غلام محمد شیخ کی بہن جو ملاڈ کی چنچولی پاڑہ میں رہائش پزیر تھی، بری طرح پھنس گئی تھی۔ اس پورے علاقےمیں افراتفری کا ماحول تھا۔ ان کی بہن جس عمارت میں رہتی تھی، ان کے ہمسایہ برادران وطن نے اپنے گھر میں انہیں پناہ دی تھی لیکن مسلمان کو گھر میں تحفظ فراہم کرنے کی وجہ سےشرپسند انہیں بھی دھمکا رہے تھے، جس کی وجہ سے ان لوگوں نے غلام محمد کو فون کر کے کہاتھا کہ اپنی بہن کو آکر لے جائیں ، ہم زیادہ دنوں تک انہیں پناہ نہیں دے سکتے۔ اس وقت غلام محمد نے اپنے ایڈیشنل کمشنر مسٹر ایس این تھاپا سے پوری روداد بیان کر کے، بہن کو وہاں سے لانے کیلئے تعاون کر نےکی اپیل کی تھی۔ تھاپانے انہیں اپنی سرکاری گاڑی جس پر لال بتی لگی تھی، وہ دی تھی۔ غلام محمد چنچولی پاڑہ گئے، وہاں سے اپنی بہن کے علاوہ دیگر کچھ مسلمانوں کو گاڑی میں بٹھاکر لائے تھے۔ انہوں نے اس گاڑی سے ۲؍ٹرپ کی تھی۔ ان ٹرپ میں انہوں نے یہاں سے کئی مسلم فیملی کو لاکر محفوظ مسلم علاقوں میں منتقل کیا تھا۔ 
غلام محمد مہاراشٹر کالج کے پہلے بیج کے طالب علم تھے۔ اس وقت کالج کی تعمیر کا کام پورانہیں ہوا تھا۔ فنڈ کی قلت ہونے سے طلبہ کو ایک ایک روپے کا کوپن، فنڈ جمع کرنے کیلئے دیا گیا تھا۔ غلام محمد اپنے کچھ دوستوں کے ہمراہ پائیدھونی، بھندی بازار اور جےجے جنکشن پر واقع ہوٹلوں میں جاکر کوپن کےذریعے فنڈ جمع کیا کرتے تھے، لیکن اس سے بھی بات بنتی نہ دکھائی دینے پر کالج انتظامیہ اور طلبہ نے پرنس آغاخان کو کالج کے ایک پروگرام میں بحیثیت مہمان خصو صی مدعو کیا۔ پرنس آغاخان پروگرام میں آئے اور اس دور میں انہوں نے کالج کیلئے ۳؍لاکھ روپے کا فنڈ دیا تھا۔ جس سے کالج عمارت کا بقیہ تعمیراتی کام کیاگیا۔ 
غلام محمد اپنی اہلیہ زاہدہ شیخ اوربیٹی کے ہمراہ ۲۰۰۳ء میں حج کرنے گئےتھے۔ اُس سال وہاں بھگدڑ مچ گئی تھی جس میں تقریباً ۳۵۰؍حجاج شہید ہوئے تھے۔ اُس وقت یہ لوگ بھی بھگدڑمیں تھے، اسلئے وہاں کا پورا منظر اپنی آنکھو ں سے دیکھاتھا۔ لوگ ایک دوسرے کو پیروں سے کچل کر گزررہےتھے۔ وہاں کی بھاگ دوڑاور افراتفری دیکھ کر ان کی بیٹی بے ہوش ہوگئی تھی۔ بعد ازیں ایک گروپ نےان تینوں کو اپنے حصار میں لے کر انہیں ایک محفوظ مقام پر پہنچایا تھا۔ 
اندھیری انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر ڈیوٹی کےدوران امیتابھ بچن، شاہ رخ خان، سلمان خان، عامر خان اور دیگر معروف فنکاروں سے ملاقات اور بات چیت کرنےکاموقع ملا تھا۔ مختلف سرکاری محکموں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہنے سے ان کے تعلقات برادران وطن سےبھی بہت اچھے ہیں۔ جوگیشوری کے ڈاکٹر ارون رانےان میں سے ایک ہیں، جن سے ان کے گھریلومراسم ۱۹۷۸ء سے ہیں۔ دونوں فیملی ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے کےساتھ تفریح کیلئے بیرون ممبئی بھی جاتے ہیں۔ ایک دوسرے کے تہوار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتےہیں۔ ان کےباہمی تعلقات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہی اصل ہندوستان ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK