بھیونڈی کی معروف شخصیت محمدیوسف رمضان مومن، بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی اور بھیونڈی کوآپریٹیو سوسائٹی کے علاوہ مومن اسپورٹس کلب اور متعدد سماجی، تعلیمی اور ملّی ادارو ں سے وابستہ ہیں۔ ۸۷؍سال کی عمر میں بھی پوری طرح سے چاق چوبند اور سرگرم ہیں۔
EPAPER
Updated: June 18, 2025, 9:53 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کی معروف شخصیت محمدیوسف رمضان مومن، بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی اور بھیونڈی کوآپریٹیو سوسائٹی کے علاوہ مومن اسپورٹس کلب اور متعدد سماجی، تعلیمی اور ملّی ادارو ں سے وابستہ ہیں۔ ۸۷؍سال کی عمر میں بھی پوری طرح سے چاق چوبند اور سرگرم ہیں۔
بھیونڈی، صمدنگرکی معروف صنعتی، سماجی، تعلیمی اورملّی شخصیت محمد یوسف رمضان مومن کی پیدائش یکم جون ۱۹۳۷ء کو بنگال پورہ (بھیونڈی) میں ہوئی تھی۔ پتھروالی میونسپل اُردو اسکول سے پرائمری اور پھررئیس ہائی اسکول سے۸؍ویں تک پڑھائی کی۔ انجمن اسلام ( سی ایس ایم ٹی ) سےمیٹرک پاس کرنےکےبعد معروف تعلیمی ادارےسینٹ زیوئرس کالج سے انٹر سائنس پاس کیا۔ آبائی کاروباری ذمہ داری کی وجہ سےآگے کی پڑھائی نہیں کرسکے۔ لوم کے کاروبارکواپنی انتھک محنت سے ترقی کی جانب گامزن رکھا۔ لوم کے شعبے میں بھیونڈی کی رمضان نبوّ ویونگ فیکٹری کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ اپنی کمپنی کوعروج پر پہنچانےکیلئے انہوں نے ورلی پرواقع ساسمیرا اِ نسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن اینڈ ٹیکسٹائل سے ڈائنگ اینڈ پرنٹنگ کا سرٹیفکیٹ کورس بھی کیا۔ ساسمیرا کے بانیان میں اس خانوادہ کا بھی اہم رول رہا ہے۔ اس کے بنیاد گزاراداروں کی فہرست میں آج بھی رمضان نبوّ ویونگ فیکٹری کانام درج ہے۔ لوم کےعلاوہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے بھی وابستگی رہی۔ بھیونڈی ویورس ایجوکیشن سوسائٹی اور بھیونڈی کوآپریٹیو سوسائٹی کے علاوہ مومن اسپورٹس کلب اور متعدد سماجی، تعلیمی اور ملّی ادارو ں سے وابستہ ہیں اور ۸۷؍سال کی عمر میں بھی پوری مستعدی سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہےہیں۔
سینٹ زیوئرس کالج میں پڑھائی کےدوران کئی اہم شخصیات سے رابطہ رہا۔ گودریج خاندان سے تعلق رکھنے والے ادی گودریج ان کے ہم جماعت تھے۔ اُس دورمیں سینٹ زیوئرس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سےلگایاجاسکتاہےکہ اس میں داخلے کیلئے دھوبی تلائو جنکشن سے بی ایم سی کےصدر دفتر تک قطار لگتی تھی۔ ہر طالب علم کا باریکی سےانٹرویولیاجاتاتھا۔ طبیعت کی شوخی کی وجہ سے، یوسف مومن نے کالج میں بہت جلد مقبولیت حاصل کرلی تھی۔ اپنی شرارتوں سے، دوستوں میں خوب شہرت پائی تھی۔
مومن اسپورٹس کلب (بھیونڈی )کی شہرت میں یوسف رمضان کا بڑا عمل دخل ہے۔ ایک مرتبہ لوناولہ میں ہونےوالے کرکٹ ٹورنامنٹ میں حصہ لینےکیلئے اپنی ٹیم کےساتھ گئے تھے۔ حریف ٹیم میں رنجی ٹرافی کے ۶؍کھلاڑی شامل تھے، جن میں ہندوستانی کرکٹ ٹیم کےمایہ نازبلےباز چیتن چوہان بھی تھے۔ مومن اسپورٹس کلب کےگیندبازنے انہیں صفر پر ایل بی ڈبلیو آئوٹ کیاتھالیکن امپائرنے آئوٹ نہیں دیا، جس کی وجہ سے مومن اسپورٹس کلب کے کھلاڑی شدید ناراض ہوئے۔ ان کھلاڑیوں نے اس کی وجہ سے بھاری برہمی پائی جارہی تھی۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں مومن اسپورٹس کلب کے ایک بالرنے چیتن چوہان کو کلین بولڈ کرکے پویلین کاراستہ دکھادیا۔ میچ ختم ہونے کے بعد مومن اسپورٹس کلب کے کھلاڑیوں نے امپائرسے چیتن چوہان کوپہلے آئوٹ نہ دینے کی وجہ دریافت کی لیکن ان سے کوئی معقول جواب نہیں بن پڑا۔
معروف کرکٹر سلیم درانی سےیوسف مومن کے قریبی مراسم تھے۔ انجمن اسلام میں پڑھائی کےدوران دونوں ثوبانی ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ایک ساتھ کھاناپینا اورگھومناپھرناہونے سے دونوں میں خوب بنتی تھی۔ سلیم درانی کاہندوستانی ٹیم کیلئے انتخاب ہوناتھا۔ اس روزسلیم درانی نے یوسف مومن کوبریبورن اسٹیڈیم (چرچ گیٹ ) بلایا تھا۔ انتخاب ہونےکےبعد سلیم درانی نےاسٹیڈیم میں موجودسبھی لوگوں سے یوسف مومن کاتعارف کروایا تھا۔ پھر پتہ نہیں کیا ہواکہ جب ٹیم میں منتخب کھلاڑیوں کے ناموں کا اعلان کیا گیاتو اس میں ان کا نام شامل نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے کرکٹ شائقین بالخصوص سلیم درانی کے مداحوں میں مایوسی اور برہمی کے ملے جلے کے جذبات پائے جارہے تھے۔ یہ برہمی اس قدر تھی کہ یوسف مومن اور ان کے گروپ کےکچھ اورساتھیوں نے اس دور کے انتخابی کمیٹی کےرکن معروف کرکٹر وجے مرچنٹ کی رہائش گاہ کے باہر’نودرانی نوٹیسٹ ‘ کا پمفلٹ چسپاں کرکے اپنی ناراضگی کااظہارکیاتھا، جس کی وجہ سے درانی کو دوبارہ ٹیم میں شامل کیاگیا۔ کھیل سے سبکدوشی کے بعدبھی درانی اور یوسف مومن کےمراسم برقراررہے۔
جن دنوں یوسف مومن، انجمن اسلام میں زیرتعلیم تھے، انہیں دنوں فلم اداکار دلیپ کمار وہاں ایک پروگرام میں شرکت کیلئے آئے تھے۔ اس موقع پر یوسف مومن اور ان کے ایک ساتھی نے’شیطان اور انسان‘ کے عنوان سے ایک پلے پیش کیا تھاجس میں یوسف مومن نے شرابی کا کردار نبھایاتھا۔ اس ڈرامے کے ایک منظر میں اذان کی صداکے بلندہونےپر یوسف مومن کے ہاتھ سے شراب کا گلاس گرجاتاہے، اس منظرسے متاثر ہوکردلیپ کمار نے منتظمین سے ان دونوں طلبہ سے ملنے کی خواہش ظاہرکی تھی۔ پروگرام کے اختتام پردلیپ کمار نے یوسف مومن اور ان کے ساتھی کی خوب ستائش کی تھی۔
یوسف رمضان مومن آٹھویں جماعت میں زیر تعلیم تھے، اس دور میں بھیونڈی میں کالرا کی وباءپھیلی تھی۔ کالراکے خوف سے لوگ گھروں سے باہر نہیں نکل رہےتھے۔ بہت سارے خاندان بھیونڈی سےکوچ کر گئے تھے۔ کالرا سے متاثر ہونے والوں کیلئےعیدوسیٹھ کےکمپائونڈ( مقابل رئیس ہائی اسکول)میں ایک ٹینٹ بنایاگیاتھاتاکہ انہیں یہاں رکھ کرعلاج کیا جاسکے۔ یہ ٹینٹ آج بھی موجود ہے۔ لوگ متاثرین کے پاس جانے سے ڈرتے تھے لیکن کچھ ایسے بھی انسانیت نواز لوگ تھے، جوجان پر کھیل کر متاثرین کی مددکوپہنچتے تھے۔
آزادی کےبعدپھوٹ پڑنےوالے فساد ات کی کچھ یادیں بھیونڈی سے بھی وابستہ ہیں۔ لوم کے کاروبار کی وجہ سےبھیونڈی میں خوشحالی تھی۔ جو لوگ ملک چھوڑکر جارہےتھے، ان میں سے کچھ اپناسازو سامان فروخت کرنےکیلئے بھیونڈی آئے تھے جن سےیوسف مومن کے گھروالوں نے بھی کچھ سامان خریدا تھا۔ وہ سامان آج بھی ان کے گھر میں محفوظ ہے۔
یوسف مومن کےوالد رمضان مومن نے اُس دورمیں اپنے برادرِنسبتی یونس حاجی عبدالصمد سیٹھ کو سورت سے ایک شاندار گھوڑا گاڑی لاکر دی تھی۔ اس گھوڑے کانام بلبل تھا۔ روزانہ شام کوشاہانہ انداز میں بنگال پورہ کے اصطبل سے جب یہ گھوڑا گاڑی نکلتی، ایک زوردار گھنٹے کی آواز سے اس کی آمد کا اعلان ہوتا، لوگ گھرو ں سےباہر نکل کر اس سواری کانظارہ کرتے۔ بھیونڈی میں اس زمانے میں اس طرح کی کوئی گھوڑا گاڑی نہیں تھی۔
یوسف مومن کو شعروادب سے بھی خاصہ شغف ہے۔ جگرمراد بادی، خماربارہ بنکوی، کیفی اعظمی اور اس دور کے دیگر معروف شعراء کو بہت قریب سے دیکھنے اور انہیں سننے کے کئی مواقع انہیں ملے ہیں۔ جگر مرادبادی جب حج بیت اللہ پر جا رہے تھے، اُس وقت وہ ممبئی آئے تھے۔ ان کے اعزاز میں انجمن اسلام میں ایک شاندارعشائیے کا اہتمام کیاگیاتھا۔ اس تقریب میں یوسف مومن بھی شریک تھے۔
انجمن ا سلام سے متصل جے جے اسکول آف آرٹس میں اس دور کے قدآور لیڈران آتے تھے۔ یوسف مومن نے جواہر لال نہرو، مولانا ابوالکلام آزاد، مرارجی دیسائی اور دیگر اہم لیڈران کو وہیں پر بہت قریب سے دیکھا تھا۔ اس زمانےمیں سیکوریٹی کاکوئی خاص انتظام نہیں ہوتاتھا۔ لیڈران اپنی موٹرگاڑیو ں سے اُترکر پیدل ہی تقریب کی جگہ تک جاتے تھے۔ سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان اور راجیوگاندھی کو بھی دیکھنے کاموقع ملا۔
بھیونڈی سے متعلق یوسف مومن کانظریہ ہےکہ اگر یہاں کے لوگوں نے لوم انڈسٹری کی ویسی قدرکی ہوتی جیسی کی کی جانی چاہئے تو یہ شہر آج کسی اور مقام پر ہوتالیکن لوگوں نے اس صنعت کی اہمیت اور افادیت کوسمجھنے اوراپنانے کی کوشش نہیں کی۔ اب یہاں کےلوگ تعلیم اور لوم کے ہنرسے دور ہونے کاخمیازہ بھگت رہےہیں۔ ہم اسی بھیونڈی سے پوری دنیامیں کپڑےایکسپورٹ کرتےتھے۔ اس دور میں کافی خوشحالی تھی۔ یہاں کی سرزمین دن رات لوم کی آواز سے پیدا ہونے والی موسیقی سے گو نجتی تھی لیکن اب یہ شہر خاموش ہوگیاہے، جس کاافسوس ہے۔