باندرہ نوپاڑہ کے ۸۹؍سالہ عبدالرحمان شیخ ریلوے کے میکانیکل ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے ہوئے ۱۹۹۴ء میں اسسٹنٹ فورمین کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ گزشتہ ۳۵؍سال سے ملّی، دینی، تعلیمی اور سماجی کاموں سے وابستہ ہیں۔
EPAPER
Updated: February 23, 2025, 1:51 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
باندرہ نوپاڑہ کے ۸۹؍سالہ عبدالرحمان شیخ ریلوے کے میکانیکل ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کرتے ہوئے ۱۹۹۴ء میں اسسٹنٹ فورمین کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ گزشتہ ۳۵؍سال سے ملّی، دینی، تعلیمی اور سماجی کاموں سے وابستہ ہیں۔
باندرہ (مشرق) میں واقع نوپاڑہ محلہ کے عبدالرحمان محمد نصیر شیخ کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں میں یکم نومبر ۱۹۳۶ء کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم نوپاڑہ کی میونسپل اُردو اسکول سے چہارم جماعت تک حاصل کی، بعد ازیں انجمن اسلام سی ایس ایم ٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے میٹرک پاس کرنےکےبعد ۱۹۵۵ء میں ریلوے میں بھرتی جاری تھی تو میکانیکل ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کا موقع ملا۔ ۱۹۹۴ء تک ملازمت کی اور اسسٹنٹ فورمین کی حیثیت سے سبکدوش ہوئے۔ گزشتہ ۳۵؍سال سے ملّی، دینی، تعلیمی اور سماجی کاموں سے وابستہ ہیں۔ دعوت کے کام کیلئے بنگلہ دیش اوردیگر بیرو نی ممالک بھی جانے کا موقع ملا ہے۔ عمر کے اس مرحلے میں بھی نوپاڑہ مشرق سے باندرہ مغرب میں واقع نوپاڑہ کوکنی مسجد میں نماز کی ادائیگی کیلئے پابندی سے جاتےہیں ۔ مطالعہ کا بڑا شوق ہے۔ تقریباً ۸۰؍ سال سے روزنامہ انقلاب کا مطالعہ کررہےہیں۔ آج بھی بڑی پابندی سے روزانہ علی الصباح انقلاب کامطالعہ کرتےہیں۔
عبدالرحمان شیخ نے ۱۵۔ ۱۴؍سا ل کی عمر میں ملک کےپہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروکو نوپاڑہ سے کھیرواڑی کی جانب موٹر گاڑی سے گزرتے دیکھاتھا۔ پنڈت جی اور ان کے ساتھیوں کا، عبدالرحمان اور ان کے دوستوں نے نوپاڑہ میں ہاتھ دکھاکر استقبال کیاتھا۔ دراصل نہرو جی، اس وقت کے مقامی سینئر کانگریسی لیڈر بی جے کھیر کی ماچس فیکٹری کی عمارت کی بنیاد رکھنے، کھیرواڑی، باندرہ آئے تھے۔ پنڈت نہر ونے مخصوص پیٹرن کا کرتاپائجامہ اور برائون رنگ کی شیروانی پہن رکھی تھی، شیروانی کی جیب سے خوبصورت گلاب جھانک رہا تھا۔ وہ خوبصورت، وجیہہ اور جاذب نظر شخصیت کے مالک تھے۔ اس موقع پر پنڈت جی نے ملک کی اہمیت اورافادیت پر ایک بہترین تقریربھی کی تھی۔
عبدالرحمان نے ۴۰ء کی دہائی کے کرلااور باندرہ کو بڑے قریب سے دیکھاہے۔ اس دور میں ان دونوں ریلوے اسٹیشنوں کے مابین کوئی آبادی نہیں تھی، صرف بیابان اور کھنڈر کا بسیرا تھا۔ باندرہ کے نوپاڑہ سے کرلا ریلوے اسٹیشن اور کرلا سے باندرہ ریلوے اسٹیشن کو آسانی سے دیکھا جاسکتاتھاکیونکہ ان دونوں اسٹیشنوں کے مابین کچھ بھی حائل نہیں تھا، صرف کھنڈرات کا سلسلہ تھالیکن آج وہی علاقہ ’بی کے سی‘ جیسا مصروف اورمہنگا علاقہ بن گیا ہے۔
عبدالرحمان کے بچپن کا ایک دردناک واقعہ ہے جس میں ان کی جان بڑی مشکل سے بچ پائی تھی۔ نوپاڑہ میں اپنے گھر کے پاس شریفہ کے ایک درخت کی ٹہنی پکڑکر وہ جھولا جھول رہےتھے۔ عین اسی وقت ان کے ایک دوست نے مذاق کے طورپر اُن کی ٹانگ پکڑکر کھینچ لی۔ اس کی وجہ سے وہ ٹہنی سے سیدھے درخت کے نیچے بنی آہنی چہاردیواری پر آ گرے۔ چہار دیواری کی نوکدارسلاخوں میں ان کا ایک پیر دھنس گیا، جس کی وجہ سے ان کے پیرکااُوپری حصہ بری طرح زخمی ہو گیا تھا۔ حادثےکی اطلاع جیسے ہی ان کے بڑے بھائی کو ملی، وہ گھبرائے ہوئے آئے، انہیں فوری طورپر اسپتال لے جانےکا فیصلہ کیاگیالیکن اس دور میں موٹرگاڑی یا با ئیک کا چلن نہیں تھا۔ بڑے بھائی نے کسی طرح ایک گھوڑا گاڑی کاانتظام کیا، گھوڑا گاڑی کےذریعے انہیں بھابھا اسپتال لے جایاگیا۔ ا س زمانےمیں بے ہوش کرکے ٹانکامارنےکا رواج نہیں تھا۔ انہیں بغیر بے ہوش کئے ۸۔ ۷؍ ٹانکے لگائے گئے۔ تکلیف کی شدت سے وہ چلارہے تھے، کئی دوستوں نے انہیں پکڑ رکھا تھا۔ وہ وہاں ایک ہفتے تک اسپتال میں زیر علاج رہے لیکن وہ ساری باتیں آج بھی یاد ہیں۔
عبدالرحمان کے اسکول کے ساتھیوں میں معروف کرکٹر سلیم درانی بھی تھے۔ ہم جماعت ہونے کی وجہ سے بات چیت بھی ہوتی تھی۔ سلیم درانی کو پڑھائی سے زیادہ کرکٹ کھیلنے کا شوق تھا۔ اسلئے وہ اسکول کم آتے تھے۔ عبدالرحمان ایک مرتبہ سلیم درانی کا میچ دیکھنے بریبورن اسٹیڈیم گئے تھے۔ اس دن انہوں نے سلیم درانی کا اصلی روپ دیکھا تھا۔ اسٹیڈیم میں جس طرف سے بھی سکس مارنےکی مانگ ہوتی، سلیم درانی اسی جانب سکس مارکر مداحوں کی خواہش پوری کررہے تھے۔ پورے اسٹیڈیم میں سلیم درانی کے نام کا شور گونج رہاتھا۔ اس دور میں انجمن اسلام کی کرکٹ ٹیم بہت مضبوط تھی، ہیرش شیلڈ کا فائنل مقابلہ انجمن اسلام ہی جیت کرآتی تھی۔
عبدالرحمان شیخ کی شادی ۱۹۶۰ءمیں ہوئی تھی۔ اس دور میں نکاح سے ایک روز قبل عشاء کی نمازکےبعدمحلہ کے لوگوں کو دولہاوالوں کی جانب سے ’چائے پان‘ کی دعوت دی جاتی تھی۔ یہاں دولہاوالوں کی طرف سے میٹنگ کے شرکاء کی خدمت میں چائے پان پیش کرنےکےساتھ ان سے نکاح میں شریک ہونے اور شادی کے کاموں کو بحسن وبخوبی انجام دینےمیں تعاو ن کرنےکی اپیل کی جاتی تھی۔ اس زمانےمیں دلہن کے بجائے دولہاکےگھر پر مہمانوں کی ضیافت کا انتظام کیاجاتاتھا۔ ضیافت کےبعد میلاد شریف کا انعقاد کیاجاتا تھا۔ بعدازیں دھوم دھام سے باجے گاجے کے ساتھ بارات نکالی جاتی۔ ۵؍منٹ کاسفر ۲؍گھنٹے میں طے کیا جاتا تھا۔ بارات پورے محلہ کاگشت کرنے کے بعددلہن کے گھر پہنچتی تھی۔ نکاح کے بعد بارات کے مہمانوں کو رخصت کردیاجاتا تھاکیونکہ وہاں پر ضیافت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا۔
عبدالرحمان شیخ نے تقریباً ۴۰؍سال ریلوے میں ملازمت کی۔ اس دوران ۱۹۹۲ءمیں بابری مسجد کی شہادت کےبعد پھوٹ پڑنے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران، ماٹنگاورکشاپ پراُن کی ڈیوٹی تھی۔ یہ ورکشاپ کافی وسیع و عریض احاطےپر مشتمل ہے۔ یہاں کےاسٹور روم میں جانےکا راستہ بڑاسنسان اور خوفناک تھا۔ داڑھی اور ٹوپی کی وجہ سے ان کی شناخت بحیثیت مسلمان آسانی سے ہوجاتی تھی۔ اس وجہ سے ان کے چیف انجینئر راجے صاحب نے ان کے تحفظ کیلئے انہیں تنہااسٹورروم میں جانے سے منع کررکھاتھا۔ انہوں نے کہاتھاکہ اسٹور روم میں آپ تنہا نہیں جائیں گے، جب بھی وہاں جانا ہو، دوچار ساتھیوں کے ہمرا ہ جائیں۔ راجے صاحب کی اس ہمدردانہ طرز عمل کو عبدالرحمان نہیں بھولے ہیں۔
عبدالرحمان شیخ کو فلمیں دیکھنے کابھی بڑا شوق تھا۔ سنیماگھروں میں فلمیں دیکھنے کیلئے وہ اپنے دوستوں کے ہمراہ لوکل ٹرین سے باندرہ سے گرانٹ روڈ جاتےتھے۔ انہیں ماردھاڑ والی فلمیں زیادہ پسند تھیں ۔ اس طرح کی فلمیں نشاط ٹاکیز میں لگا کرتی تھیں۔ گھر سے ۵؍آنے کا انتظام کرکے وہ دوستو ں کےہمراہ نشاط ٹاکیز پہنچ جاتےتھے۔ فلموں کے اسی شوق کی وجہ سےمحبوب اسٹوڈیو باندرہ میں فلم ’آن‘ کی شوٹنگ کےدوران دلیپ کمار اور نادرہ کو بھی قریب سے دیکھنے کااتفاق ہوا ہے۔ ان کے پسندیدہ اداکاروں میں دلیپ کمار، دیو آنند اور راج کمار شامل تھے۔
عبدالرحمان شیخ، دعوت کے کام سے ۲؍مرتبہ بنگلہ دیش کادورہ کر چکےہیں۔ ان دوروں میں وہاں کے لوگو ں کی مہمان نوازی، پیار وخلوص اور بھائی چارگی سے بہت متاثرہوئے لیکن وہاں کی غربت سے انہیں کافی صدمہ بھی پہنچا۔ عبدالرحمان کے مطابق وہاں کے لوگ خود کہتے ہیں کہ ۶؍مہینے ہم مچھلی کھاتے ہیں اور ۶؍مہینے مچھلی ہمیں کھاتی ہے۔ معاشی بحران کے ساتھ ہی سیلاب نے ان کی زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ ایسےمیں بنگلہ دیش کے لوگوں کی پریشانی دیکھ کر دل بھرآتاہے۔
عبدالرحمان شیخ کو فلموں کےعلاوہ کشتی کے مقابلے دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اس دور میں پاکستانی پہلوانوں کا بہت چرچہ تھا۔ اکرم اوربھولووغیرہ کی ایک جھلک پانےکیلئے مداح گھنٹوں باہر کھڑے رہتےتھے۔ عبدالرحمان شیخ بھی اپنے دوستوں کے ہمراہ نل بازار کے ایک گیسٹ ہائوس کے باہرپہلوانوں کو دیکھنےکیلئےگھنٹوں کھڑے رہے تھے۔ پاکستانی پہلوان وہیں قیام کرتےتھے۔ بھولو پہلوان ایک مرتبہ نوپاڑہ بھی آئے تھے۔ یہاں ایک چارپائی پر وہ بیٹھے توپوری چارپائی ان کے بھاری بھرکم جسامت سے گھر گئی تھی۔ کشتی کامقابلہ دیکھنے میں بڑا لطف آتاتھا۔