Inquilab Logo

’’۱۹۶۱ء میں پہلی بار حج کیلئے گئی تھی، واپسی پربحری جہاز سمندر میں پھنس گیا تھا ‘‘

Updated: April 21, 2024, 3:20 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

مالیگائوں کی ۱۰۲؍سال کی تسلیمہ محمد حنیف کی یادداشت قابل رشک ہے ، مطالعہ آج بھی اُن کے معمولات میں شامل ہے، پوری طرح سے فعال ہیں اور ۹؍بیٹے اور۴؍ بیٹیاں، ۲۱؍ پوتے ،۱۹؍پوتیاں ،۱۰؍نواسے اور ۱۰؍نواسیوں پر مشتمل خاندان کی سربراہی کررہی ہیں۔

Taslima Muhammad Hanif. Photo: INN
تسلیمہ محمد حنیف۔ تصویر : آئی این این

گوشۂ بزرگاں کالم کے تعلق سے مالیگائوں کے ساتھی صحافی مختار عدیل سے اکثر گفتگو ہوتی رہتی ہے۔ ایک روزانہوں نے پارچہ بافی کیلئے معروف شہر کی ۱۰۲؍ سالہ معمر خاتون کا ذکر کرتے ہوئے ان کی زندگی کے تجربات اورقیمتی معلومات کو کالم میں شائع کرنےکامشورہ دیا۔ ان کی تجویز پر مالیگائوں، نیاپورہ،نویں گلی کی تسلیمہ محمد حنیف (یونیورسل )سے گفتگو ہوئی جوانتہائی معلوماتی اور کافی دلچسپ رہی۔ 
  تسلیمہ سے ملاقات کیلئے جب کالم نگار اُن کے مکان واقع نیاپورہ نویں گلی پہنچاتو اُن کے ساتھ ان کی سب سے بڑی بہوعابدہ عبید الرحمان علیگ(گریجویٹ اِن کیمسٹری )، پوتا کفیل الرحمان اور سعد،پوت بہو لبنیٰ، پوتی صبا انجم اور پرنواسہ عبدالرحمان کے ساتھ منجھلی بیٹی زاہدہ محمد حنیف موجود تھے۔ ان تمام نے بھی ان کی باتیں بغور سماعت کیں۔ 
 تسلیمہ محمدحنیف مالیگائوں کے’درگاہی‘ خانوادہ میں ۱۹۲۲ءمیں پیدا ہوئیں۔ والدکانام عبدالمجید درگاہی اور والدہ کانام زہرہ درگاہی کی وجہ تسمیہ سے وہ خود ناواقف ہیں۔ ان کی شادی ۱۹۴۷ء میں ملک کو ملنے والی آزادی سے قبل محمد حنیف سے ہوئی تھی۔ اس زمانے میں سونے کی قیمت ۱۵؍ روپے تولہ اور چاندی ۶؍روپے میں تھا۔ تسلیمہ محمد حنیف کے ۹؍بیٹے اور۴؍ بیٹیاں ہیں۔ ۲۱؍ پوتے،۱۹؍پوتیاں،۱۰؍نواسے اور ۱۰؍نواسیوں پر مشتمل ایک بھرے پُرے کنبے کی سربراہی شوہر محمد حنیف کے انتقال (۱۹۷۶ء)کے بعد سے اب تک وہ کررہی ہیں۔ ہوش وحواس سلامت ہیں۔ یادداشت بھی برقرار ہے۔ صحت بھی اطمینان بخش ہے۔ اس طویل عمری میں کبھی انہیں کسی مہلک یا خطرناک مرض کے سبب اسپتال داخل کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ 
 تسلیمہ محمد حنیف نے ساڑھے ۶؍سال کی عمر میں پارسی سوڈافیکٹری، مصری خان کاباڑہ علاقہ میں واقع میونسپل اسکول کےاوّل جماعت میں داخلہ لیا تھا۔ وہاں سے ۷؍ویں جماعت کامیاب ہوکر نکلیں۔ اُس وقت ساتویں جماعت کو میٹرک کا درجہ حاصل تھا۔ فاطمہ استانی کے علاوہ کئی معلمات، وہاں طالبات کو پڑھایا کرتی تھیں۔ علامہ اقبالؔ کی دعا ’لب پہ آتی ہے دعابن کے تمنا میری’ گنگنانے کے بعد تدریسی سرگرمیاں شروع ہوتی تھیں۔ اُردو حروف تہجی لکھنے کیلئے ہر طالبہ کے پاس برّو(ایک قسم کی قلم جو فن خوش نویسی کیلئے مستعمل ہے)اور دوات ( روشنائی) ہونالازمی تھا۔ طالبات کواُردو کے الف،ب،ت خوش خط لکھوائے جاتے تاکہ ابتدائی جماعتوں سے اُن کی رائٹنگ اچھی رہے۔ 
 تسلیمہ ۱۹۶۱ءمیں پہلی مرتبہ چاچا اسماعیل درگاہی اور چاچی صغریٰ کے ہمراہ حج پر گئی تھیں۔ بیٹا شفیق الرحمان جس کی عمر صرف ۱۰؍ماہ تھی اُسے بھی گود میں ساتھ لے گئی تھیں۔ بخیر وعافیت سرزمین مقدس پہنچے۔ ارکان کی ادائیگی ہوئی۔ سخت گرمی، کڑک دھوپ اور اُس وقت حرم کا احاطہ ریتیلاتھا۔ کمسن بیٹے کو سینے سے چمٹائے طواف کے دوران عربی عورتیں انہیں بغور دیکھتیں۔ واپسی میں بحری جہاز عدن کے سمندر میں پھنس گیا تھا۔ ۲؍دن تک ایک زاویئے پر جہاز کھڑا رہا۔ کوئی امید نظر نہیں آر ہی تھی۔ سارے حجاج زاروقطار رورہے تھے۔ گریہ وزاری کرکے بارگاہِ رب العالمین میں فریاد کررہےتھے۔ جہازکے سطحی حصے میں پانی بھرگیا تھا۔ موسمی تبدیلی اور ہوا کے تھپیڑوں سے متاثر ہوکرحجاج نے جابجا قئے کر دیئے تھے۔ تیسرے دن طلوع آفتاب کے ساتھ خود بخود جہاز کا رُخ بدلا۔ ایک زاوئے پر ٹکا ہوا جہاز ملک ہندوستان کی سمت ہوا کے دوش پر چلنے لگا، سارے حاجیوں کی جان میں جان آئی۔ تسلیمہ نے اس کے بعد بحری جہاز سے سفرِحج نہیں کیا۔ 

یہ بھی پڑھئے:ساتویں دہائی میں ایک بار اَناج کی قلت پیدا ہوگئی تھی

ہاتھ کرگھے کی صنعت پر بھاری ٹیکس لگانے اور بنکروں کو مہنگی قیمت میں بجلی فراہمی کا حکومتی منصوبہ عیاں ہونے پر مالیگاؤں کے بُنکروں کے ہوش اُڑ گئےتھے۔ ان مسائل کے سدباب کیلئے حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی خاطر محمدحنیف کو پیش رفت کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ محمد حنیف نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے اُس وقت کے وزیر اعظم مرار جی دیسائی سے ممبئی میں ملاقات کاوقت لیا۔ ان کے ساتھ مالیگاؤں کے بنکروں کا ایک وفد ممبئی پہنچا۔ مرار جی دیسائی سے ملاقات کرنے کیلئے بہت سارے افراد تھے۔ اس موقع پر محمد حنیف نے با آواز بلند کہا کہ پارچہ بافی صنعت سے ہریجن سے لے کر برہمن تک سب کو روزگار ملتا ہے۔ یہ جملہ سن کر دیسائی چونکے پھر پوری طرح متوجہ ہو کر مالیگاؤں کے پارچہ بافوں کے مسائل سنے۔ فوری طور سے وزارتِ ٹیکسٹائل کو احکامات جاری کئے کہ اس صنعت کیلئے سستی بجلی فراہم کی جائے اور بھاری بھرکم ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے۔ اس واقعہ کی راوی تسلیمہ محمد حنیف ہیں۔ 
 ۱۹۷۰ءکے پہلے تک مالیگائوں میں پاورلوم پر رنگین ساڑیاں تیارکی جاتی تھیں۔ سُوت کاتنے کیلئے گھروں میں چرخے ہوتے تھے۔ ایک پولا (سُوت کی مالائیں یا مالائوں کامجموعہ)سوت میں ۱۰؍لٹی( سوت کی ایک مالا) سُوت ہوتا۔ ایک پولے کی نری( جس پر سوت کی کتائی ہوتی ہے) بھروائی کی اجرت ایک آنہ یا دوآنہ ہوتی۔ سُوت کی قسم کے لحاظ سے اُجرت طے کی جاتی تھی۔ گھرگرہستی کے ساتھ ایک ذمہ دارخاتون ۵؍پولا سُوت چرخے کی مددسے نری پر بھرائی کرلیتی تھی۔ عام طور سے گھروں کے مرد ہاتھ ماگ (کرگھا)پرمزدوری کرتے اور خواتین و لڑکیاں سُوت کاتنے کا کام کیاکرتی تھیں۔ پورا شہر کسب حلال کیلئے محنت ومشقت کی عملی تصویر پیش کرتا۔ رنگین ساڑی تیار کرنے کی صنعت روبہ زوال ہونے کے بعدکاٹن،کیمرک اور پاپلین کے کپڑے لُوم پر بنائے جانے لگے۔ 
  تسلیمہ محمد حنیف نےدوسری جنگ عظیم کی وجہ سے انگلستان کے صنعتی انقلاب کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کے خطرناک اثرات مالیگائوں میں بھی دِکھائی دیئے تھے۔ ممبئی،سورت اور برہانپور جیسے صنعتی شہروں نے مالیگائوں کی صنعتی ترقی کیلئے نئی راہیں پیدا کی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں انگلستانی منڈیاں ٹھپ پڑگئی تھیں۔ ہندوستان میں تیار ہونے والے کپڑوں کے خریدارنہیں تھے۔ برطانوی طاقت کے زیر اثر بھارتی صنعتی علاقوں میں کارخانے اور فیکٹریاں بند ہونے لگی تھیں۔ بے روزگاری عام ہوگئی تھی۔ سُوت کی ملوں میں تالے پڑگئے تھے۔ بمبئی کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو گہن لگنے لگا تھا۔ اس سے مالیگائوں بھی متاثر ہوا تھا۔ بہت سارے مزدور کھیتوں میں کام پر جانے لگے تھے۔ شمالی ہند سے آنے والے مزدوروں نے متبادل روزگار کی تلاش میں ہجرت کرلی تھی۔ 
 آزادی کےبعد مرکزی حکومت نے رنگین ساڑی کی صنعت پر بے جا قوانین نافذالعمل کئے۔ ساڑی تیار کرنے کیلئے درکار ’زری ‘کی بلیک مارکیٹنگ ہونے لگی۔ ایکسائز ڈیوٹی کے دائرے میں پلین پاورلوم( سادہ لوم) شامل کرنے کے فیصلے ہوئے۔ اس وجہ سے مالیگائوں کے بُنکروں و صنعت پر نئی آفت آگئی۔ ایسی صورت حال میں شہر کے سرکردہ بُنکر اور سیاسی لیڈران نے تسلیمہ کےخاوند محمد حنیف سےصنعتی حالات پر نمائندگی کیلئے پیش رفت کرنے کی درخواست کی۔ محمد حنیف کے کہنےپراُن کی بیٹی آمنہ نے اپنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی ایک سہیلی کنیزفاطمہ کو ایک دردبھرا خط لکھ کرمالیگائوں کے دگر گوں صنعتی حالات گوش گزار کئے۔ کنیز فاطمہ اس وقت کے یوپی سے تعلق رکھنے والے مشہور کانگریسی لیڈرضیاء الرحمان انصاری ( جن کا۶؍اکتوبر۱۹۹۲ء کو انتقال ہوا)کی اہلیہ تھیں جو مرکز میں وزیر (صنعت) اور پنڈت نہرو اوراِندرا گاندھی کے قریبی ساتھیوں میں تھے۔ یہی نسبت ضیاء الرحمان انصاری کے دورئہ مالیگائوں کا ذریعہ بنی۔ خط ملتے ہی کنیز فاطمہ کی سفارش پر ضیاء الرحمان انصاری نےمالیگائوں کادورہ کیا۔ کنیز فاطمہ بھی ساتھ میں آئی تھیں۔ انصاری صاحب منماڑ تک بذریعہ ریل اور وہاں سے یونیورسل فیملی کی مشہور ایمبسڈرکار سے مالیگائوں پہنچے تھے۔ شہر کی گلیوں میں چرخے پر سُوت کاتنے والی خواتین،کارخانوں میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے مزدوروں، پاورلوم مالکان اور سُوت رنگائی کرنے والوں سے تبادلہ خیال کیا۔ واپس دہلی پہنچ کر اِندراگاندھی سے میٹنگ کی اور مالیگائوں کے بُنکروں کے وفدکو دلّی بُلواکر رنگین ساڑی پر نافذالعمل سخت قوانین میں ترمیم کروائی۔ اس کے بعد شہر مالیگائوں میں رنگین ساڑی تیار کرنے کا سلسلہ ازسرنو شروع ہوا تھا۔ 
بہ تعاون : مختار عدیل 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK