بھیونڈی کے ۸۸؍سالہ شمس الضحیٰ نے ۱۹۸۰ءمیں بھیونڈی کے غریب ضرورتمندوں کی مدد کیلئے بلاسودی عوامی بینک قائم کی اتھاجو آج بھی لوگوں کی مالی خدمت کررہاہے۔ بھیونڈی کاسب سےبڑا پہلا تاریخی اجتماع بھی ان کی رہنمائی میں منعقد کیا گیا تھا۔
EPAPER
Updated: October 12, 2025, 12:39 PM IST | Saadat Khan | Mumbai
بھیونڈی کے ۸۸؍سالہ شمس الضحیٰ نے ۱۹۸۰ءمیں بھیونڈی کے غریب ضرورتمندوں کی مدد کیلئے بلاسودی عوامی بینک قائم کی اتھاجو آج بھی لوگوں کی مالی خدمت کررہاہے۔ بھیونڈی کاسب سےبڑا پہلا تاریخی اجتماع بھی ان کی رہنمائی میں منعقد کیا گیا تھا۔
بھیونڈی کے ۸۸؍ سالہ شمس الضحیٰ محمد ایوب انصاری کی پیدائش ۷؍مئی ۱۹۳۸ء کو بنگال پورہ میں ہوئی تھی۔ پتھر والی اسکول سے تیسری اور پونےکے ملٹری اسکول سے چوتھی کی پڑھائی کرنے کے بعد انجمن اسلام سی ایس ٹی سے میٹرک پاس کیا۔ اس دوران والد محترم کا انتقال ہوگیا۔ ایسے میں بھائیوں میں بڑا ہونے کی وجہ سے گھر کی ذمہ داریاں سر پر آگئیں لہٰذا آگے پڑھائی جاری نہیں رکھ سکے۔ گھریلو ذمہ داریوں کو نبھانےکیلئے لوم کے آبائی پیشہ کے بجائے لیتھ مشین کا کام سیکھ کر فیبری کیشن کا کاروبار شروع کیا۔ ۶۰۔ ۶۵؍ سال اسی کاروبار سے وابستہ ر ہے۔ آج ان کے بچے بھی اسی کاروبار سےمنسلک ہیں ۔ ۲۰۲۰ء تک فعال رہے۔ گزشتہ ۵؍سال سے زیادہ تر وقت گھر ہی میں گزارتےہیں۔ مطالعہ کاکافی شوق ہے۔ عمر کے اس مرحلے پر بھی صحت منداور چاق و چوبند ہیں ۔ عملی زندگی میں معاشی مصروفیات کے ساتھ ہی سماجی، تعلیمی اور ملّی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ ’بلا سودی‘ عوامی بینک کا قیام ان کاایک بڑا کارنامہ ہےجو گزشتہ ۴۵؍سال سے غریب ضرورت مندوں کی مدد کررہاہے۔
شمس الضحیٰ جس وقت انجمن اسلام میں زیر تعلیم تھے، اس دورمیں سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سعود بن العزیز نے اسکول کا دورہ کیاتھا۔ ان کے استقبال کیلئے اسکول کو سجانے سنوارنے کیلئے بنائی گئی طلباء کی کمیٹی میں شمس الضحیٰ بھی شامل تھے۔ انجمن اسلا م میں آنے سے ایک دن قبل مغرب کی نماز کےبعد ناگپاڑہ کے صابو صدیق کالج میں بھی ان کی تہنیت میں پروگرام منعقدکیاگیاتھا۔ پروگرام ختم ہونے کےبعدیہاں کے ہال کے سامان کو نکال کر راتوں رات انجمن اسلام کے ہال کو انہی سامان سے سجایاگیاتھا۔ اس کام میں شمس الضحیٰ نے بھی حصہ لیاتھا۔ انجمن اسلام کی عمارت کےپتھروں کو تیزاب سے دھویا گیاتھا۔ فجرکی نماز کےبعد صبح ۷؍بجے شاہ سعود انجمن اسلام اسکول میں آئے تھے۔ ان کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیاگیاتھا۔ دونوں ممالک کےقومی گیتوں کی آواز سے فضا گونج اُٹھی تھی۔ ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب کا آغاز، انجمن اسلام کے طالب علم مولانا ضیاءالدین بخاری کی تلاوت سے ہواتھا۔ شاہ سعودنے اسکول کیلئے عطیہ بھی دیاتھا۔
شمس الضحیٰ نے ۱۹۵۲ء سے ۱۹۵۹ء تک انجمن اسلام میں پڑھائی کی تھی۔ اس دوران وہ ثوبانی ہوسٹل میں رہتےتھے۔ اسکول اور ہوسٹل کی فیس تقریباً سوا سو روپے ماہانہ تھی جس میں اسکول کی فیس کےعلاوہ ہوسٹل کاکرایہ، صبح کاناشتہ، ظہرانہ اور عشائیہ شامل تھا۔ اس کے علاوہ گھر سے پاکٹ منی کے نام پر ۲۰؍روپے ماہانہ ملتے تھے جس سے دھوبی، حجامت، تیل، صابن اور دیگر ضروریات پوری ہوتی تھیں۔ اسی میں جب کبھی دل چاہتا کرافورڈ مارکیٹ کی فردوسی ہوٹل کا ۲؍آنے کا کباب اور ایک آنا کا بریڈ بھی کھالیتے تھے۔ ۲۰؍ روپے میں یہ سارے اخراجات آسانی سے پورے ہوجاتےتھے۔
ملک کی آزادی کےوقت شمس الضحیٰ پتھروالی اسکول میں زیرتعلیم تھے۔ آزادی سےمتعلق مختلف سیاسی جماعتوں کی ریلیاں بھیونڈی کے متعدد علاقوں سے فلک شگاف نعرے لگاتے گزرتیں۔ ریلیوں میں حصہ لینے والوں کاجوش و خروش دیکھنے سےتعلق رکھتا تھا۔ ملک کی آزادی پر اسکول میں جشن کا ماحول تھا۔ طلبہ میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں ۔ اس کے علاوہ ہر طالب علم کو چار آنے دیئے گئے تھے جس سے طلبہ کی خوشی دوبالا ہوگئی تھی۔ اس دور میں چار آنے کی بڑی اہمیت تھی۔ شمس الضحیٰ خوشی خوشی چارآنا لے کر گھر آئے اور سب کو بتایا تھا کہ آج اسکول میں مٹھائی کے ساتھ ساتھ چارآنا بھی ملا ہے۔
شمس الضحیٰ کو ایتھلیٹک کاشوق بچپن سے تھا۔ اسکول کے زمانے میں لانگ اور ہائی جمپ کے مقابلوں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ اسکول کےعلاوہ ضلعی سطح پر ہونےوالے مقابلوں میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ لانگ اور ہائی جمپ میں بالترتیب ۱۸ء۳؍ اور ۵ء۳؍فٹ تک کا اُن کا ریکارڈ رہا۔ متعدد مرتبہ ان مقابلوں میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہیں۔ ان کی اس کارکردگی کیلئےانجمن اسلام میں دلیپ کمار کے ہاتھوں سے سند سے نوازاگیاتھا۔
شمس الضحیٰ ۲۰۰۷ء میں ایک مہینے کیلئے لندن گئے تھے۔ اس دوران انہوں نے وہاں کی کئی تاریخی مساجد اور میوزیموں کا دورہ کیاتھا۔ وہاں آباد مسلمانوں کے تعلق سے ان کا نظریہ ہےکہ وہ چاہے ہندوستان کے ہوں یادیگر ممالک مثلاً پاکستان، نیپال، ایران، افغانستا ن یا پھر ترکستان وغیرہ کے، سب متحدہوکر پیارومحبت سے رہتے ہیں۔ ایک دوسرے کے خوشی وغم میں شریک ہوتےہیں۔ سبھی اسلامی تہوار مساجد میں ایک ساتھ مل جل کر مناتےہیں۔ مختلف ممالک کے الگ الگ رنگ ونسل کے مسلمانوں کی یکجہتی بے حد متاثر کن تھی۔ اس خوبی اور خصوصیت سے وہ بہت متاثرہوئے تھے۔ برٹش میوزیم میں شہرہ آفاق کوہ نور ہیرے کو دیکھنے کابھی شرف حاصل ہوا۔
معروف گلوکارہ مبارک بیگم کے ۲؍بھائی نور محمداور غلام حسین انجمن اسلام میں شمس الضحیٰ کےکلاس فیلو تھے۔ جن کے ہمراہ وہ اکثر مبارک بیگم کی رہائش گاہ والکیشورپر جاتےتھے۔ جہاں شام ڈھلتے ہی موسیقی کی محفل سجاکرتی تھی۔ معمول کےمطابق ایک روز وہ وہاں بیٹھے تھے، اسی دوران رمضان کا چاند ہونےکی اطلاع ملی۔ رمضان کے چاند کا اعلان ہوتے ہی مبارک بیگم کے حکم سے سازندوں نے ڈھول، طبلہ اور ہارمونیم وغیرہ کو لال کپڑوں میں باندھ کر ایک مہینے کیلئے محفوظ مقام پر رکھنا شروع کردیا۔ اس دور میں رمضان المبارک میں پورے مہینے اس طرح کی محفلیں بندکردی جاتی تھیں۔
بھیونڈی میں ایک مرتبہ کالرا پھیلا ہواتھا جس کی وجہ سے پورے شہر میں ڈراور خوف کا ماحول تھا۔ لوگ ایک ملنے ملنے سےاحتیاط کرتےتھے۔ رئیس ہائی اسکول کے قریب عیدو سیٹھ کمپائونڈ میں متاثرین کیلئے ایک کیمپ لگایا گیاتھا۔ بڑی تعداد میں کالر ا سے اموات ہورہی تھیں۔ بلدیہ کا نمائندہ جو یونیفارم کی شکل میں سینے پر ایک پٹا باندھے ہوتا تھا، ا س کے ہاتھ میں ایک تھالی ہوتی تھی، وہ تھالی بجاکر عوام کو کالرا پھیلنے کی اطلاع پہنچاتا اور احتیاطی تدابیر پر عمل کرنےکی تلقین کرتا تھا۔ لوگوں سے کالرا کی علامت ظاہرہونے پر فوراً علاج شروع کرنےکی اپیل کرتا تھا۔ اس کےاعلان کو لوگ بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ اس کے اعلان سے علاقے میں سنسنی پھیلنے کے ساتھ خاموشی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ بڑا خوفناک دور تھا۔
۱۹۴۸ء میں بھیونڈی میں آنے والاطوفان انتہائی خطرناک تھا۔ شہر کےبیشتر درخت گر گئے تھے۔ طوفان تھانے تک پہنچ گیاتھا۔ گھروں کی چھتوں پر لگے ٹین، ہوا کی شدت سے اُڑ گئے تھے۔ اس کی وجہ سے ۱۵؍دنوں تک شہر میں بجلی نہیں آسکی تھی۔ بڑی تباہی مچی تھی۔
شمس الضحیٰ کے ایک قریبی دوست ابرار شیرازی تھے جو باندرہ کے نیشنل کالج کے قریب رہتے تھے۔ ان سے ملاقات کیلئے وہ اکثر باندرہ جاتے تھے۔ فلم اداکار امجد خان اوران کے بھائی امتیازخان بھی ابرار کے دوست تھے۔ اسی راستے سے امجد خان روزانہ سائیکل پر نیشنل کالج جایا کرتے تھے۔ ابرار کے گھر پر اکثر ان لوگوں کی ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔
۱۹۸۰ءمیں بھیونڈی میں ہونےوالا تاریخی تبلیغی اجتماع شمس الضحیٰ کی رہنمائی میں ہواتھا۔ یہ بھیونڈی کا پہلا بڑا اجتماع تھا جس کیلئے رئیس ہائی اسکول کے کمپائونڈ کے علاوہ متصل دیگر ۳؍کمپائونڈ وں کی دیواروں کو توڑ کر ایک کردیاگیاتھا۔ اجتماع کاامیرہونےکے ناطے اسی شہر میں رہتے ہوئے ۸؍دنوں تک شمس الضحیٰ اپنے گھر نہیں گئے تھے۔ اس دوران وہ وہیں دیکھ بھال میں مصروف تھے۔