• Tue, 28 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’جب صبح دیر تک دروازہ بند رہتا، تو پڑوسی ناشتہ بھجوا دیتے تھے‘‘

Updated: October 05, 2025, 12:33 PM IST | Saadat Khan | Mumbai

آگری پاڑہ، مومن پورہ کے ۷۸؍سالہ انصاری محمداسلم نے سعودی عرب میں جنرل موٹرس اور ہنڈائی جیسی بڑی کمپنیوں میں ۲۸؍سال تک ملازمت کی ، وہاں سے واپس آنے کے بعدگزشتہ ۲۰؍برسوں سے سماجی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

Ansari Muhammad Aslam Muhammad Ishaq Muqadam. Photo: INN
انصاری محمد اسلم محمد اسحاق مقادم۔ تصویر: آئی این این

آگری پاڑہ، مومن پورہ کے ۷۸؍ سالہ انصاری محمد اسلم محمد اسحاق مقادم کی پیدائش ۱۷؍مئی ۱۹۴۸ء کو ہوئی تھی۔ مومن پورہ کالاپانی میں واقع مومن پورہ پرائمری میونسپل اسکول سے چہارم جماعت تک پڑھائی کرنے کے بعد مورلینڈروڈ کے پتھروالی اسکول سے ساتویں بعدازیں مدنپورہ گھیلابائی اسٹریٹ کے انجمن خیرالاسلام اُردوہائی اسکول سے میٹرک اور مہاراشٹر کالج سے انٹرمیڈیٹ پاس کیا۔ معاشی حالات اچھے نہیں تھے، اسلئے آگے کی پڑھائی نہیں کر سکے۔ پڑھائی چھوڑنے کے بعد تلاش معاش کی تگ ودو میں چند برس گزرے۔ اس دورمیں روزگار کیلئے خلیج ممالک جانے کاعام رجحان دیکھ کر سعودی عرب جانے کا فیصلہ کیا۔ ۱۹۷۰ ءمیں دمام ( سعودی عرب ) کی جنرل موٹرس کمپنی میں بحیثیت ہیلپر جانے کا موقع ملا۔ یہاں بطور مزدور عملی زندگی کا آغاز کیا۔ اپنی محنت، ایمانداری اور خودداری کی بنیاد پر مزدور سے وارینٹی آفیسر اور پھر سپروائزر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ۲۵؍ سال تک جنرل موٹرس کیلئے خدمات پیش کیں، بعدازیں ہنڈائی موٹرس میں منتقل ہوئے۔ یہاں ۳؍سال اور اس کے بعد یہیں پر ایک ڈاکٹر کے پاس بحیثیت معاون ۲؍سال تک ملازمت کی۔ مجموعی طورپر ۳۰؍سال تک سعودی عرب میں ملازمت کرنے کے بعد ۲۰۰۰ء میں آبائی وطن ( ممبئی ) لوٹ آئے۔ یہاں ۲۰۰۵ء تک سی ایس ایم ٹی پرواقع ورلڈ ٹراویلس نامی ادارے میں بطور منیجر اپنی خدمات پیش کیں۔ ۲۰۰۵ء سے سماجی، تعلیمی اور فلاحی سرگرمیوں سے وابستہ ہیں ۔ پابندی سے نمازاور دیگر عبادت کا اہتمام کرتےہیں ۔ موصوف کو بچپن سے پڑھائی کے ساتھ فٹ بال کھیلنے کا شوق رہا۔ اسکول اور کالج کی فٹ بال ٹیموں کے کپتا ن ہونے کابھی شرف حاصل ہوا۔ 
محمد اسلم کے والد محمد اسحاق مقادم پریل کی ایک معروف مل میں بطور مقادم ملازمت کرتے تھے۔ اس دور میں انہیں ساڑھے ۳؍روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی۔ ان کے ۶؍بچے تھے۔ وہ تنہا کمانے والے تھے۔ اسی رقم سے بال بچوں کی کفالت، ان کی پڑھائی اور دیگر اخراجات پورے کئے۔ جب تک محمد اسحاق باحیات تھے، ان کے بچوں کو کھانے پینے کی دقت نہیں ہوئی۔ ان کی وفات کےبعد، ان کے ۳؍ بیٹوں کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ شادی کے بعدبھی محمد اسلم ملازمت نہ ملنے سےمالی اعتبار سے پریشان تھے، جس کی وجہ سےکئی بار فاقے تک کی نوبت بھی آئی تھی۔ ایسی صورت میں بھی انہوں نے کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ صرف پانی پی کر وقت گزارا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ دو دن کسی طرح فاقے سے گزرا تو تیسرے دن کہیں سے ۵۰؍پیسے کاانتظام کرکے چاول خرید لائے۔ اہلیہ نے چاول پکایا، وہی چاول، مرچ کے اچار کے ساتھ میاں بیوی دونوں وقت کھائے تھے۔ وہ دن ان کیلئے کافی آزمائشی تھے۔ ایسے نازک وقت پر اُن کی اہلیہ نے ان کا بھر پور ساتھ دیاتھا اور ان کی ہمت بڑھائی تھی۔ انہوں نے اپنے خاوند سے کہا تھا کہہمیں صبر کرنا چاہئے، اللہ سے مدد طلب کرنی چاہئے، بندے کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانا چاہئے۔ 
مومن پورہ سے فٹ بال کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے، جو اَب بھی برقرار ہے۔ یہاں پیدا ہونےوالے بچوں میں فٹ بال خون کی طرح سرایت کرتا ہے۔ محمد اسلم نے بھی ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلا کھیل فٹ بال کھیلا تھا۔ مومن پورہ کے ۹۰؍فیصد بچے فٹ بال کھیلتے تھے، جس کی وجہ سے یہاں کے متعدد بچوں کو سرکاری ملازمتیں ملی تھیں، جن میں سعید احمد محمد یوسف اور محمد صابر وغیرہ شامل ہیں جنہوں نے اسٹیٹ بینک آف انڈیاکیلئے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔ یہاں کے جوبچے کرکٹ کھیلتے، فٹ بال کھیلنے والے بچے، ان پر پھبتیاں کستے تھے اور انہیں کرکٹ کے بجائے فٹ بال کھیلنے کی ترغیب دیتے تھے۔ ان سے کہا جاتا تھا کہ فٹ بال ۱۱؍کھلاڑی ایک ساتھ کھیلتے ہیں ، ہر کھلاڑی کو مسادی اہمیت حاصل ہوتی ہے لیکن کرکٹ میں ایک وقت میں ۲؍ بلے باز یا ایک گیند باز ہی کھیلتاہے، چنانچہ اس طرح کی دلیل دے کر انہیں کرکٹ چھوڑکر فٹ بال کھیلنے پر آمادہ کیا جاتاتھا، ساتھ ہی انہیں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ فٹ بال کھیلنے سے جہاں صحت اچھی رہتی ہے وہیں سرکاری ملازمتیں ملنے کےامکانات بھی روشن ہوتے ہیں۔ یہ بات آسانی سے سمجھ میں آجاتی تھی۔ 
۱۹۶۰ء اور ۱۹۷۰ء میں مومن پورہ کے ۹۰؍ فیصد لوگ ملوں میں ملازمت کرتے تھے۔ ملوں میں کپڑوں کی تیاری کے دوران منہ میں جانے والی روئی کے ذرات سے اکثر ملازمین کو ٹی بی کی شکایت لاحق ہوجاتی تھی۔ ا س دورمیں ٹی بی کا ٹھوس علاج بھی نہیں تھا۔ چھوت چھات والی بیماری ہونے کی وجہ سے لوگ جن کے گھروں میں ٹی بی کے مریض ہوتے تھے، ان سے پرہیز کرتے تھے اور دور ہی دور رہتے تھے۔ لوگ ان کے گھروں پر جانے سےگریز کرتے تھے۔ اس دور میں ٹی بی کا علاج بھی نہیں تھا اور اگر کہیں تھا تو وہ بہت مہنگا تھا۔ جسے ٹی بی ہوجاتی، لوگ اس کے بچنے کی اُمید چھوڑ دیتے تھے۔ محمد اسلم کے والد کو بھی ٹی بی ہوگئی تھی، مل میں کام کرنےوالوں کو عموماً ٹی بی کی شکایت ہوتی تھی، اسی وجہ سے محمد اسلم کے والد نے اپنے بڑے بیٹے کو مل میں کام پر لگانےکےبجائے ڈاکٹری کی پڑھائی کروائی تھی۔ ٹی بی کے ڈر وخوف کے باوجود علاقے میں کچھ ایسےسماجی کارکن موجود تھے جو ٹی بی کے مریضوں کے گھر جاکر ان کی مدد اور ان کے علاج کیلئے دوڑبھاگ کرتے تھے۔ 
 محمد اسلم مومن پورہ کے ۵۰؍سالہ قدیم روایت سے بہت متاثر تھے۔ یہاں کی عمارتوں میں کل ۳۶۰ ؍ کمرے تھے۔ ان میں سےاگرصبح ۸؍بجے تک کسی کے گھر کادروازہ بندرہتاتو پڑوسیوں کی تشویش بڑھ جاتی۔ ہمسائے ایک دوسرے سے اس گھر کے نہ کھلنے کی وجہ دریافت کرتےتھے۔ لوگ سمجھ جاتے تھے کہ اس گھر میں ناشتے وغیرہ کا انتظام نہیں ہے۔ اس کے بعد لوگ ان کے گھر میں ناشتہ پہنچانےکی تیاری میں مصروف ہو جاتے تھے۔ اُس وقت جن کے گھر وں میں تھوڑی سی بھی گنجائش ہوتی تھی، وہاں سے ان کیلئے ناشتہ بھیجنے کاانتظام کیاجاتا تھا۔ اس عمل کےدوران اس بات کابھی خاص خیال رکھاجاتا تھاکہ متاثرہ اہل خانہ کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچنے پائے۔ اسی طرح شادی، بیاہ اور موت مٹی کے وقت بھی یہاں کے لوگ ایک دوسرے کےکاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، جو اس محلے کی انفرادیت تھی۔ 
محمد اسلم نے مومن پورہ، کالاپانی کی وجہ تسمیہ کےتعلق سے بتایاکہ قریب میں کھٹائومل تھی، جہاں کپڑوں کی رنگائی ہوتی تھی۔ یہاں سے رنگائی کا خارج ہونے والا پانی مومن پورہ میں آکر جمع ہواکرتاتھا، یہ پانی عام طو پرکالے رنگ کا ہوتا تھا، اسی وجہ سے اس محلے کو کالاپانی کہاجانے لگا تھا۔ رفتہ رفتہ یہی اس علاقے کا نام پڑگیا۔ یہ بزرگو ں کی زبانی سنا تھا۔ 
محمد اسلم نے سعودی عرب کےبادشاہ شاہ سعود بن عبدالعزیز کو مومن پورہ کے مسجد اہل حدیث میں دیکھا تھا۔ وہ ممبئی کےدورے پر آئے تھے۔ اس دوران وہ مسجد اہل حدیث میں آئے تھے۔ ان کے قافلےمیں ممبئی کے گورنر مرار جی دیسائی بھی شریک تھے۔ جتنی دیر تک شاہ سعود مسجد میں تھے، مرارجی دیسائی کیلئےمومن پورہ مسجد کے قریب ہی، قیام کا انتظام کیاگیاتھا۔ شاہ سعود مسجد کادورہ کرکے باہر آئے، یہاں سے دوبارہ مرار جی دیسائی ان کے قافلے میں شامل ہوئے تھے۔ پولیس کامعقول انتظام کیاگیاتھا۔ محمد اسلم کو پولیس نے مومن پورہ میں جانے سے روکابھی تھا، جب انہوں نے یہ بتایاکہ میرا گھر یہیں ہے، تو انہیں مومن پورہ میں جانےکی اجازت دی گئی تھی۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK