Inquilab Logo

گارنٹیاں تو بہت دی گئیں، لیکن پوری کتنی ہوئیں ؟

Updated: May 13, 2024, 2:40 PM IST | Derek O`Brien | Mumbai

۱۲؍ جنوری۲۰۲۴ء: بی جے پی نے اسے ایک نعرے کے طورپر استعمال کیا کہ ’’مودی کی گارنٹی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے دوسروں سے توقعات ختم ہوتی ہیں۔

Modi`s Guarantee. Photo: INN
مودی کی گارنٹی۔تصویر : آئی این این

۱۲؍ جنوری۲۰۲۴ء: بی جے پی نے اسے ایک نعرے کے طورپر استعمال کیا کہ ’’مودی کی گارنٹی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے دوسروں سے توقعات ختم ہوتی ہیں۔ ‘‘ دراصل اس نے ۲۰۲۴ء کے لوک سبھا الیکشن میں ’مودی گارنٹی‘ کوانتخابی مہم کے دوران کلیدی نعرے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ 
 ۱۴؍ اپریل: بی جے پی نے اپنا انتخابی منشور جاری کیا جس میں سرورق پر لکھا تھا’’ `مودی کی گارنٹی۔ ‘‘
 ۲۷؍ اپریل: انتخابی منشور جاری کرنے کے ۱۳؍ دن بعد ۲۷؍ اپریل کو دوسرے مرحلے کی پولنگ ختم ہونے کے بعد’`مودی کی گارنٹی‘ والے نعرے کو تالے میں بند کردیا گیا۔ 
 مارکیٹنگ کی دنیا میں برانڈ سے متعلق کچھ باتیں کی جاتی ہیں جن کا مطلب اپنے گاہکوں سے کیا جانے والا وعدہ ہوتا ہے۔ اس میں گاہکوں کو اس بات کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ اس برانڈ میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں۔ برانڈ کی خوبیوں کو بتاتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ آپ جتنا دے سکتے ہیں، اس سے زیادہ وعدہ نہیں کر سکتے۔ 
 آپ اپنی مصنوعات کو ایک یا دو بار کسی کو بیچ سکتے ہیں، لیکن بالآخر صارف کو حقیقت کا پتہ چل ہی جائے گا کہ اس میں کون کون سے خوبیاں ہیں اور یہ بھی کہ جن خوبیوں کا صارفین سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ ان میں ہیں کہ نہیں۔ کسی بھی پروڈکٹ کے بازار میں دیر تک ٹکے رہنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ واقعی ویسا ہی ہے جیسا کہ وعدہ کیا گیا تھا یا اس کے برعکس ہے۔ 
 اس کسوٹی پر ہم بی جے پی کے وعدوں یعنی’مودی کی گارنٹیوں ‘ کو بھی پرکھ سکتے ہیں اور اس کا پہلا نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ مارکیٹ میں ’مودی کی گارنٹی‘ بمشکل چند ماہ ہی چل پائی۔ ہم بی جے پی کے انتخابی منشور میں سے محض دس نکات کو یہاں پیش کر رہے ہیں اور ہر نکات کے ساتھ ہم اس بات کی وضاحت بھی کریں گے کہ جنوری میں تشہیر کی گئی پیشکش مئی تک کیوں غائب ہو گئی؟
ایک۔ ’’ہم خواتین کے وقار کو یقینی بنائیں گے‘‘:
  ہاتھرس، اناؤ، کٹھوعہ، بلقیس بانو، برج بھوشن شرن سنگھ، پرجول ریونا اور سندیش کھالی۔ 
دو۔ ’’ ہندوستان دنیا کی پانچ بڑی معیشتوں میں سے ایک‘‘:
 ۱۰؍ سال پہلے، ہندوستان جی ڈی پی کی۷ء۲؍ فیصدگھریلو بچت کے ساتھ دنیا کی دسویں بڑی معیشت تھی۔ آج، پانچویں بڑی معیشت ہونے کے باوجود، آمدنی میں عدم مساوات برطانوی راج کے دور سے بھی بدتر ہے۔ اس کے ساتھ ہی، گھریلو بچت۵۰؍ برسوں میں کم ترین سطح پر یعنی جی ڈی پی کے۵ء۱؍ فیصد پر آگئی ہیں۔ 
تین۔ ’’۵۰؍ کروڑ سے زیادہ شہری پی ایم جن دھن اکاؤنٹ کے ذریعے بینکنگ سسٹم سے جوڑے گئے‘‘:
  ایک رپورٹ کے مطابق دسمبر۲۰۲۳ء تک، ہر ۵؍ میں سے ایک جن دھن اکاؤنٹ دو سال یا اس سے زیادہ عرصے سے غیر فعال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ۱۰؍ کروڑ ۳۴؍ لاکھ اکاؤنٹس بالکل ہی استعمال نہیں ہو رہے ہیں۔ ان غیر فعال کھاتوں میں ۱۲؍ہزار ۷۷۹؍ کروڑ روپے ہیں۔ 
چار۔ ’’۴؍کروڑ سے زیادہ خاندانوں کے پاس پی ایم آواس یوجنا کے تحت پکے مکانات ہیں ‘‘
 اس کی سچائی یہ ہے کہ اس اسکیم کے تحت منظور شدہ مکانات میں سے ایک تہائی سے زیادہ مکانات تعمیر ہی نہیں ہوسکے ہیں۔ 
انچ۔ ’’ایک روپے میں `سینیٹری پیڈ‘‘:
  اس کی سچائی یہ ہے کہ ۵؍ میں سے ایک خاتون حفظان صحت کے طریقے استعمال نہیں کرپارہی ہے۔ اسی طرح ۴؍ میں سے ایک لڑکی ناکافی سہولیت کی وجہ سے اسکول چھوڑ نے پر مجبور ہے۔
چھ۔ ’’۱ء۴؍کروڑ نوجوانوں نے پی ایم کوشل وکاس یوجنا کا فائدہاٹھایا‘‘:

یہ بھی پڑھئے: ایک ایک ووٹ بہت قیمتی ہے،اس کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کابہترین استعمال کریں

’پی ایم کے وی وائی۔ ۲‘کیلئے تقرری کی شرح۲۳؍ فیصد تھی جبکہ ’پی ایم کے وی وائی۔ ۳‘ کیلئے صرف۸؍ فیصد رہ گئی ہے۔ ۲۳۔ ۲۰۲۲ءمیں اس حوالے سے مختص بجٹ کا نصف سے زیادہ استعمال نہیں کیا گیا۔ 
سات۔ ’’ایم ایس پی میں بے مثال اضافہ‘‘:
 کسانوں نے ایم ایس پی گارنٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ انہیں دہلی میں داخل تک نہیں ہونے دیا گیا۔ ان پر آنسو گیس چھوڑے گئے اور واٹر کینن کا استعمال کیا گیا۔ ۲۰۲۴ء میں احتجاج کے دوران۱۹؍ کسانوں کی موت ہوئی اور۴۰؍ سے زائد زخمی ہوئے۔ 
آٹھ۔ ’’سڑکوں، ریلوے اور پروازوں کے ذریعے شمال مشرق سے رابطہ‘‘:
   شمال مشرقی خصوصی انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ اسکیم کے تحت منظور کئے گئے ۱۸۱؍ پروجیکٹوں میں سے صرف۲۵؍ ہی مکمل ہوئے ہیں۔ گزشتہ ۶؍ برسوں میں اس اسکیم کے تحت مختص فنڈز کا صرف۴۰؍ فیصد ہی استعمال کیا گیا ہے۔ 
نو۔ ’’پی ایم گرام سڑک یوجنا کے تحت ۳ء۷؍ لاکھ کلومیٹر سڑکوں کی تعمیر‘‘:
  اس اسکیم کے ۴؍ حصے ہیں، جن میں سے کسی نے بھی منظور شدہ تمام پروجیکٹ مکمل نہیں کئے ہیں۔ ان میں سے ۲؍ کی آخری تاریخ۲۰۲۲ء تھی۔ نکسل متاثرہ علاقوں میں روڈ کنیکٹی ویٹی پروجیکٹ کی آخری تاریخ مارچ ۲۰۲۳ء تھی، لیکن صرف آدھا کام ہی مکمل ہوا ہے۔ 
دس۔ ’’سوبھاگیہ اسکیم کے تحت۱۰۰؍فیصد برقی کاری‘‘:
  حکومت نے اس کا پیمانہ ہی بدل دیا ہے۔ سرکاری طورپر اس کی تعریف کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ ایک گاؤں کو اس وقت برقی سمجھا جاسکتا ہے جب اس گاؤں کے ۱۰؍ فیصد گھروں میں بجلی پہنچ جائے۔ ۲۰۲۱ء کی ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً۱۲؍ لاکھ گھروں تک بجلی نہیں پہنچ سکی تھی۔ ان میں سے صرف راجستھان، یوپی اور آندھرا ہی میں ۵؍ لاکھ گھر بجلی سے محروم تھے۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK