Inquilab Logo

سیاسی بیانیہ طے کرنے میں شرد پوار کا کوئی مقابلہ نہیں

Updated: May 13, 2024, 3:07 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

الیکشن بعد ہم خیال پارٹیوں کے کانگریس میں ضم ہونے کا بیان دے کراین سی پی سربراہ نے بی جے پی کے خیمے میں ہلچل مچادی ہے۔

NCP chief Sharad Pawar. Photo: INN
این سی پی سربراہ شرد پوار۔ تصویر : آئی این این

ہندوستان سمیت دنیا کی تمام اہم جمہوریتوں میں الیکشن ایک ایسا وقت ہو تا ہے جب سیاسی وفاداریاں تبدیل ہوتی ہیں، پارٹی چھوڑنا اور دوسری پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا ایک عام بات ہوتی ہے۔ پولنگ مکمل ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بعد از انتخاب بھی وفا داریاں تبدیل ہوتی ہیں، حکومت سازی کی خاطر درکار سیٹیں حاصل کرنے کیلئے سیاسی دائو پیچ کھیلے جاتے ہیں۔ اس دوران متعدد تجزیہ نگار اپنے اپنے تجزیہ کرتے ہیں، سیاسی پنڈت پیش گوئیاں کرتے ہیں جبکہ سیاسی لیڈران اہم بیانات دیتے ہیں لیکن یہ سب الیکشن کے تناظر ہی میں ہوتا ہے مگر اس وقت ہمیں جس بیان نے سب سے زیادہ متوجہ کیا ہے وہ ملک کے سینئر سیاستداں شرد پوار کا بیان ہے جس میں انہوں نے یہ اشارہ دیا ہے کہ انتخابات کے بعد سیاسی مساوات بڑی حد تک تبدیل ہونے والی ہے۔ 
 این سی پی کے سربراہ شرد پوار نہایت زیرک سیاستداں ہیں، وہ ملک کی سیاست کے نباض بھی کہے جاتے ہیں۔ ان کا تجربہ اس وقت پورے ملک میں سیاسی طور پر سب سے زیادہ ہے کیوں کہ وہ ۸۰ء کی دہائی میں ہی مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ بن گئے تھے اور اس کے بعد سے مختلف اہم عہدوں پر رہتے ہوئے زمانے کے تمام سرد و گرم جھیل چکے ہیں۔ وزیر اعظم مودی خود انہیں اپنا سیاسی گرو مانتے ہیں اور ان کی سیاسی چالوں سے اکثر ہوشیار رہنے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ایسا شخص اگر سیاسی مساوات تبدیل ہونے کا بیان دے رہا ہے یا یہ اشارہ دے رہا ہے کہ الیکشن کے بعد بہت سی ہم خیال پارٹیاں کانگریس میں ضم ہو سکتی ہیں تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی بڑی وجہ ہو گی۔ 
 شرد پوار کا یہ بیان اس لئے بھی اہم ہے کیوں کہ خود ان کی پارٹی جو انہوں نے ۱۹۹۹ء میں کانگریس سے الگ ہوکر قائم کی تھی، اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ ان کے بھتیجے اجیت پوار نے شرد پوار کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کے ساتھ ساتھ بیٹی سپریہ سُلے کے سیاسی مستقبل پر بھی سوالیہ نشان لگانے کی کوشش کی ہے۔ ایسے میں شرد پوار بلاشبہ چاہتے ہوں گے کہ کم از کم سپریہ کا سیاسی مستقبل محفوظ ہو جائے۔ شرد پوار کے اس بیان کی اہم وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے نتیجہ یہ طے کریں گے کہ عوام اب کس کے ساتھ ہیں اور شرد پوار کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ اسی لئے انہوں نے بہت سوچ سمجھ کرلب کشائی کی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسکاٹ لینڈ کے سابق وزیر اعظم حمزہ یوسف :اسلامی شناخت کیساتھ فلسطین کی کھل کر حمایت کرنے والی شخصیت

شرد پوار کے اس بیان کے یہ معنی بھی نکالے جاسکتے ہیں کہ اس الیکشن میں بی جے پی کے خلاف مقابلے کے لئے میدان میں اترنے والی تقریباً تمام جماعتوں کے نظریات ۹۰؍ فیصد ایک جیسے ہیں۔ یہ سبھی گاندھی اور نہرو کے سوشلزم اور سیکولر ازم پر یقین رکھتی ہیں۔ الیکشن کے نتائج کے بعد ممکنہ طور پراگر ضرورت پڑی تو بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے یہ ایک ساتھ آسکتی ہیں۔ اس میں کانگریس کا رول کافی اہم ہو گا کیوں کہ یہ سبھی پارٹیاں اور ان کے بیشتر لیڈر کبھی کانگریسی ہی کہلاتے تھے۔ ہمارے خیال میں شرد پوار نے یہی سوچ کر بی جے پی کو اشارہ دیا ہے کہ انتخابات مکمل ہوتے ہیں اگر بی جے پی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوئی تو اس کی متعدد اتحادی پارٹیاں بھی کانگریس کے ساتھ آجائیں گی کیوں کہ ان سبھی پارٹیوں کے نظریات کانگریس سے ملتے جلتے ہیں۔ اسی دوران انہوں نے یہ اشارہ دے دیا کہ چند چھوٹی پارٹیاں کانگریس میں ضم بھی ہو سکتی ہیں۔ حالانکہ اس کامفہوم یہ لیا گیا کہ شرد پوار اپنی پارٹی ضم کردیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ انتخابات کے بعد بننے والی سیاسی مساوات اور کانگریس کے رول پر گفتگو کررہے تھے۔ کانگریس نے بھی اس مرتبہ فیاضی دکھاتے ہوئےعلاقائی پارٹیوں کو اہمیت دی ہے۔ اس نے خود صرف ۳۲۹؍ سیٹوں پر الیکشن لڑنا قبول کیا ہے جبکہ ۱۰۱؍ سیٹیں اس نے اتحادیوں کے لئے چھوڑ دی ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے جب کانگریس پارٹی ۴۰۰؍ سے کم سیٹوں پر میدان میں اتری ہے۔ ایسے میں یہ واضح رہے کہ کانگریس پارٹی کس منصوبے کے تحت الیکشن لڑرہی ہے اور یہی بات ہمارے خیال میں شرد پوار کہنا چاہ رہے تھے کہ نتائج آنے کے بعد مزید پارٹیاں کانگریس کے اتحاد میں آئیں گی۔ ممکن ہے ان میں سے کچھ کانگریس میں ضم بھی ہو جائیں۔ ہمارے خیال میں شرد پوار کا یہ تجزیہ بالکل درست ہے اور انہوں نے اس وقت ملک کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی یہ بیان دیا ہے۔ 
 شرد پوا ر نے اپنے بیان میں یہ بات بھی کہی کہ گزشتہ ایک دہائی میں این ڈی اے کے ساتھ جانے والی متعدد پارٹیاں یہ محسوس کررہی ہیں کہ ان کے اور بی جے پی کے نظریات اور سیاسی طور طریقوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اسی وجہ سے این ڈی اے کے کچھ اہم اتحادی جیسےاکالی دَل اور شیو سینا نے بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ اسی طرح تمل ناڈو میں اے آئی اے ڈی ایم کے نے بھی بی جے پی سے پوری طرح دوری اختیار کرلی ہے۔ سیاسی حلقوں میں یہ کہا جاتا ہے کہ شرد پوار جو سوچتے ہیں وہ کہتے نہیں ہیں اور جو کہتے ہیں اس کے وہ معنی نہیں ہوتے ہیں جو سمجھ میں آتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی خاموشی، سیاسی سرگرمیوں سے زیادہ خطرناک ہو تی ہے۔ اسی تجزیہ کے تناظر میں دیکھا جائے تو شرد پوار نے علاقائی پارٹیوں کے کانگریس کے قریب آنے کی بات کہی ہے لیکن حقیقت یہ ہو سکتی ہے کہ انہوں نے وزیر اعظم مودی اور ان کے این ڈی اے اتحاد کو وارننگ دی ہو کہ الیکشن کے نتائج آتے ہی این ڈی اے کا کنبہ بکھرنے والا ہے اور وہاں سے ہماری ہم خیال پارٹیاں جلد ہی انڈیا اتحاد میں شامل ہو جائیں گی۔ 
 سیاست میں حالانکہ کوئی پیش گوئی اور وہ بھی پورے وثوق کے ساتھ کردینا مناسب نہیں ہوتا لیکن شرد پوار کے بیان کے مضمرات خود انہیں بھی معلوم ہوں گے اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اتنا بڑا بیان دیا ہو گا کیوں کہ اس بیان کے اثرات اگلے کئی برس تک ملک کی سیاست پر محسوس کئے جائیں گے۔ شرد پوار کے بیان کے صرف ظاہری معنی ہی لئے جائیں، اس میں پوشیدہ معنی سے صرف نظر کیا جائے تو بھی یہ کافی خوش آئند ہے کیوں کہ وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں جو کانگریس سے الگ ہوئیں ان کی وجہ سے کانگریس کا ہی ووٹ بینک تقسیم ہوا ہے اور اگر وہ انتخابات کے بعد کانگریس میں واپس آجاتی ہیں تو اس سے پارٹی کی طاقت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے ووٹ بینک اور عوامی حمایت میں بھی مضبوطی آئے گی۔ ویسے بھی سیاسی بیانیہ طے کرنے میں شرد پوار کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم مودی کو قومی میڈیا یہی درجہ دینے کی کوشش اکثر کرتا ہے لیکن وہ شرد پوار کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اس کی مثال ان کا مذکورہ بالا بیان ہی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی اور این ڈی اے کے خیمے میں بلاشبہ ہلچل مچ گئی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK