• Tue, 15 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

وزیراعظم مودی کی زبان، ہریانہ کا بحران اور الیکشن کمیشن کا طرزعمل

Updated: May 13, 2024, 3:07 PM IST | Asim Jalal | Mumbai

پارلیمنٹ کی آدھی سے زیادہ سیٹوں کیلئے ووٹنگ مکمل ہوچکی ہے مگر ایسا لگتاہے کہ اب تک بی جےپی یہ طے نہیں کرسکی کہ اس کا انتخابی موضوع کیا ہے، ایسے میں وزیراعظم کے بیانیہ کےاگر کچھ معنی نکالے جارہے ہیں تو بے وجہ نہیں ہیں،ہریانہ کا بحران اسے تقویت بھی فراہم کرتا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کا رویہ اپوزیشن کے الزامات کی توثیق کرتا نظر آتا ہے۔

After three phases of polling, Prime Minister Modi and his team are scared. Photo: INN
تین مرحلے کی پولنگ کے بعد وزیراعظم مودی اور ان کی ٹیم خوف زدہ ہوگئی ہے۔ تصویر : آئی این این

 پارلیمانی الیکشن کے ۳؍مراحل مکمل ہوچکے ہیں، اس دوران لوک سبھا کی آدھی سے زیادہ سیٹوں کیلئے عوام کافیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں  میں  محفوظ ہوچکاہے۔ ا س طرح اگر یہ کہہ سکتے ہیں  کہ لوک سبھا کا آدھے سے زیادہ الیکشن مکمل ہو چکاہے۔ حیرت انگیز طور پراب تک بی جےپی یہ طے نہیں  کر سکی ہے کہ اسے یہ الیکشن کس موضوع پر لڑنا ہے۔ انتخابات کی تاریخوں   کے اعلان سے قبل تک کسی نے مرکز میں  اقتدار میں  تبدیلی کے امکان کے بارے میں  سوچا بھی نہیں تھا۔ جو سروے آرہے تھےوہ بھی لگاتار تیسری بار مودی سرکار کے بننے کی پیش گوئی ہی کررہے تھے۔ بی جےپی نے ’’۴۰۰؍ کے پار ‘‘کا نعرہ دے کر شاید مقابلہ شروع ہونے پہلے ہی اپوزیشن کو نفسیاتی دباؤ میں  مبتلا کرکے مقابلے سے باہر کر دینے کی حکمت عملی بنائی تھی مگر اب سب کچھ بدلا ہوا اور بی جےپی خود اپنے جال میں  پھنسی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 
 وزیراعظم مودی سمیت بی جےپی کا کوئی بڑا لیڈر ’’۴۰۰؍ پار‘‘ کا نعرہ  دہرانے کی جرأت نہیں  کررہا ہے۔ کہاں  تو یہ دعویٰ تھا کہ ۵۷۲؍ رکنی ایوان کی ۴۰۰؍ سیٹیں  این ڈی اے جیت لے گا اور کہاں  اب عوام کو اس خوف میں  مبتلا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کانگریس اقتدار میں  واپس آسکتی ہے۔ انہیں  ڈرایا جارہاہے کہ اگر کانگریس آگئی تو وہ صرف اور صرف مسلمانوں  کیلئے کام کرے گی، اکثریتی فرقے کی ملکیت اور دولت چھین کر اقلیتوں  میں تقسیم کردے گی، ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کا ریزرویشن چھین کر مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کو دے دے گی، شاہ بانو کیس کی طرح  بابری مسجد کیس میں  بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ بدل کر ’’رام مندر پر بابری مسجد والا تالہ‘‘ لگادے گی اور حد تو یہ ہے کہ اسپورٹس کوٹہ میں  بھی اقلیتوں  کو ترجیح دے کر مذہب کی بنیاد پر یہ طے کریگی کہ کرکٹ ٹیم میں کون رہے گا اور کون نہیں ؟ یہ مضحکہ خیز بیانیہ کوئی اور نہیں  ملک کے وزیراعظم نریندر مودی خود طے کر رہے ہیں  جن سے اگر یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ اپنی ۱۰؍ سالہ حکومت کی حصولیابی کو گنوا کر ووٹ مانگیں  تو غلط نہیں  ہے۔ عالمی سطح پر ہندوستان کا ڈنکا بجنے کا دعویٰ کیا جارہا تھا مگر اب انتخابی مہم میں  اقلیتوں  اور اپوزیشن کے تعلق سے وزیراعظم کی زبان وبیان عالمی سطح پر موضوع بحث ہے بلکہ ملک کیلئے باعث شرمندگی بنا ہوا ہے۔ وہ اپوزیشن جو متحد ہونے کی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود الیکشن کی تاریخوں   کے اعلان کے بعد بھی وزیراعظم مودی کی قیادت میں   بی جے پی کے اقتدار کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں  کم کم ہی نظر آرہاتھا، اچانک انتخابی مہم کا ایجنڈہ طے کررہاہے اور اب تو یہ دعوے بھی کرنے لگا ہے کہ بی جےپی کیلئے ۱۵۰؍ سیٹیں  بھی جیتنا مشکل ہوجائیں گی۔ 

یہ بھی پڑھئے:فتح کیلئے بی جے پی کے پاس صرف جھوٹ اور مسلم دشمنی کا سہارا

اپوزیشن نے آئین کی تبدیلی اور ریزرویشن کے خاتمے کے اندیشے کو نہ صرف اپنا انتخابی موضوع بنایا بلکہ بی جےپی کو اس بات کیلئے مجبور کیا کہ وہ اُس کی بنائی ہوئی پچ پر کھیلے۔ وزیراعظم کی حالیہ انتخابی ریلیوں میں  کی گئی تقریروں  سے یہ صاف نظر آرہاہے کہ وہ اپوزیشن کی جانب سے پھینکی گئی گیندوں  کو کامیابی سے نہیں  کھیل پارہے ہیں۔ انگریزی کہاوت ’آفینس اِز بیسٹ  ڈیفنس‘ (جارحیت زیادہ بہتر دفاع ہے) پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے ریزرویشن اور آئین کی تبدیلی کے الزام کی تردید کے ساتھ اُلٹا ریزرویشن کے حوالے سے مسلمانوں   کا خوف پیدا کرکے اسے دفاعی پوزیشن پر لانے کی کوشش کی مگر کامیاب ہوتے نظر نہیں  آتے۔ اس سلسلے میں  وہ اپوزیشن لیڈروں کیلئے جس طرح کی زبان کا استعمال کررہے ہیں  اور جس طرح ہر بار کوئی نیا موضوع چھیڑ کر ووٹروں  کو رام کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسے کچھ لوگ ان کی بوکھلاہٹ کا نتیجہ بھی کہہ رہے ہیں۔ شرد پوار کیلئے ’’بھٹکتی آتما‘‘ اور اُدھو ٹھاکرے کی پارٹی کیلئے ’’نقلی شیوسینا ‘‘ کی اصطلاح کے استعمال کے بعد اس کی تازہ ترین مثال مثال ’اڈانی اور امبانی‘ کے حوالے سے راہل گاندھی کو نشانہ بنانے کی ان کی کوشش ہے جو ’بیک فائر‘ کر گئی ہے۔ 
 اس کے بیک فائر کرجانے کا یہی ثبوت کافی ہے کہ راہل گاندھی کے جواب کےبعد نہ مودی نے اس بیان کو دہرایا نہ ان کی پارٹی کے کسی لیڈر نے جرأت کی، ورنہ عام طرز عمل یہ ہے کہ وزیراعظم جو بیانیہ وضع کرتے ہیں اسے پارٹی کے دیگر لیڈر آگے بڑھاتے ہیں، ہر لیڈر کی ریلی میں اس کی تکرار سنائی دیتی ہے اور جگہ جگہ پریس کانفرنس کرکے اُس بیانیہ کو تقویت فراہم کی جاتی ہے نیز نیوز چینلوں  پر بحث کے ذریعہ اسے مرکزی موضوع بنانے کی کوشش بھی ہوتی ہے۔ 
 وزیراعظم کا کوئی بھی بیانیہ اب تک انتخابی مہم کا موضوع نہیں بن سکا، یہ وزیراعظم اور بی جے پی کی سب سے بڑی ناکامی بھی ہے اور سب سے بڑی پریشانی بھی۔ نتائج کچھ بھی ہوں، بی جے پی کے لیڈر اب ۲۷۲؍ کیلئے فکرمند نظر آنے لگے ہیں۔ اس فکر مندی کو عوامی سطح پر تو محسوس کیا ہی جا رہا ہے وہ لیڈر بھی محسوس کر رہے ہیں  جنہوں  نے بی جےپی کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔ ہریانہ کے سیاسی بحران اور ۳؍ آزاد اراکین اسمبلی کے پالا بدلنے کو اسی پس منظر میں دیکھا جاسکتاہے۔ بھلے ہی یہ انتخابی نتائج تک کیلئے ہی ہومگر ملک کی سیاست میں  تبدیلی واضح طو رپر محسوس ہورہی ہے۔ ایسے میں الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں  یہ تیقن پیدا کرے کہ وہ کسی پارٹی کیلئے نرم نہیں   ہے۔ پہلے مرحلے کی پولنگ کے ۱۱؍ دن اور دوسرے مرحلے کی پولنگ کے ۴؍ دن بعد پولنگ کے حتمی نتائج ظاہر کئے جانے کا عوامی سطح پر کیا تاثر قائم ہوا ہے، اس کا اندازہ تیسرے مرحلے کی پولنگ کی رات ایک عام شخص کے اس تبصرہ سے لگایا جاسکتاہےکہ ’’عوام کی ووٹنگ مکمل ہوچکی، اب الیکشن کمیشن کی ووٹنگ کے بعد حتمی پولنگ کچھ دنوں  بعد ظاہر کی جائیگی۔ ‘‘ کانگریس صدر کھرگے نے اگر پولنگ کے اعدادوشمار کے تعلق سے اپنے اندیشوں  کا اظہار کیا ہے تو ضروری تھا کہ الیکشن کمیشن انہیں اطمینان دلاتا، اس طرح وہ صرف انہیں  ہی نہیں  ، مذکورہ بالا تبصرہ کرنے والے عام آدمی کو بھی مطمئن کر سکتاتھا مگر اس کے برخلاف ا س نے جس طرح ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے صدر کی سرزنش کی وہ حزب اختلاف کے الزامات کی توثیق بن گیا۔ الیکشن کمیشن کا کام صرف غیر جانبدارانہ اور منصفانہ الیکشن منعقد کرانا ہی نہیں ہے، یہ تاثرقائم کرنا بھی ہے کہ الیکشن منصفانہ ہیں مگر اپوزیشن کی شکایات اور حکمراں  محاذ کے لیڈروں  کی جانب سے مسلمانوں  کے خلاف زہرافشانیوں  پر اس کا رویہ اور اس کے اقدامات بہت کچھ بیان کردیتے ہیں۔ نتائج کچھ بھی ہوں  مگر جو سوالات اٹھ رہے ہیں وہ نہ صرف قائم رہیں گے بلکہ تاریخ کی کتابوں میں محفوظ بھی رہیں گے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK