Inquilab Logo

حکومت، اپوزیشن اور فون ہیکنگ

Updated: November 02, 2023, 10:17 AM IST | Mumbai

اپوزیشن کے کئی لیڈروں کے فون ہیک کئے جانے کا انکشاف، انکشاف نہیں ہے۔ چونکہ الرٹ خود ایپل (کمپنی) کی جانب سے آیا ہے اس لئے اسے الزام نہیں کہا جاسکتا ورنہ اسے اپوزیشن کی الزام تراشی اور حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔

The revelation that several opposition leaders` phones were hacked is not a revelation. Since the alert comes from Apple (the company) itself
اپوزیشن کے کئی لیڈروں کے فون ہیک کئے جانے کا انکشاف، انکشاف نہیں ہے۔ چونکہ الرٹ خود ایپل (کمپنی) کی جانب سے آیا ہے

 اپوزیشن کے کئی لیڈروں کے فون ہیک کئے جانے کا انکشاف، انکشاف نہیں ہے۔ چونکہ الرٹ خود ایپل  (کمپنی) کی جانب سے آیا ہے اس لئے اسے الزام نہیں کہا جاسکتا ورنہ اسے اپوزیشن کی الزام تراشی اور حکومت کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا جاتا ہے۔ اسے انکشاف اس لئے نہیں کہا جاسکتا کہ اپوزیشن کا کون لیڈر ہوگا جو اِس بات سے مطمئن ہوگا کہ اس کی جاسوسی نہیں ہوتی ہوگی؟ پیگاسس معاملہ کے بعد سے تو سب ’’ہر وقت الرٹ‘‘ کی حالت میں رہتے ہونگے۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی حکومت کتنی ہی بے خوف ہو، اپوزیشن سے بے خوف نہیں رہتی اور اپوزیشن کی پارٹیاں کتنا ہی پُراعتماد ہوں حکومت کی ریشہ دوانیوں سے لمحہ بھر کیلئے بھی غافل نہیں رہتیں۔ یہ تقریباً ہر ملک کی داستان ہے۔ خود ہمارے ملک میں یہ پہلے بھی ہوا ہے یہ الگ بات کہ موجودہ دَور میں اس رجحان میں شدت آگئی ہے۔ موجودہ دور میں اور کئی باتوں کے علاوہ یہ بھی ہوا ہے کہ حکمراں طبقے اور حزب اختلاف میں اتنی دوریاں کبھی نہیں تھیں جتنی اَب ہیں۔ 
 نئے ہندوستان میں یہ نئے طرز کی جمہوریت ہے۔ ماضی میں پارلیمانی اُمور کا وزیر اُس وقت خود کو گویا ناکام تصور کرتا تھا جب کسی معاملے میں   حکمراں طبقے اور حزب اختلاف میں اتفاق رائے نہیں ہوپاتا تھا یا یہ طے نہیں ہوجاتا تھا کہ اپوزیشن اپنے احتجاج میں کہاں تک جائیگا اور کس موڑ پر حکومت کے موقف کو یا تو غیر اعلانیہ طور پر قبول کرلے گا یا اس میں چند ترامیم کے بعد اسے اپنی کامیابی باور کرائیگا۔ اب نہ تو افہام و تفہیم کی کوشش کی جاتی ہے نہ ہی اپنے موقف میں مناسب تبدیلی کے ذریعہ تعطل کی کیفیت کو دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مختصر یہ کہ دوریاں پہلے سے تھیں، اب ایپل کے اس الرٹ کے بعد کہ جو ہیکنگ ہوئی وہ ’اسٹیٹ اِسپانسرڈ‘ ہے یعنی حکومت کی جانب سے ہوئی ہے، حکمراں طبقے اور حزب اختلاف کے درمیان خلیج اور بڑھے گی جو ملک کی جمہوریت کیلئے افسوسناک ہے۔ جمہوریت میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جھگڑالو ساس اور تنک مزاج بہو جیسا رشتہ ہو تو جس طرح ایسی ساس بہو سے گھر کی فضا کبھی پُرامن اور سازگار نہیں رہ سکتی بالکل اُسی طرح جمہوریت بھی قائم نہیں رہ سکتی۔ ان کا رشتہ مسند نشین و محتسب کا  ہوتا ہے۔ مسند نشین کی اپنی ذمہ داریاں ہیں اور محتسب کے اپنے فرائض ہیں۔ اگر مسند نشین محتسب کو ڈرانے دھمکانے لگے تو جمہوریت کی صحت اور بقاء کیلئے لازمی عمل ِاحتساب متاثر ہوگا جو نہ تو  ملک کیلئے نفع بخش ہوگا نہ ہی اس کے عوام کیلئے۔ ایسا ہوتا ہے تو جمہوریت آمریت کے قریب پہنچ جاتی ہے۔
 اگر اپوزیشن کے پاس چھپانے کیلئے کچھ نہ ہو یا اس کے لیڈران ڈرتے نہ ہوں، جیسا کہ راہل گاندھی نے کہا کہ ’’ہم ڈرنے والے نہیں ہیں‘‘، تب بھی حزب اختلاف سے وابستہ لیڈروں کی جاسوسی فرد کی آزادی میں مداخلت کے سوا کچھ نہیں  ہے۔ یہ اُن لیڈروں کو شک و شبہ کے دائرہ میں لانے کی کوشش بھی ہے۔ حکمراں جماعت کو متنبہ رہنا چاہئے کہ ایسی کوششوں کا فائدہ اپوزیشن ہی کو پہنچتا ہے حکمراں جماعت کو نہیں۔ عوام ہمیشہ مظلوم کا ساتھ دیتے ہیں۔ آئندہ دنوں میں جن پانچ ریاستوں میں الیکشن ہونگے وہاں کا ماحول سب پر عیاں تو ہے مگر اس پیگاسس کے بعد اب اسٹیٹ اِسپانسرڈ ہیکنگ کی وجہ سے صورت حال مزید بدلے گی اگر اپوزیشن نے متحدہ طور پر اس معاملے کو اُٹھایا اور حکومت سے جواب طلب کیا۔   n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK