Inquilab Logo

گجرات: بی جے پی کی فتح پر حیرت نہیں

Updated: December 09, 2022, 10:42 AM IST | Mumbai

گزشتہ کئی ہفتوں سے تین انتخابات شہ سرخیوں میں تھے، دہلی میونسپل کارپوریشن، ہماچل پردیش اسمبلی اور گجرات اسمبلی، مگر ان میں زیادہ اہمیت گجرات انتخابات کی تھی

Gujarat election photo;INN
گجرات الیکشن کی تصویر :آئی این این

 گزشتہ کئی ہفتوں سے تین انتخابات شہ سرخیوں میں تھے، دہلی میونسپل کارپوریشن، ہماچل پردیش اسمبلی اور گجرات اسمبلی، مگر ان میں زیادہ اہمیت گجرات انتخابات کی تھی۔ دہلی میں عام آدمی پارٹی، ہماچل میں کانگریس اور گجرات میں حسب توقع بی جے پی کی غیر معمولی بالادستی قائم ہوئی ہے۔ گویا تین الیکشن تھے جن کے نتائج تین پارٹیوں کے حق میں ظاہر ہوئے ہیں۔ اِن تینوں سے بحث ضروری ہے مگر فی الحال ہم صرف گجرات کے نتائج سے بحث کررہے ہیں۔ اِس وقت جبکہ یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق بی جے پی ۱۵۰؍ سیٹیں جیت چکی ہے اور ۶؍ پر آگے ہے۔ کانگریس ۱۶؍ انتخابی حلقوں میں فتحیاب ہوئی اور ایک میں آگے ہے۔ عام آدمی پارٹی کے حصے میں ۵؍ سیٹیں آئی ہیں۔ گجرات ۲۰۱۷ء کے نتائج سے موازنہ کیا جائے تو یہ تسلیم کئے بغیر نہیں رہا جاسکتا کہ بی جے پی کی کارکردگی شاندار ہے جبکہ کانگریس کی کارکردگی ریاست ِ گجرات کی تشکیل سے لے کر اب تک کے ۴۲؍ سال میں سب سے خراب ہے۔ 
 اس پس منظر میں دو سوال اُبھرتے ہیں۔ پہلا: بی جے پی شدید اقتدار مخالف لہر کے باوجود اتنی سیٹوں پر قبضہ کرنے میں کیسے کامیاب ہوئی؟ اور دوسرا: کانگریس مذکورہ لہر کا فائدہ اُٹھانے میں کیوں ناکام رہی؟ 
 پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ بی جے پی، جو چھوٹے سے چھوٹا الیکشن بھی بڑے سے بڑے الیکشن کی طرح لڑتی ہے، اُس ریاست ِ گجرات کو گنوا نہیں سکتی تھی جو اُس کے دو سب سے ممتاز لیڈروں کی جنم بھومی ہے، جو پورے ملک میں بی جے پی کے اثرورسوخ کا سرچشمہ ثابت ہوئی اور اب بھی جس کے نتائج پر بی جے پی کی بہت سی منصوبہ بندی کا انحصار ہے۔ اسی لئے، اُس نے ہر وہ قدم اُٹھایا جس سے فتح کی ضمانت مل سکتی تھی۔ جب تک انتخابی ضابطہ ٔ اخلاق نافذ نہیں ہوا تھا، گجرات پر سرکاری نوازشوں یا اُن کے اعلانات کی برسات ہوتی رہی، اس کے بعد ریلیوں پر ریلیوں کا انعقاد ہوا، طاقت اور وسائل کا بھرپور استعمال کیا گیا، غیر معمولی توانائی بھی صرف کی گئی (مثال: اب تک کا سب سے بڑ ا روڈ شو) اور ایسا ہر موضوع اُٹھانے کی کوشش کی گئی جس سے گجرات کے برگشتہ  عوام کو رام کیا جاسکتا تھا۔ یہی نہیں، کئی اور باتیں بھی بی جے پی کی شاندار کامیابی کا سبب بنیں۔ ۲۰۲۰ء میں انتخابی حلقوں کی تشکیل نو ہوئی تھی جس کے ذریعہ کئی حلقوں کے غیر بی جے پی ووٹوں کی اہمیت اور نتیجہ خیزی متاثر ہوئی۔ ’’آپ‘‘ اور دیگر پارٹیوں کی وجہ سے غیر بی جے پی ووٹ منتشر ہوئے۔ کئی حلقوں میں بیک وقت کئی غیر بی جے پی اُمیدواروں کی وجہ سے بھی غیر بی جے پی ووٹ تقسیم ہوا۔ بشرط ِتوثیق ایک بات اور ہوئی۔ کئی انتخابی حلقوں میں ووٹنگ کم تھی مگر آخری گھنٹے میں ہوش رُبا ہوگئی۔ یہ اگر درست ہے تو سراسر دھاندلی اور بے ضابطگی ہے جس پر الیکشن کمیشن کو فوراً حرکت میں آنا ہوگا۔ چونکہ انتخابی جنگ میں بی جے پی کی مہارت کا ہر خاص و عام قائل ہے اور اس پر یہ الزام بھی لگتا ہے کہ اس کو ’’سام، دام، دنڈ، بھید‘‘ سب گوارا بلکہ مرغوب ہے، اس لئے عجب نہیں کہ کچھ عیاں اور کچھ نہاں طریقے سے ان تمام کو بروئے کار لایا گیا ہو؟ 
  گجرات میں بی جے پی کا جیت جانا باعث حیرت نہیں۔ حیرت ہے تو صرف اس بات پر کہ ریاست میں سرکاری ملازمتوں کیلئے تقرریوں کے مسئلے، پرچوں کے افشاء ہونے کے معاملے، موربی سانحہ جس نے ۱۳۵؍ افراد کی جان لی، زہریلی شراب کا سانحہ جس میں ۴۲؍ افراد فوت ہوئے، کورونا دَور کی عوامی بے بسی، کئی قسم کے آندولن اور مہنگائی نیز بے روزگاری جیسے بحران کے باوجود اسے اِتنی سیٹیں کیسے مل گئیں؟ کیا کانگریس کی ’’خاموش انتخابی مہم ‘‘ کو انتخابی عدم دلچسپی پر محمول کیا؟ یا ’’آپ‘‘نے ’’کانگریس مُکت گجرات‘‘ میں کلیدی کردار ادا کیا؟ پہلے سوال کا جواب دینا مشکل ہے مگر دوسرے سوال کا جواب ایک ایک حلقے کا نتیجہ ظاہر ہوجائے تو بآسانی دیا جاسکتا ہے۔ مگر، لگتا یہی ہے کہ سارا  کھیل ’’آپ‘‘ نے بگاڑا ہے۔ 
 اب آئیے اس بات پر کہ کانگریس شدید اقتدار مخالف لہر کا فائدہ اُٹھانے میں کیوں ناکام رہی؟ ہمارے خیال میں اس لئے کہ پے در پے شکستوں کے بعد یہ پارٹی، جو وسائل کی شدید تر قلت کا شکار ہے، اب ہوشیار ہوگئی ہے۔ گمان غالب ہے کہ اس کی اسٹراٹیجی بدلی ہے کہ اُنہی ریاستوں پر محنت کرینگے جہاں فتح کا قوی امکان ہوگا۔ جہاں جیتنا ممکن نہ ہو یا جہاں کی سیاسی فضا موافق نہ ہو وہاں اپنے محدود وسائل لگانا دانشمندی نہیں۔ اس پس منظر میں دیکھئے کہ اس نے ہماچل پر محنت کی اور ہماچل جیت لیا۔ گجرات پر محنت نہیں کی اور شاید گجرات پر افسوس بھی نہ کرے۔ سیاسی فضا موافق نہ ہونے کے باب میں دیکھئے کہ گزشتہ الیکشن کی محنت نے اسے ۷۷؍ سیٹیں دلوائی تھیں مگر کیا ہوا؟ ۷۷؍ میں سے ۲۲؍ اراکین اسمبلی نے بے وفائی کردی! اَب ایک نئی اڑچن ’’آپ‘‘ کی تھی جس کا اندازہ اسے پہلے سے رہا ہوگا، اسی لئے پارٹی نے بھارت جوڑو یاترا کو اپنا محور و مرکز بنایا اور گجرات الیکشن میں رسمی شرکت کی۔ممکن ہے کہ یہی اس کے حق میں بہتر حکمت عملی ثابت ہو۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK