Inquilab Logo Happiest Places to Work

تسلیم کیا جائے سپریم کورٹ کا مشورہ

Updated: July 25, 2025, 1:26 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

بہار الیکشن کے پیش نظر ووٹرلسٹ کی خصوصی نظر ثانی معاملے میں سپریم کورٹ کی یہ سفارش کہ آدھار، ووٹر اور راشن کارڈ کو ہندوستانی شہری اور ووٹر ہونے کے ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے اسی لئے ہے کہ کوئی شہری جمہوری عمل میں حصہ لینے سے محروم نہ رہ جائے۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

سپریم کورٹ کا فیصلہ آخری فیصلہ تو ہے ہی، اس کا مشورہ بھی نظرانداز نہیں  کیا جاسکتا اس پس منظر میں  سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کو ووٹر لسٹ کی جامع اور گہری جانچ (ایس آئی آر) کی اجازت دینے کے ساتھ یہ کہنا کہ وہ راشن کارڈ، ووٹر آئی ڈی کارڈ اور آدھار کارڈ کو ثبوت کی دستاویز کے طور پر تسلیم کرے بہت اہم ہے۔ الیکشن کمیشن نے ووٹر لسٹ کی جانچ میں  آدھار کارڈ کو شامل نہ کرنے کے ضمن میں  یقین دہانی بھی کی ہے کہ اس کی جانچ کو ’شہریت کا ثبوت‘ نہیں  مانا جاسکتا۔ مگر دوسری طرف اِس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ دستور کی دفعہ ۳۲۶؍ کے تحت یہ اختیار اس کو حاصل ہے۔ اس پر عدالت عالیہ نے کہا کہ جن لوگوں  کے ناموں  کو ووٹر لسٹ سے ہٹایا جاسکتا ہے ان کے پاس اپیل کا وقت نہیں  ہوگا اس پر کمیشن نے یقین دہانی کی کہ سماعت کے بغیر کسی کے نام کو بھی ووٹر لسٹ سے باہر نہیں  کیا جائے گا۔ اس معاملے کو وسیع تر پس منظر میں  دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ فرضی ووٹر کے وجود سے انکار نہیں  کیا جاسکتا۔ ایس آئی آر نے بھی کہا ہے کہ ۳۵ء۷؍ لاکھ ووٹرز اپنے لکھوائے ہوئے پتوں  پر نہیں  ملے۔ اس کے باوجود صحیح یہی ہوگا کہ الیکشن کمیشن زیادہ سے زیادہ ناموں  کو ووٹر لسٹ سے باہر نکالنے کے بجائے یہ کوشش کرے کہ ایک بھی ہندوستانی شہری جمہوری عمل میں  حصہ لینے سے محروم نہ رہ جائے۔ یہی سپریم کورٹ کا بھی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ اس نے ایس آئی آر پر پابندی تو نہیں  عائد کی ہے لیکن مدت کو لے کر جو سوال اٹھایا ہے اور جن دستاویزوں  کو قبول کرنے کی سفارش کی ہے وہ بالکل واجب ہے اور اس سفارش سے عام لوگوں  کو راحت بھی ملے گی۔
 اس کی مثال یہ ہے کہ بہار کے صرف ایک ضلع کشن گنج میں  ایک ہفتہ کے دوران رہائش کا ثبوت حاصل کرنے کے لئے دو لاکھ سے زیادہ درخواستیں  دی گئی ہیں ۔ ظاہر ہے سب کا جواب دینا یا سب کو ثبوت فراہم کرنا آسان نہیں  ہے اس لئے Enumeration Form تقسیم کرنے والے عملے نے لوگوں  سے کہا ہے کہ وہ آدھار کارڈ کی ہی کاپی جمع کرا دیں ۔ یہ پہلے ہی اعلان کر دیا جاتا تو عام لوگوں  میں  اتنی دہشت نہ ہوتی جس کے سبب ایک ہی ضلع کے دو لاکھ لوگوں  نے رہائش کا ثبوت حاصل کرنے کی درخواست دی اور وہ بھی صرف ایک ہفتہ میں ۔ اس لئے یہی کہا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ نے بہار میں  ووٹر لسٹ کی جانچ کا جو عمل شروع کیا ہے وہ بالکل صحیح ہے۔ دوسری ریاستوں  میں  بھی ووٹر لسٹ کی جانچ شروع ہوگی اور اس کا طریقۂ کار بہار میں  منظور و رائج ہونے والے طریقۂ کار سے مختلف نہیں  ہوگا۔ اس طرح دیکھا جائے تو یہ اہم معاملہ پورے ملک پر اثر انداز ہوگا۔ سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ اس معاملے کا تعلق جمہوریت کی جڑوں  سے جڑا ہوا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اس معاملے سے سب سے زیادہ پریشان عوام ہی ہیں  جن پر جمہوریت کی بنیاد ہے۔ یہ پریشانی شاید اس لئے ہے کہ الیکشن کمیشن تو کہہ رہا ہے کہ ووٹر لسٹ کی جانچ کی جائے گی مگر عوام الیکشن کمیشن کے ہی بیان کی روشنی میں  سمجھ رہے ہیں  کہ ان کی شہریت پر سوال اٹھایا جا رہا ہے۔ ایسے میں  عوامی راحت کی سب سے بڑی صورت یہی ہے کہ کپل سبل کے اس تبصرہ پر اعتماد کیا جائے کہ، الیکشن کمیشن کا شہریت کی جانچ سے کوئی تعلق نہیں  ہے مگر یہ سوال تو بہرحال اہم ہے کہ اگر بھارت کے جائز اور پشتینی شہریوں  کو فرضی یا غیر ملکی قرار دے کر ووٹ دینے سے روک دیا گیا تو کیا ہوگا؟ اس کا خدشہ ہی نہیں  تجربہ بھی ہے کہ ایسا کیا جاتا رہا ہے۔ کئی سیاسی پارٹی کے لوگوں  نے صحیح سوال اٹھایا ہے کہ اگر بہار کی ووٹر لسٹ میں  غیر ملکی ہیں  تو ذمہ دار کون ہے کہ مرکز اور ریاست میں  ۱۱؍ اور ۲۰؍ سال سے وہی پارٹی برسراقتدار ہے جس کے اقتدار میں  غیر ملکیوں  کے ووٹر لسٹ میں  شامل کئے جانے کی بات کی جا رہی ہے۔ کچھ دوسری بنیادوں  پر بھی عوام میں  جو خدشات ہیں  وہ اس طرح بیان کئے جاسکتے ہیں ۔

 

یہ بھی پڑھئے : بہار میں بھاجپا ۔جنتا دل متحدہ اتحاد ایک دوسرے کی مجبوری


 جو لوگ مزدوری کیلئے دوسری ریاستوں  میں  مقیم ہیں  ان کے علاوہ بھی ایک طبقے کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کو ووٹ دینے کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ رائے دہندگان جو ووٹ دیتے رہے ہیں  انہیں  محسوس ہوتا ہے کہ ان سے ایسی دستاویز طلب کی جاسکتی ہے جو پیش کرنا ممکن نہیں  ہے۔ مثلاً رائے دینے والے یا ووٹر کیلئے اپنی ہی تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت پیش کرنا مشکل ہے وہ اپنے والدین کی تاریخ اور جائے پیدائش کا ثبوت کہاں  سے لائینگے؟ ووٹر لسٹ میں  نئے نام شامل کئے جانے کے بارے میں  بھی یہی مشکلات اور خدشات ہیں ۔ ایڈوکیٹ کپل سبل نے تو بہت سخت بیان دیا ہے۔ عوامی خدشات سے سپریم کورٹ بھی متفق دکھائی دیتا ہے۔ اس نے جو سوال پوچھا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ جن دستاویزات کو طلب کیا جا رہا ہے یا طلب کیا جاسکتا ہے وہ اتنے کم وقت میں  کیسے فراہم کی جاسکتی ہیں ؟ سپریم کورٹ کی یہ سفارش بھی کہ آدھار، ووٹر اور راشن کارڈ کو ہندوستانی شہری اور ووٹر ہونے کے ثبوت کے طور پر قبول کیا جائے اسی لئے ہے کہ کوئی شہری جمہوری عمل میں  حصہ لینے سے محروم نہ رہ جائے۔ اس نے یقین دہانی بھی کی ہے کہ کوئی اہل رائے دہندہ کا نام ووٹر لسٹ سے باہر نہیں  ہوگا البتہ اس ’اہل‘ سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ہاں ، یہ امید بندھتی ہے تو اس سے کہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ یا مجوزہ ووٹر لسٹ کا مسودہ یکم اگست ۲۰۲۵ء کو جاری کیا جائے گا۔ اس سے انفرادی طور پر ووٹرز کو بھی آگاہ کیا جائیگا اور سیاسی جماعتوں  کو بھی بھیجا جائے گا۔ وہ نشاندہی کرے گا تو الیکشن کمیشن اس میں  اصلاح بھی کرے گا۔ خصوصی فارم جمع کرنے میں  ابھی کئی دن باقی ہیں  امید ہے کہ آخری تاریخ تک مزید فارم جمع کئے جائینگے جس سے ۹۴؍ فیصد (جتنے ووٹرز کی تصدیق کی جاچکی ہے) کا تناسب بڑھ جائیگا۔ یہاں  یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا سیاسی پارٹیاں  اس مسئلہ میں  کچھ کریں  گی۔ اگر سیاسی پارٹیاں  کچھ نہیں  کرسکتیں  تو ان کو ووٹر لسٹ بھیجنے کا مطلب کیا ہے؟ عوام اور سیاسی پارٹیوں  کو مل کر اصرار کرنا چاہئے کہ سپریم کورٹ نے جن دستاویزات کو قبول کرنے کا مشورہ دیا ہے وہ قبول کی جائیں ۔ ہر جائز شہری کو ووٹ دینے کا حق دیا جائے، ہر گھس پیٹھئے کا نام ووٹر لسٹ سے باہر کیا جائے مگر ووٹر لسٹ کو شہریت کا ثبوت نہ سمجھا جائے۔ ماہر قانون ایڈوکیٹ کپل سبل نے یہی کہا بھی ہے کہ الیکشن کمیشن شہریت کی جانچ نہیں  کرسکتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK