شرعی عبادت تین قسم کی ہیں: (۱)خالص مالی عبادت؛ جیسے زکوٰۃ، صدقات، کفارات وغیرہ (۲)خالص بدنی عبادت؛ جیسے نماز، روزہ اور جہاد وغیرہ، اور (۳)مالی و بدنی مرکب عبادت جیسے حج وغیرہ۔ جو عبادات خالص مالی ہیں ان میں علی الاطلاق نیابت (کسی کی طرف سے انجام دہی) جائز ہے، جو عبادات خالص بدنی ہیں ان میں علی الاطلاق نیابت جائز نہیں، جو عبادات بدن اور مال دونوں کے ساتھ عمل میں آتی ہیں جیسے حج، اس میں اگر خود قدرت ہو تو نیابت جائز نہیں اور اگر عاجز ہو تو نیابت جائز ہے۔
جو عبادات بدن اور مال دونوں کے ساتھ عمل میں آتی ہیں جیسے حج، اس میں اگر خود قدرت ہو تو نیابت جائز نہیں اور اگر عاجز ہو تو نیابت جائز ہے
شرعی عبادت تین قسم کی ہیں: (۱)خالص مالی عبادت؛ جیسے زکوٰۃ، صدقات، کفارات وغیرہ (۲)خالص بدنی عبادت؛ جیسے نماز، روزہ اور جہاد وغیرہ، اور (۳)مالی و بدنی مرکب عبادت جیسے حج وغیرہ۔ جو عبادات خالص مالی ہیں ان میں علی الاطلاق نیابت (کسی کی طرف سے انجام دہی) جائز ہے، جو عبادات خالص بدنی ہیں ان میں علی الاطلاق نیابت جائز نہیں، جو عبادات بدن اور مال دونوں کے ساتھ عمل میں آتی ہیں جیسے حج، اس میں اگر خود قدرت ہو تو نیابت جائز نہیں اور اگر عاجز ہو تو نیابت جائز ہے۔
حج ِ بدل میں کوئی حرج نہیں
حضرت ابن عباسؓفرماتے ہیں، ایک شخص نبی کریم ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میں اپنے والد کی طرف سے حج کرلوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں! اپنے والد کی طرف سے حج کرلو، اس لئے کہ اگر تم ان کی بھلائی میں اضافہ نہ کرسکے تو شر میں بھی اضافہ نہیں کرو گے۔[ابن ماجہ]
حج ِ بدل کیوں کیا جاتا ہے؟
حضرت مجاہد بن رومیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید بن جبیرؓ، حضرت عبد الرحمٰنؓ بن ابی لیلیٰ اور حضرت عبد اللہؓ بن معقل سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا جو صاحبِ استطاعت ہونے کے باوجود حج کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوجائے؟ حضرت سعیدؓ نے فرمایا: اس کے لئے آگ ہے۔ حضرت ابن معقل نے فرمایا: وہ اس حال میں مرا کہ اللہ کا نافرمان ہے، اور حضرت ابن ابی لیلیٰ نے فرمایا کہ اگر اس کا ولی اس کی طرف سے حج ادا کر دے تو مجھے امید ہے (کہ وہ عذابِ الٰہی سے بچ جائے گا) ۔[مصنف ابن ابی شیبہ]
دورِ نبویؐ میں حج بدل اور عمرۂ بدل
حضرت عبداللہ بن عباسؓنے بیان کیا کہ قبیلۂ خثعم کی ایک عورت آئی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ! اللہ نے اپنے بندوں پر حج فرض کیا ہے، لیکن میرے والد بہت بوڑھے ہوگئے ہیں، وہ سواری پر ٹھہر نہیں سکتے، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کروں ؟ آپ ﷺنے فرمایا: ہاں کر لو، اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔[بخاری]
حضرت ابن عباسؓہی سے روایت ہےکہ جہینہ کی ایک عورت حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا: میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، لیکن وہ حج نہ کرسکی اور مرگئی، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں ؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں ! اس کی طرف سے حج کر لو! اگر تمہاری ماں پر کوئی قرض ہوتا تو کیا اسے ادا نہ کرتیں؟ اللہ تعالیٰ کا حق تو اور بھی زیادہ پورا کیے جانے کا مستحق ہے۔[بخاری]
ابی رزین ؓسے ، جو کہ بنی عامر سے تعلق رکھتے ہیں، روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولؐ! میرے والد بوڑھے ہوچکے ہیں وہ حج اور عمرے کے سفر کی طاقت نہیں رکھتے، آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے والد کی طرف سے حج بھی کرسکتے ہو اور عمرہ بھی۔[ابوداؤد]
حج ِ بدل صرف مسلمان کی طرف سے
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓسے روایت ہے، عاص بن وائل نے وصیت کی تھی کہ (مرنے کے بعد) اس کی طرف سے سو غلام آزاد کئے جائیں، پس اس کے بیٹے ہشام نے پچاس غلام آزاد کئے اور ان کے دوسرے بیٹے عمر نے بقیہ پچاس غلام آزاد کرنے کا ارادہ کیا، لیکن اس نے کہا کہ پہلے میں اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے دریافت کرلوں۔ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آیا اور عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ! میرے والد نے سو غلام آزاد کرنے کی ہم کو وصیت کی تھی (میرے بھائی) ہشام نے پچاس غلام آزاد کردیئے ہیں اور میرے ذمّے بقیہ پچاس غلاموں کو آزاد کرنا باقی ہے، تو کیا میں اپنے والد کی طرف سے ان کو آزاد کردوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر وہ مسلمان ہوتا اور تم اس کی طرف سے غلام آزاد کرتے یا اس کی طرف سے صدقہ کرتے یا اس کی طرف سے حج کرتے تو اس کو ان چیزوں کا ثواب ملتا (اگر کوئی مسلمان ہی نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں)۔[ابوداؤد]
بلا وصیت حج ِ بدل
حضرت عطاؒ فرماتے ہیں؛ میت کی طرف سے حج کیا جاسکتا ہے، اگرچہ اس نے اس کی وصیت نہ بھی کی ہو۔[مصنف ابن ابی شیبہ]
حضرت حسن اور حضرت عطاؒ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی کی طرف سے حج کر رہا ہو اور وہ اس کا نام لینا بھول جائے تب بھی اس شخص کی طرف سے حج ادا ہوجائے گا، بے شک اللہ پاک جانتا ہے کہ وہ (بندہ) کس کے لئے حج ادا کر رہا ہے۔ [مصنف ابنِ ابی شیبہ]
حج پہلے اپنی طرف سے
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا: لبیک عن شبرمہ! آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا: وہ میرا بھائی ہے (یا یہ کہا کہ وہ میرا رشتے دار ہے)۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم اپنا حج کرچکے ہو ؟ اس نے کہا: نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: پہلے تم اپنا حج ادا کرو، پھر اس کے بعد شبرمہ کی طرف سے حج کرنا۔[ابوداؤد]
[مضمون نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]