Inquilab Logo

حماس و اسرائیل تنازع اور عالمی سیاست!

Updated: October 19, 2023, 9:28 AM IST | Dr Mushtaq Ahmed | Mumbai

آئے دن فلسطینی مسلم اسرائیلی راکٹ اور بموں کے شکار ہوتے رہے ہیں اور نہ جانے اب تک کتنے معصوم بچے اسرائیلی ظلم کے شکار ہوکر جاں بحق ہوئے ہیں۔ مگر عالمی برادری نے کبھی بھی فلسطینی عوام کے تئیں ہمدردی ظاہر نہیں کی۔

palestine
فلسطین

فلسطین اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ۷۵؍سال سے جغرافیائی حدود کی جنگ جاری ہے اور عالمی برادری اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ فلسطین کی سرزمین پر کس سازش کے تک صہیونی طاقتوں کو پائوں جمانے کا موقع دیا گیا اور یہودی اکثریت کا ملک اسرائیل وجود میںآیا۔ حالیہ حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دیا جا رہاہے اور مغربی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے تئیں ہمدردی ظاہر کی جار ہی ہے جب کہ اسرائیل نے نصف صدی سے فلسطینی عوام کو نہ صرف اذیت ناک زندگی جینے پر مجبور کر رکھا ہے بلکہ آئے دن فلسطینی مسلم اسرائیلی راکٹ اور بموں کے شکار ہوتے رہے ہیں اور نہ جانے اب تک کتنے معصوم بچے اسرائیلی ظلم کے شکار ہوکر جاں بحق ہوئے ہیں۔ مگر عالمی برادری نے کبھی بھی فلسطینی عوام کے تئیں ہمدردی ظاہر نہیں کی اور نہ کبھی ایماندارانہ کوشش کی کہ فلسطین اوراسرائیل کا مسئلہ حل ہو سکے۔ یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ خطۂ فلسطین کے چہار طرف مسلم ممالک ہیں اور قدرتی وسائل کی بدولت معاشی اعتبار سے مستحکم بھی ہیں باوجود اس کے یہ سبھی مسلم ممالک کبھی بھی کھل کر فلسطینی عوام کی بے وطنی اور جلا وطنی کے مسئلہ پر سنجیدگی سے غوروفکر کرکے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کیا ، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کا یہ معمول بن گیا کہ وہ جب چاہے فلسطینی عوام پر جو روستم ڈھاتا رہے۔ ظاہر ہے کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ کی پشت پناہی کی بدولت ہی اسرائیل نہ صرف فلسطین بلکہ دیگر مسلم ممالک کے خلاف بھی زہر افشانی کرتا رہا ۔ 
 بہر کیف! حالیہ حماس حملے کے بعد ایران اور لبنان نے جس طرح کا تیور اپنایا ہے اور بالخصوص ایران نے جو حوصلہ دکھایا ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ ایران نے واضح طورپر اعلان کیا ہے کہ اگر حماس اور اسرائیل کے تنازع کو عالمی برادری یک طرفہ طورپر دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے ۔حماس کے حالیہ راکٹ حملوں میں تیرہ سو سے زائد اسرائیلی یہودی کی جانیں گئی ہیں مگر اسرائیلی بمباری میں غزہ کے تقریباً ڈھائی ہزار معصوم مسلمانوں کی جانیں جا چکی ہیں جن میں ۷۲۵؍ معصوم بچے بھی ہیں۔
 امریکہ نے اس تنازع کو روکنے کیلئے چین سے مدد مانگی ہے۔دراصل امریکہ حماس کے حالیہ حملوں سے پریشان ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل میں نیتن یاہو کی روز بروز کم ہوتی مقبولیت کو اپنی سیاسی شکست تصور کرتا ہے۔اس لئے امریکہ چاہتا ہے کہ اس جنگ میں زیادہ سے زیادہ فلسطینی عوام جاں بحق ہوں تاکہ نیتن یاہو اسرائیلی عوام کو یہ باور کرا سکے کہ اگر حماس نے اسرائیلی عوام پر قہر ڈھایاہے تو وہ حماس کے وجود کو ختم کردے گا۔اگرچہ ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ غزہ میں حماس کا کہیں ایک ٹھکانہ نہیں ہے بلکہ وہ غزہ کے بیس لاکھ سے زیادہ کی آبادی میں پھیلے ہوئے ہیں اور غزہ کی اکثریت آبادی حماس کے ساتھ کھڑی ہے۔ کیونکہ حماس کے حملے نے اسرائیل کی سائنسی اور تکنیکی طاقت کی بھی پول کھول دی ہے اور اسرائیل کے اپوزیشن پارٹیاں اب اسرائیل کے اندرونی حفاظتی دستوں کی تیاری پر بھی سوال اٹھانے لگے ہیں کہ آخر کس طرح حماس نے اتنا بڑا حملہ اسرائیل پر کردیا اور اسرائیل کی کسی بھی سراغ رسانی ایجنسیوں کو اس کی بھنک تک نہیں لگ سکی۔ظاہر ہے کہ پوری دنیا میں یہودی سائنس وٹیکنالوجی پر قابض ہیں اور اسرائیل یہ دعویٰ بھی کرتا رہا ہے کہ اس کے احاطے میں پرندہ بھی پَر نہیں ما رسکتا۔ لیکن حماس نے جو کچھ کردکھایا ہے وہ نہ صرف صہیونی طاقتوںکیلئے بلکہ امریکہ اور دیگر اسرائیلی ہمنوائوں کیلئے فکر مندی کا باعث ہے۔ جہاں تک عالمی برادری کے موقف کا سوال ہے تو اس وقت مغربی دنیا کے ساتھ ساتھ کئی ایشیائی ممالک بھی اس حماس حملے کو اپنے اپنے چشموں سے دیکھ رہی ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ مسلم ممالک یا پھر جن ملکوں میں مسلمانوں کی خاطر خواہ آبادی ہے وہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ صرف اور صرف جذباتی مظاہرے اور مذہبی عملوں تک محدود ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ہر مشکل میں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور دستِ دعا اٹھانا چاہئے۔مگر اس حقیقت سے واقف ہونا بھی ضروری ہے کہ آج دنیا میں مسلمانوں کے خلاف جس طرح کی فضا تیار ہوئی ہے اور اسلام فوبیا کی روش عام ہوئی ہے اس میں صرف اور صرف جذباتی مظاہرے یا پھر مسجدوں میں گریہ زاری کرنے سے اس کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ جنگ میں فتح یابی کے جو طریقے ہیں اسے بھی اپنانے کی ضرورت ہے ۔ آج اگر ایران اور لبنان کی طرح دوسرے مسلم ممالک فلسطینی عوام پر جو ظلم وستم ڈھایا جا رہاہے اس کے خلاف صرف صف بند ہو جائیں، عالمی سیاست کی بساط کی تصویر بدل جائے گی۔ ایران کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی جاتی رہی ہیں اور شیعہ سنّی کے حوالے سے سیاست بھی ہوتی رہی ہے لیکن آج فلسطین جہاں صرف سنّی مسلمان اسرائیل کے نرغے میں ہیں تو ایران جہاں اکثریت شیعہ ہیں وہ فلسطین کے سنّی مسلمانوں کے ساتھ نہ صرف کھڑا ہے بلکہ مغربی طاقتوں کو چیلنج بھی کر رہاہے ۔ لبنان کے حزب اللہ نے بھی فلسطین کے عوام پر اسرائیل کے ذریعہ غیر انسانی جارحانہ رویہ اپنایا جا رہاہے کہ اب غزہ پر ہوائی حملوں میں راکٹ اور بموں کے ساتھ فاسفورس کی بھی بارش کی جا رہی ہے مگر عالمی برادری صرف اور صرف حماس کے کارناموں کو غیر انسانی قرار دے رہی ہے ۔ واضح ہو کہ فاسفور س جیسے کیمیائی پائوڈر کی وجہ سے غزہ جہاں بیس لاکھ سے زیادہ کی آبادی ہے وہ نہ صرف تنفس جیسی مہلک بیماری کے شکار ہوں گے بلکہ امراضِ جلد کے بھی شکار ہوں گے ۔ بالخصوص معصوم بچوں کیلئے سانس لینا بھی مشکل ہو جائے گااور وہ جاں بحق بھی ہو سکتے ہیں۔جہاں تک اپنے وطنِ عزیز ہندوستان کی خارجہ پالیسی کا سوال ہے تو ہندوستان روزِ اول سے ہی فلسطین کے ساتھ رہاہے لیکن حالیہ برسوں میں ہماری خارجہ پالیسی میں جو تبدیلی آئی ہے اس کے اثرات دکھائی دینے لگے ہیں اور حالیہ حماس حملے کے بعد ہندوستان کا جو موقف رہاہے وہ باعثِ فکر مندی ہے ۔ اگرچہ ہمارے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں توازن رکھا ہے کہ انہوں نے حماس کے حملے کو دہشت گردی قرار دیاہے تو اسرائیل کے انتقامی اقدام کی بھی مذمت کی ہے مگر سچائی ہے کہ اس وقت ملک میں جس طرح شدت پسند تنظیموں کا نظریہ مسلمانوں کے تئیں عام ہے کہ وہ اپنے ملکی مسلمانوں کے خلاف جس طرح ذہنی تعصبات وتحفظات رکھتے ہیں ٹھیک اسی طرح غیر ملکی مسلمانوں کے تئیں بھی شدت پسند نظریہ کا مظاہرہ کرتے رہے ہیںاس لئے وہ صرف اور صرف مسلم دشمنی میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔n

palestine Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK