Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیلی فوجیوں کا ہاریٹز کو انٹرویو: غزہ نسل کشی کے بعد نفسیاتی طور پر پریشان ہیں

Updated: July 04, 2025, 10:12 PM IST | Tel Aviv

اسرائیلی اپوزیشن پارٹیاں، وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ کو طول دینے کا الزام لگاتی ہیں تاکہ وہ سیاسی طاقت برقرار رکھ سکیں اور اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی شراکت داروں کو خوش کر سکیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

پانچ اسرائیلی فوجیوں نے حال ہی میں مقامی اخبار `ہاریٹز` کے ساتھ ایک انٹرویو میں دل دہلا دینے والے انکشافات کئے ہیں جس میں غزہ پٹی میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی کے دوران فوجیوں کو لاحق شدید نفسیاتی دباؤ اور گہرے خوف کو بیان کیا گیا ہے۔ ان کی گواہیاں سرکاری فوجی بیانیے سے بالکل مختلف ہیں۔ ہاریٹز نے نوٹ کیا کہ زیادہ تر فوجیوں نے اپنی کہانیاں بتانے سے انکار کر دیا، لیکن پانچ فوجی، جنہوں نے اپنی کہانیاں سنائیں، نے کہا کہ "آپ نے ہمیں جنگ میں بھیجا؛ اب ہماری بات سنیں।" ان فوجیوں نے اپنی تھکن، شدید جسمانی اور نفسیاتی دباؤ اور اس مستقل خوف کا اظہار کیا کہ وہ اگلی بار مرنے والوں کی فہرست میں شامل ہوں گے۔"

یہ بھی پڑھئے: جی ایچ ایف کے امدادی مراکز پر بھوکےلاچار فلسطینیوں پرگولہ بارود، دستی بم اورپیپراسپرےاستعمال کیاگیا

اور کی کہانی: بچوں کی لاشیں اور بو

۲۰ سالہ اُور، جو ایک پیراٹروپر ریکونیسنس فوجی ہے، نے خان یونس میں ایک گھر کے ملبے کے قریب کا منظر بیان کیا جو اسرائیلی فضائی حملوں کا نشانہ بنا تھا۔ اس نے بتایا کہ ملبے میں ہمیں پانچ، چھ لاشیں ملیں۔ وہاں ہر طرف مکھیاں بھںبھا رہی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ کتوں نے ان کے گوشت کو نوچا تھا۔ مشکل سے کچھ بچا تھا۔ اس نے مزید کہا کہ ان میں دو چھوٹے بچے تھے، اور میں نے ان کی ہڈیاں دیکھی تھیں۔ وہ منظر نہایت خوفناک تھا، ناقابل فراموش، جو مجھے ابھی بھی راتوں کو سونے نہیں دیتا۔ اور نے مزید کہا کہ مجھے وہ بُو بھی یاد ہے۔ اس نے میرے جسم پر قبضہ کر لیا تھا اور میرے کپڑوں سے چمٹ گئی تھی۔ اس رات مسلسل ڈیوڈورنٹ چھڑکنے کے بعد بھی وہ مجھے نہیں چھوڑ رہی تھی۔ اور کے مطابق، کئی دن بعد اسے غیر معینہ مدت تک غزہ کی سرحد پر تعینات کیا گیا تھا۔ وہاں ایک ہفتہ تک اس نے مسلسل بمباری کی آوازیں سنیں اور ناقابلِ بیان حد تک گرمی برداشت کی۔ یہ عرصہ ایک خوفناک خواب کی طرح تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: اسرائیلی حیوانیت سے غزہ پھر لہو لہو،۱۱۸؍فلسطینی شہید، متعدد زخمی

یوناتن کی کہانی: کتے، دھماکے اور خون کا ذائقہ

کیفیر بریگیڈ کے ۲۱ سالہ فوجی یوناتن نے گزشتہ نومبر میں شمالی غزہ کے جبالیہ کیمپ میں اپنے تجربے کو بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ دن کے وقت، گرمی ناقابل برداشت تھی۔ رات کو، ہم (سردی سے) جم جاتے تھے۔ ریت اور دھول میری جلد سے مسلسل چپکی رہتی تھی۔ ہم نے مشکل سے کچھ انسانوں کو دیکھا، ورنہ ہر جگہ کتے گھوم رہے تھے۔ ہماری کمپنی کمانڈر نے ہمیں خبردار کیا تھا کہ جو بھی ان کو پالتو بنائے گا اسے کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہ جیل میں ختم ہو جائے گا۔ لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں تھی۔ جب کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا، تو میں ان کیلئے ساسیج کے ٹکڑے چراتا تھا۔ یوناتن نے ڈپٹی کمانڈر کو کتوں پر گولی چلاتے ہوئے یاد کیا، انہیں "دہشت گرد کتے، شاید باؤلے،" کہہ کر اصرار کیا کہ انہیں ان کے قریب نہ آنا سیکھنا چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے: ’’ غزہ کے امدادی مراکز موت کا جال بن گئے ہیں‘‘

ایک گھر صاف کرنے کے دوران پیش آیا تکلیف دہ حادثہ یوناتن کو آج تک یاد ہے جو اسے اب بھی تک پریشان کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ اگلی صبح، ہمیں ایک اور گھر صاف کرنے کے مشن پر بھیجا گیا۔ ہم نے ڈرون سے عمارت کو اسکین کیا اور کچھ نہیں دیکھا، لہذا ہم اندر گئے۔ دو منٹ بعد، ایک دھماکہ ہوا۔ دھماکے نے مجھے ہوا میں اچھال دیا اور میں سمجھ نہیں پایا کہ کیا ہوا تھا۔ اچانک، مجھے احساس ہوا کہ میرا منہ خون سے بھرا ہوا ہے۔ میں نے سوچا کہ میں زخمی ہو گیا ہوں، لیکن ایسا نہیں تھا؛ یہ میری یونٹ پر میرے بہترین دوست کا خون تھا۔ وہ میرا نام پکارتا رہا، مجھ سے مدد کی بھیک مانگتا رہا، لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کرنا ہے۔ میں گویا سکت ہوگیا تھا۔ میڈیکس نے اس کے ساتھی کو نکالا، لیکن یوناتن کئی دنوں تک بے خوابی اور بھوک کی کمی سے نبرد آزما رہا، اس نے کہا کہ ہر چیز کا ذائقہ خون جیسا تھا۔

یہ بھی پڑھئے: اسرائیل: غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا یہی صحیح وقت ہے: بین گوئیر کی زہر افشانی

اوری کی کہانی جس کا جنگ سے یقین اٹھ چکا ہے

یاحلوم کی انجینئرنگ یونٹ کے ۲۲ سالہ فوجی اوری نے کہا کہ اس کا جنگ سے یقین اٹھ چکا ہے۔ اس نے بتایا کہ کسی وقت، میں نے جو کچھ ہم کر رہے ہیں، اس پر یقین کرنا چھوڑ دیا۔ پہلے سال کے دوران، میں ہر مشن کیلئے پوری طرح وقف تھا۔ مجھے یقین تھا کہ ہم کسی تاریخی چیز کا حصہ ہیں، کہ ہم اسرائیلی شہریوں کی حفاظت کر رہے ہیں، اور ہم یرغمالیوں کو بچانے میں مدد کر رہے ہیں۔ لیکن دھیرے دھیرے، مجھے شک ہونے لگا۔ جب آپ ایک اور فضائی حملے کی وجہ سے مزید ایک یرغمالی کے مارے جانے کی خبر سنتے ہیں، جب آپ مزید ایک دوست کے جنازے میں شرکت کرتے ہیں، تو یہ سب ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

اس نے کہا کہ وہ اب مزید مشن انجام نہیں دے سکتا، اپنے شناسا علاقوں میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا، سرنگوں کا معائنہ نہیں کر سکتا یا ممکنہ طور پر پھنسی ہوئے عمارتوں میں داخل نہیں ہو سکتا۔ آدھا دماغ رکھنے والا کوئی شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ یہ جنگ سیاسی وجوہات کی بنا پر جاری ہے۔ اسے جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ ہم کچھ حاصل نہیں کر رہے ہیں؛ ہم بار بار صرف اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: فرانسسکا البانیز نے اسرائیل کو جدید تاریخ کی ظالمانہ نسل کشی کا مرتکب قرار دیا

واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ فوجی کارروائیاں ۷ اکتوبر ۲۰۲۳ سے جاری ہے جسے تقریباً ۲۰ سے زائد ماہ کا عرصہ مکمل ہوچکا ہے۔ اسرائیلی اپوزیشن پارٹیاں، وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو پر غزہ میں جنگ کو طول دینے کا الزام لگاتی ہیں تاکہ وہ سیاسی طاقت برقرار رکھ سکیں اور اپنے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی شراکت داروں کو خوش کر سکیں۔

نیتن یاہو سے مخاطب ہوتے ہوئے، اوری نے کہا کہ آپ کب سمجھیں گے کہ اسے ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے؟ کب ۹۰۰ ہلاک ہوں گے؟ ایک ہزار؟ براہ کرم، اب بس کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK