Inquilab Logo

کیا چین نیا عالمی پاور بن گیا ہے

Updated: March 21, 2023, 11:59 PM IST | Pervez Hafeez | Mumbai

کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، عراق، ترکی اور مصرجیسے تمام مسلم ممالک نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوئے مفاہمتی معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی فرمانروا کنگ سلمان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت بھیجی ہے۔

The recent reconciliation agreement between Saudi Arabia and Iran completely shocked the whole world and especially the United States.
سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوئے حالیہ مفاہمتی معاہدہ نے ساری دنیا کو اور خصوصاً امریکہ کو مکمل طور پر متحیر کردیا۔

سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہوئے حالیہ مفاہمتی معاہدہ نے ساری دنیا کو اور خصوصاً امریکہ کو مکمل طور پر متحیر کردیا۔ مشرق وسطیٰ کے دو اہم ترین مسلم ممالک کے درمیان سیاسی، سفارتی، معاشرتی اور مسلکی اختلافات اتنے دیرینہ اور اتنے گہرے تھے کہ دس مارچ کو بیجنگ میں اس معاہدے کا اعلان کسی معجزہ سے کم نہیں تھا۔ دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں نے اس معاہدے پر دستخط کئے اور یہ اعلان کیا کہ وہ دو ماہ کے اندر اپنے اپنے سفارت خانے دوبارہ کھول دیں گے۔ انہوں نے ایک دوسرے کی خودمختاری کا احترام کرنے اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کا بھی عہد کیا۔یہ معاہدہ بلاشبہ چین کی بہت بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
  کویت، متحدہ عرب امارات، قطر، عمان، عراق، ترکی اور مصرجیسے تمام مسلم ممالک نے اس معاہدے کا خیر مقدم کیا ہے۔ سعودی فرمانروا کنگ سلمان نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو اپنے ملک کے دورے کی دعوت بھیجی ہے۔ سعودی عرب کاایران میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا منصوبہ ہے جس سے ایران کی معاشی بدحالی دور ہوگی۔ایران کے تعاون سے یمن میں جاری جنگ کے ختم ہونے کا امکان بھی روشن ہوگیا ہے۔ 
 دس مارچ کو بیجنگ میں دراصل ایک دھماکہ ہوا جس کی بازگشت ہزاروں کلو میٹر دور واشنگٹن میں عرصے تک سنائی دے گی۔ پچھلے ساٹھ برسوں سے مشرق وسطیٰ کی جغرافیائی سیاست پر امریکہ کا تسلط رہا ہے۔بیجنگ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں اس امریکی بالادستی پر ایک ضرب کاری ہے۔ یہ معاہدہ مشرق وسطیٰ میں چین کے تیزی سے بڑھتے سیاسی، سفارتی، اقتصادی اور تزویراتی اثر و رسوخ کا اعلان ہے۔ جس دن اس معاہدہ کا اعلان ہوا اسی دن چین کی کمیونسٹ پارٹی نے شی جن پنگ کی تیسری صدارتی مدت کی توثیق کا بھی اعلان کیا۔جن پنگ کی سربراہی میں حالیہ برسوں میں بین الاقوامی امور میں چین کی دلچسپی میں کافی اضافہ ہوا ہے۔ ملک اور پارٹی پر اپنی گرفت مزید مستحکم کرنے کے بعد اب جن پنگ جوش و خروش سے عالمی امور میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے غلبے کو چیلنج کر رہے ہیں اور اپنے اس عالمی مشن کے آغاز کے لئے انہوں نے مشرق وسطیٰ کا انتخاب کیا ہے۔
 پچھلے دس برسوں سے سعودی عرب اور ایران،شام، یمن اور لبنان جیسے کئی محاذوں پر پراکسی جنگ لڑ تے رہے ہیں۔جن پنگ کی پر خلوص مصالحتی کوششوں کی وجہ سے بیجنگ میں محض چار دنوں کے مذاکرات کے بعد ہی تعطل ختم ہوگیا اور چینی لیڈروانگ ای کی نگرانی میں سعودی اور ایرانی نمائندوں نے معاہدے پر دستخط کردئے۔
  اس معاہدے کی راہ ہموار کرنے کی خاطرجن پنگ نے دسمبر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھااور پچھلے ماہ انہوں نے بیجنگ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی میزبانی بھی کی۔ ان کوششوں کا مثبت نتیجہ برآمد ہوا۔ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی مسئلے سے نپٹنے میں امریکہ نے ایمانداری، خلوص اور نیک نیتی کا کبھی بھی مظاہرہ نہیں کیا۔ میں صرف ایک مثال پیش کرنا چاہوں گا۔ ۱۹۹۳ء میں وہائٹ ہاؤس میں بل کلنٹن کی موجودگی میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا جسے اوسلو امن معاہدہ کہا جاتا ہے۔ تیس سال بعد بھی اسرائیل نے نہ تو مقبوضہ فلسطینی علاقوں کو خالی کیا اور نہ ہی علاحدہ فلسطینی ریاست کی تشکیل کا اپنا کمٹمنٹ پورا کیا۔ تیس سال بعد بھی ہر روز مغربی کنارے کی دھرتی بے گناہ فلسطینیوں کے لہو سے لال ہورہی ہے۔ تیس سال بعد بھی فلسطین میں امن نہیں ہوا حالانکہ اسرائیلی وزیر اعظم رابن اور فلسطینی لیڈر یاسر عرفات کو نوبل پرائز برائے امن کے تمغے ضرور مل گئے۔
  امریکہ کے برعکس چین کسی بھی تنازعے میں دونوں فریقین کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتا ہے۔نہ وہ کسی کی طرفداری کرتا ہے اور نہ ہی کسی پر دباؤڈالتا ہے۔ ایران۔سعودی معاہدے کے ذریعہ بیجنگ نے اقوام عالم کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ ایک ایسا عالمی پاور ہے جو امریکہ کی طرح داداگیری میں یقین نہیں رکھتا ہے۔ اس کا رویہ اور طرز ثالثی امریکہ سے بالکل جدا ہے۔ جغرافیائی سیاست میں چین امریکہ کے برعکس بہتر متبادل پیش کررہاہے۔امریکہ کی طرح چین دوسرے ممالک پر جمہوریت،انسانی حقوق اور شہری آزادی کے ڈنڈے نہیں لہراتا ہے۔چین کی سفارت کاری میں نہ نظریاتی بندشیں ہیں اور نہ ہی اقتصادی پابندیوں کی دھونس اور نہ ہی فوجی کارروائی کی دھمکی۔امریکہ کے برعکس چین خاموش سفارت کاری میں یقین رکھتا ہے۔ اگر ایران۔سعودی معاہدہ امریکہ کی مصالحتی کوششوں کے ذریعہ ہوا ہوتا تو صدر بائیڈن وہائٹ ہاؤس میں بینڈ باجہ بجاکر اس کا اعلان کرتے۔بیجنگ میں جن پنگ نے اس معاہدہ کا اعلان خود کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ تنازعات کے حل کیلئے کی جانے والی امریکہ اور چین کی سفارتی کوششوں میں سب سے اہم فرق یہ ہے کہ چین مکمل طور پر غیرجانبداری اور دیانت داری سے اپنا کردار ادا کرتا ہے۔مشرق وسطیٰ میں اپنی سفارتی کامیابی سے حوصلہ پاکر چین نے روس۔یوکرین جنگ ختم کروانے کیلئے اپنی کوششیں تیز کردی ہیں۔ پیر کی شام جب میں یہ کالم لکھ رہا ہوں شی جن پنگ پوتن سے مذاکرات کیلئے ماسکو پہنچ گئے ہیں۔توقع کی جارہی ہے کہ وہ یوکرین کے صدر زیلنسکی سے بھی فون پر بات کریں گے اور دونوں کو جنگ بندی کیلئےضامند کریں گے۔ پوتن کی حمایت کی وجہ سے چین کو امریکہ اور مغربی ممالک مسلسل تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ شی جن پنگ کے ماسکو دورے کا نتیجہ کچھ نہ بھی نکلے پھر بھی وہ اقوام عالم کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے کہ چین ایسی عالمی طاقت ہے جو اپنی عالمی ذمہ داریاں اٹھانے کیلئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اوراگر وہ سیز فائر کیلئے پوتن اور زیلنسکی کو راضی کرانے میں کامیاب ہوگئے تو سار ی دنیا چین کی خارجہ پالیسی کا لوہا ماننے پر مجبور ہوجائے گی۔ 
 پس نوشت: سعودی عرب اور ایران کے معاہدے سے اسرائیل میں صف ماتم بچھ گئی ہے کیونکہ اس نے بنجامن نیتن یاہوکے تمام مذموم منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ نیتن یاہو خطے میں ایران کو سفارتی طور پر بالکل الگ تھلگ کردینے کے پلان پر کام کررہے تھے۔ان کی یہ بھی کوشش تھی کہ تہران پر ممکنہ اسرائیلی چڑھائی میں انہیں سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی حمایت حاصل ہوگی۔ ان کا یہ ارمان بھی پورا نہ ہوسکا کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد اب سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرلے گا۔n 

china Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK