ملک کے حالات اس حد تک خراب ہوچکے ہیں کہ اگر ملک کی تمام فرقہ پرست تنظیموں کے سربراہ اکٹھے ہو کر سماجی ہم آہنگی اور امن و خوشحالی کی خواہش کااظہار کریں تو بھی اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا، ان حالات میں آپ کچھ تقریروں اور عوامی بیانات سے جنگل کی اس آگ کو نہیں بجھا سکتے، اس کیلئے بہت محنت، ایمانداری اور سچے دل سے کام کرنے کی ضرورت ہے
ملک میں ہندو شدت پسندی اس قدر غالب آتی جارہی ہےکہ اسے تیار کرنےوالے بھی اس پر قابو نہیں پاسکتے۔ تصویر:آئی این این
جب آپ نے ایک اسکول ٹیچر کےکہنےکی وجہ سے ایک طالب علم پراسی کی جماعت کے دوسرے طلبہ کے ذریعہ تھپڑ مارنے کا ویڈیو دیکھا (یا اس کے بارے میں پڑھا) تو آپ کا پہلا رد عمل کیا تھا؟ اورجب آپ نے آڈیو سنا اور محسوس کیا کہ وہ واقعی فرقہ وارانہ زبان استعمال کر رہی تھی اوربچوں کو نفرت انگیز جرائم کیلئے اُکسا رہی تھی، تو آپ کے ذہن میں کیا آیا تھا؟کیا اس نے کسی طرح سے آپ کو اس ریلوے پولیس کانسٹیبل کی یاد دلائی جو ٹرین میں گھوم گھوم کر مسلم مسافروں کو گولی مار رہا تھا اور اس مخصوص کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز اوراشتعال انگیز تبصرے کر رہا تھا؟
اور کیا آپ نےاس کے بعداخبارات میں یہ خبر دیکھی کہ دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں چار طلبہ شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے استاد نے ان کے خلاف فرقہ وارانہ تبصرے کئے ہیں ۔ شکایات کے مطابق استاد نے کہا کہ تم لوگ تقسیم کے وقت پاکستان کیوں نہیں گئے؟ تم لوگ یہاں ہندوستان میں کیوں رکے رہے؟ ملک کی جدوجہد آزادی میں تم لوگوں کا کوئی کردار نہیں ہے۔‘‘ اس طرح کی اور بھی کچھ باتیں تھیں ۔
میں اندازہ لگا رہا ہوں کہ ان تمام واقعات پر آپ کا پہلا ردعمل بھی وہی رہا ہوگا جو میرا تھا یعنی صدمہ، غصہ، برہمی، عدم اعتماد، اداسی اور خوف کہ ہم کس قسم کا ملک بن رہے ہیں ۔ میں جانتا ہوں کہ آپ بھی اتنے ہی خوفزدہ رہے ہوں گے جتنا کہ میں تھا جب سوشل میڈیا پر منظم فوجوں نے واقعات کی وضاحت کیلئے جھوٹ اور من گھڑت پوسٹ کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ نفرت انگیز استاد نے کوئی فرقہ وارانہ بات نہیں کہی تھی بلکہ ویڈیو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ بعض نے تو اسے مظلوم بھی قرار دیا۔ بالکل اسی طرح جیسے مسلمانوں کو قتل کرنے والے ریلوے پولیس افسر کے تعلق سے کہا گیا کہ وہمسلم مخالف نہیں تھا۔ سوشل میڈیا پر نظر آنے والے اس کے حامیوں نے کہا کہ وہ صرف’پریشان‘ تھا۔ کنٹرول روم کو اس جھوٹ کی تردید اُس وقت کرنی پڑی جب شوٹر کے اعلیٰ افسران نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے واقعی نفرت انگیز جرم کا ارتکاب کیا تھا جس کیلئے اس پر الزام عائد کیا گیا تھا۔
لیکن ایک بار جب میں اپنے غصے اور مایوسی سے باہر آیا اورحالات کو دیکھنا شروع کیا تو دو چیزوں نے مجھے کافی پریشان کردیا۔نفرت کے بارے میں سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ آپ اسے کنٹرول کر سکتے ہیں ۔ سیاست دان (تمام جماعتوں اور تمام مذاہب کے) یہ سمجھنے کی غلطی کرتے ہیں کہ نفرت پانی کی طرح ہے۔ آپ اس میں سے جتنا چاہیں ڈال سکتے ہیں لیکن جب آپ چاہیں تو اس نل کو بند کر سکتے ہیں ۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ نفرت پانی کے برعکس ہے۔ یہ آگ کی طرح ہے۔ایک بار جب آپ آگ لگادیتے ہیں تو اس پر قابو پانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ آگ آپ کو جلا سکتی ہے کیونکہ اسے روکنا یا اس کے پھیلاؤ کا انتظام کرنا تقریباً ناممکن ہے۔موجودہ سیاسی نظام کی مخالفت کرنے والوں کا خیال ہے کہ ہم اپنے اردگرد جو نفرت کا ماحول دیکھتے ہیں ،اس کے احکام اوپر سے آتے ہیں اور یہ سب کچھ سیاسی حساب کتاب کا نتیجہ ہے۔
مجھے نہیں لگتا کہ یہ سچ ہے۔ ہر مسلم مخالف فرد آر ایس ایس کا حامی نہیں ہے جو ناگپور کے حکم پر عمل کر رہا ہو۔ آگ کی طرح ،نفرت ایک دوسرے کی جان لے رہی ہے۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ اگلی آگ کہاں پر لگے گی ؟ کہاں تک پھیلے گی اوراس کی زد میں کون کون آئیں گے؟ بھلے ہی وزیر اعظم اور ان کے سینئر وزراء ایسا کچھ کہنے سے احتیاط کررہے ہوں جسے فرقہ وارانہ قرار دیا جا سکے لیکن نفرت اب اس سطح پر پہنچ چکی ہے جہاں ان کے کہنے اور نہ کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں تک کہ ان کے خاندان کے باقی اراکین آر ایس ایس، بجرنگ دل اور دیگر تمام لوگ بہت پہلے سے نفرت کی آگ پر اپنا قابو کھو چکے ہیں ۔ کسی نے اسکول کےان ٹیچروں کو مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا حکم نہیں دیا تھا، نہ ہی کسی نے ریلوے پولیس اہلکار کو مسلمانوں کو مارنے کیلئے کہا تھا۔آج کے ہندوستان میں جس قسم کی نفرت ہم دیکھتے ہیں ، وہ قابو سے باہر ہے۔ اسے کسی ٹریگر اور چنگاری کی ضرورت نہیں ہے۔ اور نفرت سے لڑنا بھی بہت مشکل ہے کیونکہ ایک بار اس طرح کا جب کوئی معاملہ منظر عام پر آتا ہے تو سوشل میڈیا پراس کے دفاع کیلئے ایک فوج اتر جاتی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ نفرت کی یہ بیماری پہلے کے ہندوستان میں نہیں تھی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ نفرت اور خونریزی سے بھری ہوئی ہے... لیکن پہلے ایسا ہوتا تھا کہ اس طرح کی کسی واردات کے بعد زیادہ تر معاملات میں لیڈروں (سیاسی جماعتوں میں ) اور میڈیا کے ذریعہ زخموں پر مرہم رکھنے اور سماجی ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی.... لیکن گزشتہ ڈیڑھ دہائی کے دوران اس کوشش کو ترک کر دیا گیا ہے۔ زخم پھر سے ہرے ہو گئےہیں اور ان سے خون پھر بہنے لگا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اعلیٰ لیڈران خود کو کتنے ہی ذمہ دار کیوں نہ ثابت کریں لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے بنیاد پرستوں ، گوڈسےحامیوں اور نفرت پھیلانے والوں کو روکنے کیلئے کچھ نہیں کیا۔سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ٹیلی ویژن میڈیا اپنی تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ فرقہ وارانہ اور نفرت سے بھرا ہوا ہے۔ جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، جس میں سیاسی جماعتوں کے کنٹرول والے حصے بھی ہیں ، آج کی تاریخ میں یہ ہمارے ملک کا سب سے بڑا کوڑے دان بن کر رہ گیا ہے۔
میں نہیں جانتا کہ یہ سب کچھ ہمیں کہاں لے جائے گا، لیکن ایک بات کا مجھے یقین ہے کہ اگر ملک کی تمام فرقہ پرست تنظیموں کے سربراہ اکٹھے ہو کر سماجی ہم آہنگی اور امن کی خواہش کریں تو بھی اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ آپ کچھ تقریروں اور عوامی بیانات سے جنگل کی اس آگ کو نہیں بجھا سکتے۔
نفرت کی اس وبا کے بارے میں سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کے بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ جیسا کہ اسکول میں مسلم بچوں پر زبانی (اور جسمانی) حملوں کے مذکورہ دونوں واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے اسکولوں میں فرقہ وارانہ نفرت کا زہر پھیل چکا ہے۔میرا خیال ہے کہ آپ کو اس غریب مسلم لڑکے کے تئیں ہمدردی محسوس نہ کرنے کیلئے پتھر کے دل کی ضرورت ہوگی جسے اس کے اساتذہ کی نگرانی میں اس کے ہم جماعتوں نے بار بار تھپڑ مارے تھے۔ لیکن بہت سے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان بھر کے اسکولوں میں ان کے بچوں کے ساتھ اسی طرح کی بدسلوکی کی جاتی ہے اوراسی طرح امتیازی سلوک کیا جاتا ہے، بھلے ہی یہ معاملہ اس حد تک نہ پہنچتا ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ شرمناک، پریشان کن اور افسوسناک ہے۔ لیکن ہمارے خدشات کو ہمدردی اور جذبات سے بالاتر ہونا چا ہئے۔ بڑا سوال یہ ہے کہ مستقبل میں ہندوستان پر اس طرح کے واقعات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟کیا ہم ایسے طلبہ کی ایک ایسی نسل کو پروان چڑھا رہے ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ واقعی یہاں مسلمانوں کو نہیں رہنا چاہئے؟ کہ وہ پاکستان چلے جائیں ؟ کہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنا ٹھیک ہے؟ اور یہ کہ وہ اتنے ہندوستانی نہیں ہیں جتنے کہ ہندو؟ہمیں یہ اندازہ لگانے کی ضرورت نہیں کہ اس کا کتنا اثر ہو گا۔ ہم نے یہ پاکستان میں دیکھا ہے جہاں نسلیں کسی ہندو کو جانے بغیر پروان چڑھیں اور تمام ہندوؤں کو وہ کچھ اسی طرح سمجھتی ہیں کہ وہ پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ۔ پاکستانیوں کا ہندوؤں کو بغیر سوچے سمجھے دشمن سمجھنا درست ہو سکتا ہے کیونکہ پاکستان میں نسبتاً کم ہندو ہیں جن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا سکتا ہے لیکن ہمیں یہ بات نہیں فراموش کرنی چاہئے کہ اسی رویے نے پوری دنیا میں پاکستان کو مشکوک بنا دیا ہے۔کیا ہم بھی اس قسم کا مستقبل چاہتےہیں ۔ یہ شاید ہی وہ ہندوستان ہو جس کا ہم خواب دیکھتے ہیں ۔