Inquilab Logo

ہاتھرس سانحہ :بی جے پی کا نقاب اُتر گیا

Updated: October 18, 2020, 9:29 AM IST | Mubasshir Akbar

دلت متاثرہ کے ساتھ ہونے والی واردات نے نہ صرف پورے ملک کو دہلادیا بلکہ اس معاملے کو رفع دفع کرنےاور متاثرہ کے اہل خانہ کی آواز دبانے کی کوششوں نےیہ واضح کردیا کہ حکمراں محاذ کو ہر قیمت پر صرف اپنا مفاد عزیز ہے

Hathras Case - Pic : PTI
ہاتھرس معاملہ ، احتجاج جاری ہے ۔ تصویر : پی ٹی آئی

’ہاتھرس کی نربھیا ‘یا اسے جس کسی نام سے بھی یاد کیا جائے،کی موت اور اس پر ہونے والی سیاست نےگزشتہ ۶؍ سال میں پہلی مرتبہ اپوزیشن کو اتنا طاقتور بنادیا ہے کہ اس کے سامنے مودی حکومت اور یوپی کی یوگی حکومت دونوں اپنے آپ کو بے بس محسوس کررہے ہیں۔ اس ایک واقعہ  نے بی جے پی کے چہرے سے مفاد پرستی کا نقاب بھی کھینچ کر پھینک دیا ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ دسمبر۲۰۱۲ءیعنی ۸؍ سال قبل دہلی میں ہونے والے نربھیا اجتماعی عصمت دری کے خلاف پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا تھا اور اس میں بی جے پی پیش پیش تھی لیکن  موجودہ نربھیا سانحہ کو ہر طرح سے دبانے اور اپوزیشن کی آواز کو اٹھنے سے روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ۲۰۱۲ء میںدہلی سمیت ملک کے ہر بڑے شہر میں نربھیا سانحہ کے خلاف آواز بلند ہوئی تھی ، لوگ سڑکوں پر اتر آئے تھے، کینڈل مارچ نکالے گئے تھے، پورا ملک نربھیا کے گھر والوں کے ساتھ کھڑا ہوگیا تھا، آج کی حکمراں جماعت بی جے پی کے لوگ تو نربھیا کو انصاف دلانے کے نام پر باقاعدہ ایک مہم چلائے ہوئے تھے۔ بالآخر انصاف ہوا اور مارچ۲۰۲۰ءمیں اس جرم کے مرتکبین اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ 
 اب ذرا دہلی کے اس واقعے کو ذہن میں رکھتے ہوئے  ہاتھرس سانحہ پر نظر دوڑائی جائے تو حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جس طرح ۲۰۱۲ء میں ایک مہم چلاکر اس وقت کی حکومت کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی اور پھر اسے ۲۰۱۴ء میں بے دخل کرکے ہی دم لیا گیا ،  اس مرتبہ ویسا نہ ہو اس کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ پہلے اس واقعہ کو دبانے اور میڈیا کو اس کی بھنک تک نہ لگے ایسی کوشش کی گئی پھر جب معاملہ میڈیا میں آنے لگا توپولیس کے ذریعےیہ کہلوادیا گیا کہ متاثرہ کی عصمت دری ہی نہیں ہوئی ۔ جب اس سے بھی بات نہیں بنی  اورمتاثرہ کے دوبارہ پوسٹ مارٹم کا مطالبہ ہونے لگا تو راتوں رات پولیس کو بھیج کرمتاثرہ کا زبردستی انتم سنسکار کردیا گیا۔ اس دوران یہ بات یوگی جی بھی بھول گئے اور ان کی پولیس بھی کہ والمیکی سماج میں اگر کسی غیر شادی شدہ  لڑکی کا انتقال ہو تا ہے تو اسے عام طور پر دفنایا جاتا ہے لیکن پولیس نے اسے سپرد آتش کردیا۔اس پر جب ہنگامہ بڑھ گیا اور  اپوزیشن لیڈران متاثرہ کے گھر والوں سے ملنے کے لئے پہنچنے لگے توپھر انہیں کسی نہ کسی بہانے سے روکا جانے لگا۔یہاں تک کہ اپوزیشن کے سب سے بڑے لیڈر راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے ساتھ دھکا مکی تک کی گئی ۔ ٹی ایم سی لیڈر ڈیریک اوبرائن کے ساتھ بھی یہی طریقہ اپنایا گیا لیکن جب احتجاج بڑھنے لگا اور یوپی کی ناتجربہ کار یوگی حکومت کو یہ محسوس ہوا کہ اب معاملہ ہاتھ سے نکل جائے گا توچار و ناچار اپوزیشن لیڈران کو متاثرہ کے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت دی گئی ۔ ایسا اس لئے کیا گیا تاکہ حکومت کے خلاف احتجاج کو مزید ہوا نہ ملے اور یہ معاملہ ۲۰۱۲ء کی طرح حکومت مخالفت احتجاج میں نہ تبدیل ہو جائے۔
 اترپردیش کی یوگی حکومت نے ابتداء میں اس جرم کے مرتکبین کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ پولیس نے اس کی ایف آئی آر لکھنے میں چار پانچ دنوں تک ٹال مٹول کی مگر جب معاملہ سنگین رخ اختیار کرگیا تو بادل نخواستہ ایف آئی آر درج کرنی پڑی لیکن اس ایف آئی آر کے باوجود یوگی حکومت اور پولیس کا تعاون ٹھاکر برادری کے ساتھ ہی رہا جو بی جے پی کے روایتی ووٹرس ہیں۔اگر ایسا نہ ہوتا تو کیا بول گڑھی کے اطراف کے درجن بھرگاؤں والے اپنی پنچایت کے ذریعے اعلانیہ طور پر ملزمین کی حمایت کا اعلان کرسکتے تھے؟  لیکن جب جب اس معاملے کو دوسرا رخ دینے اور ملزمین کو بچانے کی کوششیں ہوئیں تب تب کوئی نہ کوئی ایسی بات سامنے آگئی کہ یوگی حکومت کو وہی کرنا پڑا جو انصاف کا تقاضہ ہے۔ واضح رہے کہ یوپی کی کل آبادی  پورے بر اعظم یورپ کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ ہے ۔ ملک کی پارلیمنٹ میں بھی یہاں سے ۸۰؍ اراکین منتخب ہوتے ہیں جو پورے ملک میں سب سے زیادہ  ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے اہم صوبہ کے وزیر اعلیٰ کی سیاسی اہمیت ملک کے وزیر اعظم کے بعد سب سے زیادہ ہوتی ہے لیکن اسی اتر پردیش کا یہ عالم ہے کہ وہاں قانون و انتظام کے نام پر جنگل راج جاری ہے۔ آبروریزی کی خبریں، پولیس کے انکاؤنٹر،  تیزی سے بڑھتی کووڈ سے ہونے والی اموات اور اس پر  پولیس کی بالادستی جیسی منفی خبریں آئے دن  آتی رہتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ ہر مورچے پر بری طرح ناکام ہیں۔ وہ اب محض ناکام ہی نہیں بلکہ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے پراتر آئے ہیں۔ ذرا غور کریں کہ ہاتھرس میں ہونے والی آبرو ریزی کو یوپی پولیس غیر ملکی سازش بتا نے کی کوشش بھی کرچکی ہے۔ اس کے لئے پبلک ریلیشن ایجنسی کا سہارا بھی لیا گیا لیکن جب اس کی بھی پول کھلنے لگی اور حقیقت سامنے آنے لگی تو اس سے پلہ جھاڑ لیا گیا ۔ اب عالم یہ ہے کہ  ہاتھرس معاملے کو میڈیا کی نظروں سے  دور کرنے  اور اپوزیشن کے ہاتھوں سے چھیننے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ اس میں دہشت گردی کا اینگل بھی جوڑا گیا ہے لیکن ناحق بہایا گیا خون بہر حال انصاف مانگے گا ۔ وہ قاتلوں کی آستین سے ٹپکے گا اور خود گواہی دے گا ۔ 
 یہ حقیقت ہے کہ موجودہ وقت میں ملک کی سیاست میں حکمراں پارٹی بی جے پی نے جو اتھل پتھل مچائی ہے، اب اس کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے۔ اپوزیشن کے رویہ سے تو یہی معلوم ہو رہا ہے کہ اس نے حکمراں پارٹی کی غلط پالیسیوں کے خلاف کمر کس لی ہے۔ پارلیمنٹ میں کسان بل پر احتجاج اور حکومت مخالفت اراکین کی معطلی کے بعد اپوزیشن پہلے سے زیادہ بر ہم اور متحد نظر آیا  جس کی وجہ سے پہلی بار ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت کی نیند حرام ہوگئی ہے۔ اپوزیشن نے شاندار حکمت عملی کے تحت جس طرح اپنے مطالبات  پورے ہونےتک  راجیہ سبھا کا بائیکاٹ کیا اس نے حکومت کے آگے کی راہ مشکل بنا دی ہے۔  ہاتھرس میں حیوانیت کی شکار ہوئی بچی کے لواحقین کے ساتھ یوپی انتظامیہ کے سلوک سے برہم راہل گاندھی نے متاثرین کو انصاف دلانے کا عہد کیا ہے اور اس دوران پولیس کے دھکے بھی برداشت کر کے یوپی انتظامیہ کی کارکردگی کو عالمی ایشو بنا کر پسماندہ عوام کے جسم میں ایک نئی جان پھونک دی ہے۔ یہ انصاف کی لڑائی اس وقت تک جاری رکھنے کی ضرورت ہے جب تک یوپی کی یوگی حکومت ذات برادری سے اوپر اٹھ کر جرائم کے خلاف سخت رخ نہیں اپنا لیتی ہے۔ 
 موجودہ حالات میں یہی کہا جائے گا کہ اگر اپوزیشن پارٹیوں نے مودی حکومت کی اب تک کی غلط پالیسیوں کا جم کر مقابلہ کیا ہوتا تو شاید یہ حکومت اپنا رویہ بہتر بناتی مگر اپوزیشن  اب تک اپنی ناکامیوں کا غم ہی منارہا تھا۔ اپوزیشن کے اتحاد اورمودی حکومت کی تنزلی کا آغاز ہاتھرس سانحہ سے ہو گیا ہے۔ اس  ایک واردات نے نہ صرف بی جے پی کے چہرے سے خواتین کے تحفظ کا نقاب نوچ لیا ہےبلکہ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی  اس کے خلاف صف آرا کردیا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK