• Mon, 22 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

حجاب اور آزادیٔ مذہب: ایک فکری و آئینی جائزہ

Updated: December 22, 2025, 3:50 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

شریعت ِ اسلامیہ میں احکام کی دو بنیادی قسمیں پائی جاتی ہیں: کچھ اعمال اختیاری ہوتے ہیں اور کچھ لازمی۔ اختیاری اعمال وہ ہیں جنہیں انجام دینے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب ملتا ہے لیکن اگر کوئی شخص انہیں چھوڑ دے تو اس پر گناہ یا سزا نہیں ہوتی، جیسے نوافل نماز، صدقۂ نفلی یا دیگر مستحب اعمال۔

Observance of the veil and hijab is also a constitutional. Picture: INN
پردہ، حجاب کی پاسداری آئینی حق بھی ہے۔ تصویر: آئی این این
شریعت ِ اسلامیہ میں احکام کی دو بنیادی قسمیں پائی جاتی ہیں: کچھ اعمال اختیاری ہوتے ہیں اور کچھ لازمی۔ اختیاری اعمال وہ ہیں جنہیں انجام دینے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر و ثواب ملتا ہے لیکن اگر کوئی شخص انہیں چھوڑ دے تو اس پر گناہ یا سزا نہیں ہوتی، جیسے نوافل نماز، صدقۂ نفلی یا دیگر مستحب اعمال۔ اس کے برعکس کچھ احکام ایسے ہیں جن کا ادا کرنا ہر مکلف پر لازم اور ضروری ہوتا ہے، انہیں فرائض کہا جاتا ہے، جیسے پانچ وقت کی فرض نماز۔ فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کرنا یا انہیں جان بوجھ کر چھوڑ دینا سخت گناہ ہے۔ اس طرح شریعت ہمیں یہ سمجھاتی ہے کہ کہاں رغبت اور شوق سے آگے بڑھنا ہے اور کہاں پابندی اور ذمہ داری کے ساتھ عمل کرنا لازم ہے۔
اسی پس منظر میں جب عورتوں کے حجاب کے مسئلے پر غور کیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ حجاب کوئی اختیاری عمل نہیں بلکہ شریعت کا لازمی حکم ہےجو قرآن و حدیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالی ہے: ’’اور مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو خود ظاہر ہو جائے، اور اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں۔‘‘ (سورۃ النور:۳۱)
 ایک اور مقام پر ارشاد ہے: ’’اے نبی! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں۔‘‘ (سورۃ الاحزاب:۵۹) تاکہ ان کی پہچان ہو اور انہیں اذیت نہ دی جائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس حکم کی وضاحت فرمائی، جیسا کہ حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصار کی عورتوں نے فوراً اپنے کپڑوں سے پردہ کر لیا۔ (بخاری) ان قرآنی آیات اور صحیح احادیث کی روشنی میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ عورتوں کا حجاب کرنا محض ایک پسند یا سماجی روایت نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے، جس کی پابندی ہر مسلمان عورت پر لازم ہے۔
اس پوری تمہید کی روشنی میں منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب کوئی مسلم عورت پردہ اختیار کرتی ہے تو وہ محض اپنی ذاتی پسند، وقتی رجحان یا سماجی دباؤ کے تحت ایسا نہیں کرتی بلکہ شریعت ِ اسلامیہ کے ایک واضح اور لازمی حکم کی تعمیل کر رہی ہوتی ہے۔ چونکہ شریعت میں بعض اعمال فرض اور واجب ہیں اور ان کا تعلق بندے کے ایمان، اطاعت اور جواب دہی سے ہے، اس لئے حجاب کو اختیار کرنا دراصل اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔ یہی اطاعت انسان کو تقویٰ کی راہ پر گامزن کرتی ہے، کیونکہ تقویٰ کا مفہوم ہی یہ ہے کہ انسان اللہ کے احکام کو اپنی خواہشات پر مقدم رکھے۔ اس طرح مسلم عورت کا پردہ ا س کی آزادیِ فکر یا شخصیت کی نفی نہیں بلکہ شعوری دینی انتخاب ہے۔
اس کا مطلب  یہ ہے کہ جو لوگ بار بار مسلم عورتوں کے حجاب پر سوال اٹھاتے ہیں یا اسے محض سماجی جبر اور ذاتی پسند کا مسئلہ سمجھ کر ہٹانے کی بات کرتے ہیں، ان کے افکار کو ازسرِنو غور و فکر کی ضرورت ہے۔ جب کسی عمل کی بنیاد فرد کی خواہش کے بجائے ایک متعالی (بلند) اخلاقی  اور  الٰہی حکم پر قائم ہو تو اسے محدودیت یا جبر کے پیمانے سے ناپنا فکری سطحیت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حجاب دراصل اس تصورِ آزادی کو چیلنج کرتا ہے جو انسان کو خواہشات کا اسیر بنا دیتا ہےاور اس کے مقابلے میں ایک ایسی آزادی پیش کرتا ہے جو ضمیر، مقصد اور ذمہ داری سے جڑی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس مسئلے کو جذبات یا تعصب کے بجائے فکری دیانت اور  انصاف کے ساتھ دیکھنے سے یہ حقیقت آشکارا ہو جاتی ہے کہ مسلم عورت کا حجاب اس کی شخصیت کو مٹاتا نہیں بلکہ اسے ایک بامقصد، باوقار اور اخلاقی وجود میں ڈھالتا ہے۔
یہ سوال بجا طور پر غور طلب ہے کہ آخر کس عقلی، سائنسی یا تجرباتی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ حجاب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟ 
حقیقت یہ ہے کہ انسانی ترقی کا تعلق لباس سے نہیں بلکہ صلاحیت، محنت، علم اور عزم سے ہوتا ہے۔ حجاب نہ عقل کو محدود یا پست کرتا ہے، نہ صلاحیتوں کو سلب کرتا ہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کا روشن ثبوت خود وہ خاتون ہیں جن کے حوالے سے یہ پورا موضوع زیرِ بحث آیا ہے  (جن کے حجاب کو بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے سرٹیفکیٹ دیتے وقت کھینچ دیا)  کہ وہ ایک تعلیم یافتہ اور سند یافتہ ڈاکٹر ہیں، جو معاشرہ کی خدمت جیسے باوقار اور ذمہ دارانہ شعبے سے وابستہ ہیں۔ 
وزیر ِ اعلیٰ بہار کا یہ عمل محض اسلامی نقطۂ نظر سے ہی غلط نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور آئینی سطح پر بھی نہایت ناپسندیدہ اور قابلِ گرفت ہے۔ اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ کسی بھی عورت کے ذاتی لباس اور مذہبی شناخت کا احترام کیا جائے، خصوصاً جب وہ لباس اس کے ایمان، وقار اور شعوری انتخاب سے جڑا ہو۔ کسی عورت کے حجاب کو ہٹانا طاقت کے ناجائز استعمال اور اخلاقی بے حسی کی علامت ہے۔ دستورِ ہند ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی ظاہری علامات اختیار کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ اس آزادی میں مداخلت کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ 
یہ معاملہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ریاستی ذمہ داری، آئینی وفاداری اور اخلاقی دیانت کا کڑا امتحان ہے، جس میں اس عمل کو کسی بھی زاویے سے درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔مسلمانوں کو وقتاً فوقتاً جو اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کا ایک مؤثر اور دیرپا حل یہ ہے کہ برادرانِ وطن کے ساتھ بات چیت اور مکالمے کا سلسلہ مستقل اور سنجیدہ بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ محض ردِعمل یا جذباتی احتجاج کے بجائے دعوتی حکمت، دلیل، تحمل اور حسنِ اخلاق کے ساتھ اپنے موقف کو واضح کرنا زیادہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ جب مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعے سمجھایا جاتا ہے تو غلط فہمیاں کم ہوتی ہیں، تعصبات ٹوٹتے ہیں اور اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پیچیدہ معاملات سلجھتے ہیں بلکہ ملک کا ایک بڑا طبقہ شرحِ صدر کے ساتھ مسلمانوں کے موقف کو سمجھنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کیلئے آمادہ ہوتا ہے، جو بالآخر قومی یکجہتی، سماجی ہم آہنگی اور باہمی احترام کو مضبوط کرتا ہے۔ افہام و تفہیم بہت ضروری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK