Inquilab Logo

حجاب تنازع: طالبات کی پسند پر چھوڑ دیاجائے

Updated: November 03, 2022, 9:09 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

اڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج کی طالبات نے کہا کہ تعلیم حاصل کرنا ہرشہری کا بنیادی حق ہے، اس لئےطالبات حجاب سے دستبردار ہوںگی نہ تعلیم سے۔

Hijab Controversy
حجاب تنازع

 عدلیہ کا ایک طبقہ جو حکومت کی جی حضوری اور اجتماعی ضمیر کے نام پر اکثریت نوازی میں لگا ہوا ہے، اس کی طرف سے بعض ایسے فیصلے بھی آئے جو انصاف کے زندہ ہونے کا احساس جگاتے ہیں۔  یہ فیصلے تعداد میں بھلے کم  ہوں، ان کی اہمیت وافادیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا چنانچہ میڈیا کے یکطرفہ اور غیر ذمہ دارانہ رویے پر سپریم کورٹ کی  برہمی ، سماج کو ہندو مسلم خانوں میںبانٹنےکیلئے ہندوتوا وادیوں کی نفرتی تقاریر کا لامتناہی سلسلہ اور پولیس اور حکومت کی خاموشی  پر  عدالت کے کڑے تیور، پولیس اور سرکاری افسران کو ان تقاریر کا از خود نوٹس لینے کی ہدایت، بصورت دیگر توہین ِ عدالت کے تحت کارروائی کی دھمکی، یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ پر سماعت سے انکار،  نقصان کے اندیشے سے گیان واپی مسجد کے حوض کے فّوارے کے پتھر کی کاربن ڈیٹنگ سے انکار  ایسے فیصلے ہیں جنہیں خوش آئند کہا جاسکتا ہے لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ یہ تنازعات ختم ہوجائیں گے ، خام خیالی ہوگی۔ مسلمانوں کو پریشاں اور ہراساں کرنے کے لئے ہندوتواوادی وقفے وقفے سے ان ایشوز کو اٹھاتے رہیں گے کیونکہ مرکز اور بی جے پی ریاستیں اس طرح کے عدالتی فیصلوں کو خاطر میں نہیں لاتی ہیں۔ نفری تقاریر کوہی لیجئے ، سپریم کورٹ نے متعدد بار حکومت سے اس سنگین مسئلے پر جواب طلب کیا اور واضح گائیڈ لائن جاری کرنےکی ہدایت دی، کیا ہوا؟ ستمبر او ر اکتوبرکےمہینے میں عدالت کی تین مختلف بنچوں نے نفرتی تقاریرمیں اضافے اور سماج پر پڑنے والے برے اثرات پر تشویش کا اظہار کیا، مرکز کو نوٹس بھیجا  اور جواب مانگا جو ہنوز ندارد ہے۔  تازہ مثال بی جے پی کے بدنام زمانہ ایم پی پرویش ورما کی ہے جس نے ایک مجمع میں مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لئے نہ صرف ان کے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کیا بلکہ حاضرین سے اس کا عہد بھی لیا۔حیرت اس پر ہے کہ پولیس نے جلسے کے منتظمین کے خلاف ایف آئی آر درج کی لیکن ورما کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ لوگوں نے یہ بھی دیکھا  کہ پارٹی میں عزت اور مرتبہ اسی لیڈرکو ملتا ہے جو مسلمانوںکے خلاف زہر اگلنے میں زیادہ طاق واقع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بم دھماکے کی ایک ملزمہ کو ایم پی بنادیاجاتا ہے تو ’گولی مارو‘ کا نعرہ دینے والے وزیر مملکت کو ترقی دے کر وزیر بنادیاجاتا ہے۔ اعظم خان کو نفرتی تقریر کے معاملے میں سزا سنائی جاتی ہے ، ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی جاتی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوںپر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ہے۔
 کرناٹک میں یونیفارم اور حجاب کے تنازع میں بھی یہی دیکھنے کوملا۔ ۵؍ فروری کو ریاستی حکومت کے حکم پر یونیفارم کے ساتھ  حجاب پہننے پر جو پابندی لگائی گئی۔ اس پابندی سے   دومہینے پہلے اڈپی ضلع کے ایک سرکاری پری یونیورسٹی کالج نے  با حجاب طالبات کو کلاس میں داخل ہونے سے روک دیا۔ طالبات نے وجہ جاننی چاہی تو جواب ملا کہ حجاب یونیفارم کا حصہ نہیں۔ اس پر طالبات نے کہا کہ وہ گزشتہ تین سال سے حجاب کے ساتھ کالج آرہی ہیں، اس وقت کسی نے اعتراض نہیں کیا  پھر اچانک کیا ہوا کہ وہ انتظامیہ کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا؟ کوئی جواب نہ ملنے پر طالبات نے واضح کیا کہ حجاب ان کے مذہب  اور تہذیب وثقافت کا حصہ ہے۔ آئین  ہر شہری کو آزایٔ ضمیرکے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کرنےکا اختیاردیتا ہے اور تعلیم حاصل کرنا ہرشہری کا بنیادی حق ہے،  اس لئے وہ حجاب سے دستبردار ہوںگی نہ تعلیم سے۔ معاملہ اس وقت اور بگڑا جب ہندوتوا بریگیڈ کے طلباء نے حجاب کے جواب میں زعفرانی شال پہن کر کالج میں داخل ہونے کی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنادیا۔ بہرحال ہرگزرتے دن کے ساتھ معاملہ بگڑتا چلا گیا اور دوسرے ضلعوں میں پھیل گیا۔ فروری میں کرناٹک حکومت کے حکم سے جب مصالحت کے سارے راستے بند ہوگئے تو متاثرہ طالبات نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بدقسمتی سے وہاںبھی ناکامی ہاتھ آئی۔جبکہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے عدالت کو اپنے فیصلے کو نئے تعلیمی سال تک مؤخر کرنا اور عبوری حکم کے ذریعے طالبات کو کلاس اور امتحان میں بیٹھنے کا پروانہ عطاکرنا چاہئے تھا۔ اس سے بچیوں کا تعلیمی سال ضائع نہ ہوتا جو اس تنازع کا سب سے افسوسناک پہلو ہے۔
 ہائی کورٹ سے مایوسی کے بعد طالبات نے اُس کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ ۱۳؍ اکتوبر کو عدالت کی دونفری بنچ نے جو فیصلہ سنایا وہ الگ الگ نوعیت کا تھا۔ جسٹس ہیمنت گپتا کا فیصلہ کرناٹک حکومت اورہائی کورٹ کے احکامات کی حمایت میں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم خواتین کیلئے حجاب اسلام کا لازمی حصہ ہویا نہ ہو، مذہبی اعتقادات اور شناخت کی اجازت سرکاری فنڈ سے چلنے والے سیکولر اسکولوں میں نہیں دی جاسکتی ، نہ ہی  حجاب پر لگائی گئی پابندی سے آئین میں دی گئی اظہار کی آزادی کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ یہ باتیں کہنے اور سننے میں اچھی لگتی ہیں ورنہ سچ یہ ہے کہ اقلیتیں عملاً اکثریت کے رحم وکرم پر ہوتی ہے اور اکثریت کے  خوشنودی اور خواہشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہی ملک کے معاملات چلائے جاتے ہیں۔ اس منافقت سے کسی بھی پارٹی کا دامن پاک نہیں۔ البتہ مودی دَور میں جس طرح آئین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، جس طرح بنیادی حقوق پر ضرب لگائی جارہی ہے، اس کی نظیر نہیں ملتی ہے۔ نفرتی تقریر کے معاملے میں اعظم خان کو سزا دی جاتی ہے ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کردی جاتی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرنے والوں پر کوئی کارروائی نہیں ہوتی ۔
  جسٹس سدھانشودھولیا کا فیصلہ جسٹس گپتا کے فیصلے کے بالکل الٹ نظر آتا ہے۔ انہوںنے جواب کی حمایت کرتے ہوئے اسے شخصی آزادی اورذاتی پسند سے تعبیر کیا اور آئین  اور سیکولرزم کے عین مطابق بتایا۔ انہوںنے حجاب کو حق تعلیم سے جوڑتے ہوئےبڑا چبھتا سوال کیا کہ کیا حجاب پرپابندی کے ذریعے  مسلم طالبات کو تعلیم سے محروم رکھ کر ہم ان کی زندگی کو بہتر بنارہے ہیں؟ معاملہ ، اب سپریم کورٹ کی بڑی بنچ کے پاس جائے گا، وہاں کیا فیصلہ ہوگا ۔ ایک بات کا ذکر ضروری ہے۔ حجاب مخالف تبصرہ نگاروں نے ایران میں حجاب کے خلاف ہونے والے مظاہروںکا ذکر کرکے حیرت کا اظہار کیا کہ مودی کے نیوانڈیا میں مسلمانوں کاایک طبقہ آج بھی کلاس روم میں حجاب پہننے کے حق کا دفاع کرتا ہے۔ یہ موازنہ غیرضروری ہے۔ مسئلہ ذاتی پسند اور ناپسند کا ہے۔ ایرانی خواتین حجاب کے معاملے میں زور زبردستی کے خلاف ہیں جبکہ ہندوستانی خواتین حجاب پہننے کو ترجح دیتی ہیں۔ اس لئے بہتر ہوگا کہ حجاب کا معاملہ طالبات کی صوابدید اور پسند پر چھوڑ دیاجائے اور تعلیم کے آڑے نہ آنے دیاجائے۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK