Inquilab Logo

دہلی: باحجاب خاتون کو کیفے میں داخل ہونے سے روکا گیا، ایم ڈی نے معافی مانگی

Updated: April 16, 2024, 6:07 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

گزشتہ دنوں اوکھلا (دہلی) کے ماربیا نامی ریستوراں میں ایک باحجاب خاتون کو داخل ہونے سے روکا گیا۔ اس کی شکایت پر کیفے کے ایم ڈی نے معذرت طلب کرلی۔ واضح رہے کہ حالیہ دور میں ہندوستان میں تعلیمی اداروں کے علاوہ عوامی مقامات پر بھی حجاب ایک متنا زع موضوع بن کر ابھر رہا ہے، اور با حجاب طالبات اور خواتین تعصب کا شکار ہو رہی ہیں۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

حال ہی میں، نئی دہلی کے اوکھلا میں رہائش پذیرنشرح(۲۶؍سال)کو نیو فرینڈز کالونی میں ماربیا نامی کیفے کےاحاطے میں داخل ہونے سے روکا گیا کیونکہ انہوں نے حجاب پہن رکھا تھا۔ نشرح نے ایک بیان میں کہا کہ ’’ شام ۴؍بجے کے قریب، میں اور میرے دو دوست ماربیا گئے تھے، جس وقت ہم اندر داخل ہوئے، وہاں موجود ریسپشنسٹ نے پوچھا کہ کیا ہم نے ریزرویشن کروایا ہے؟ جب ہم نے ’’نہیں ‘‘ میں جواب دیا تو اس نے مجھے اندر جانے سے یہ کہتے ہوئے منع کردیا کہ تم نے حجاب پہنا ہوا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: سڈنی چرچ حملہ: ۱۵؍ سالہ لڑکا حراست میں، پولیس نے واردات کو دہشت گردی قرار دیا

نشرح نے مزید کہا کہ اس کے بعد اس بات پربحث ہو گئی کہ آیا یہ قاعدہ موجود ہے اور ایک نمائندے سے بات کی جس نے پہلے تو اس قاعدہ کی تصدیق کی لیکن اس کی مزید وضاحت نہیں کر سکی۔ نشرح نے مزید کہا کہ جہاں تک وہ جانتی ہیں کیفے کی ایسی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہےکہ دیگر تمام مذہبی علامات کو عوامی مقامات پر آسانی سے قبول کیا جاتا ہے لیکن ایک حجاب والی خاتون کو قبول نہیں کیا جاتا۔ 
کیفے کے منیجنگ ڈائریکٹر نے ماربیا کے انسٹاگرام پیج پر عوامی معافی نامہ جاری کیا اور بتایا کہ زیادہ تر عملہ عید کی وجہ سے چھٹی پر تھا جبکہ ریسٹورنٹ کے دو ملازمین جنہوں نے بدتمیزی کی وہ غیر تربیت یافتہ ہیں اور انہوں نے نادانستہ طور پر یہ حرکت کی ہے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے گی، ڈائریکٹر نے کہا کہ ’’اب آپ کو وہ یہاں نظر نہیں آئیں گے۔ ‘‘ دی آبزرور پوسٹ نے کیفے کے منیجنگ ڈائریکٹر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ قائم نہیں ہو سکا۔ 

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: بس اور ٹرک کے تصادم میں ۱۴؍ افراد ہلاک

حجاب تنازع
گزشتہ دوبرسوں سے تعلیمی اداروں کے احاطے میں حجاب پہنناایک سیاسی موضوع بنا ہوا ہے۔ یہ لہر ۲۰۲۱ءمیں کرناٹک سے شروع ہوئی اور ۲۰۲۴ء میں راجستھان تک پہنچ گئی۔ ملک میں کئی ایسے واقعات درج ہوئے ہیں جہاں باحجاب خواتین کو امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ 
۲۰۲۱ءکے آخر میں کرناٹک میں اس وقت تنازع کھڑا ہوا جب اُڈیپی کے ایک کالج میں ۶؍ مسلم طالبات کو حجاب پہننے کی وجہ سے کلاس میں جانے سے روک دیا گیا۔ اس واقعہ کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوا اور فروری ۲۰۲۲ءمیں اس وقت کی بی جے پی حکومت نے اسکول یونیفارم کی پابندی پر زور دینے والی ہدایات جاری کیں۔ جب معاملہ عدالت پہنچا تو کرناٹک ہائی کورٹ نے مارچ ۲۰۲۲ءمیں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے فیصلہ دیا کہ حجاب پہننا بنیادی مذہبی عمل نہیں ہے اور اسکول یونیفارم طلبہ میں مساوات اور اتحاد کو فروغ دیتا ہے۔ 
اسی طرح جنوری ۲۰۲۴ءمیں راجستھان میں ایک اسکول کے پروگرام میں حجاب پہننے والی مسلم طالبات کے بارے میں مقامی رکن اسمبلی کا تبصرہ احتجاج کا باعث بنا۔ ریاست کے وزیر تعلیم نے تمام سرکاری اسکولوں میں یکسانیت کو فروغ دینے کیلئے ڈریس کوڈکے نفاذکی وکالت کی جس نے مذہبی آزادی کے بارے میں مزید بحث کو ہوا دی۔ تعلیمی اداروں کے علاوہ باحجاب خواتین کے خلاف عوامی مقامات پر بھی نفرت کا اظہار شروع ہو گیا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK