اپنی جائے پیدائش سے ان کا اٹوٹ رشتہ رہا ۔ وہ بار بار ہندوستان آتے رہے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن وآشتی کے سفیر تصور کئے جاتے تھے۔ وہ جتنے پاکستان میں مقبول تھے اتنے ہی ہندوستان میں ہر دلعزیز تھے
EPAPER
Updated: December 10, 2019, 6:04 PM IST | ڈاکٹر مشتاق اØÙ…د | Mumbai
اپنی جائے پیدائش سے ان کا اٹوٹ رشتہ رہا ۔ وہ بار بار ہندوستان آتے رہے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن وآشتی کے سفیر تصور کئے جاتے تھے۔ وہ جتنے پاکستان میں مقبول تھے اتنے ہی ہندوستان میں ہر دلعزیز تھے
حمایت علی شاعر (۱۴؍ جولائی ۱۹۲۶ء۔۱۶؍ جولائی ۲۰۱۹ء) غیر منقسم ہندوستان کے پروردہ تھے لیکن قیامِ پاکستان کے بعد انہو ںنے ۱۹۵۰ء میں ہجرت اختیار کی اور پاکستان کو وطن زیست تسلیم کرلیا ۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ تقسیم ِ وطن کے بعد پاکستانی ادب میںدو طرح کے فکری مباحث وجود میں آئے ۔ اول ترقی پسند مصنفین کا گروپ تھا جنہوں نے اپنے فکری چراغ کو روشن رکھنے کی کوشش کی اور ادب کو زندگی کا آئینہ قرار دیتے ہوئے عظمت ِ آدم کا احترام اور انسان دوستی کے لئے جد وجہد کرتے رہنے کا عہد لیا۔ ظاہر ہے کہ ترقی پسند تحریک کا منشور بھی یہی تھا۔
دوسرا گروپ وہ تھا جو اب پاکستان کے قیام کے بعد پاکستانی ادب کی ایک الگ شناخت مستحکم کرنا چاہتا تھا۔ اس میں محمد حسن عسکری، ڈاکٹر محمد دین تاثیر اور ممتاز شیریں نے ’’قومی ادب ‘‘کے لئے فضا بندی کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں حلقوں کے درمیان فکری رسہ کشی بھی جاری رہی اور ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی بھی ۔ بالخصوص محمد حسن عسکری نے ’’ادب میں جمود‘‘ کا نعرہ دے کر بحرِ ادب میں تلاطم پیدا کردیا۔ پھر ترقی پسند اور غیر ترقی پسند کی صف بندی شروع ہوئی۔ اس کے اثرات کیا ہوئے، اس سے ہم سب واقف ہیں ۔ اس کی تفصیل میں جانا ممکن نہیں کہ اس وقت میرا مقصد حمایت علی شاعر کے فکر وفن پر روشنی ڈالنا ہے ۔
حمایت علی شاعر کی پیدائش غیر منقسم ہندوستان کے شہر اورنگ آباد میں ۱۶؍ جولائی ۱۹۲۶ء کو ہوئی تھی ۔ ان کا خاندانی نام حمایت تراب تھا۔ ان کے خاندان کے بیشتر افراد ہندوستانی افواج میں ملازم تھے لیکن انہو ںنے الگ راستہ اختیار کیا۔ بچپن ہی سے شعرو سخن کی طرف مائل رہے۔ ہندوستان سے ہجرت کے بعد ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے۔ پھر فلمی دنیا میںقدم رکھا ۔بحیثیت ہدایت کار ، مکالمہ نگاراور نغمہ نگار شہرت حاصل کی ۔ پیشہ ٔدرس وتدریس سے بھی وابستہ رہے اور سندھ یونیورسٹی میں اُردو کے استاذ کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ صحافت سے بھی وابستگی رہی۔ غرض کہ حمایت علی شاعر ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک مگر بنیادی طورپر شاعر تھے اگر چہ ان کی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے ہوا تھا۔ انہو ںنے ڈرامے لکھے اور ادبی دنیا میں اس کی بدولت اپنی ایک مستحکم شناخت قائم کی۔ ریڈیو پاکستان کے ذریعہ عوام الناس میں اپنی دانشورانہ فکر و نظر کی روشنی لٹاتے رہے ۔ تحقیق وتنقید کی دُنیا میں بھی اپنی ایک الگ پہچان بنائی ۔ ’’پاکستان میں اردو ڈرامہ‘‘ جیسا معیاری تحقیقی مقالہ لکھ کر علمی وادبی حلقے کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ غرض کہ جس شعبے میں قدم رکھا اپنی انفرادیت قائم رکھی ۔
پاکستان ہجرت کرنے کے بعد مہاجروں کے ساتھ جو مسائل درپیش رہے ، حمایت علی شاعر اُن سے بھی ہمکنار ہوتے رہے لہٰذا ان کی شاعری میں ’’کربِ ہجرت‘‘ او ر’’دردِ زیست‘‘دونوں کی عکاسی موجود ہے ۔ اگرچہ وہ اجتماعی شعور کے شاعر تھے کہ ان کے فکر ونظر کی دنیا انفرادی تشخص تک محدود نہیں ہے۔ ان کی نثری و شعری دونوں تخلیقات عصری صورتحال کی آئینہ دار ہیں۔ ان کی شاعری میں ٹوٹتے بکھرتے خواب، معاشرتی انحطاط، جذبات کی ناآسودگی، اخلاقی قدروں کی پامالی کا غم، نسلی امتیازات کی فکر مندی اور علاقائی تعصبات و تحفظات کے خلاف ایک اجتماعی صد ا سنائی دیتی ہے۔ انہو ںنے اپنے ڈراموںمیںبھی اس فکری روش کو قائم رکھا اور دیگر نثری تخلیقات میں بھی ایک صالح انسانی معاشرے کی تشکیل کی آرزو کی۔ غرض یہ کہ ان کی فکر ونظر کا دریائے افتخار ہمیشہ رواں دواں رہا۔ ان کے یہاں کہیں جمود نظر نہیں آتا۔ ان کی شاعری نے پوری اُردو دنیا میں ان کو ایک منفرد شناخت عطا کی تو ان کی تنقید وتحقیق کو بھی علمی وادبی حلقے میں قبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی تحقیقی کتاب ’’پاکستان میں اردو ڈرامہ‘‘ اور ’’اردو نعتیہ شاعری کے سات سو سال‘‘ نے انہیں ایک معتبر ناقد کی صف میں کھڑا کیا ۔لیکن بد قسمتی ہے کہ ہماری عصری تنقید نے ان کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف تو کیا مگر تنقیدی شعور کو تسلیم کرنے سے دامن بچاتی رہی ۔
جہاں تک ان کی غزلیہ شاعری کا سوال ہے تو ان کے یہاں بھی عشق بنیادی جذبہ کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہاں اس حقیقت کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ ان کی غزل میں ’’جذبۂ عشق‘‘ غزل کے روایتی جذبۂ عشق سے قدرے مختلف ہے ۔ ان کے عشقیہ اشعار میں بھی انسانی نفسیات اور معاشرتی عدم مساوات کی آنچ موجود ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خوابِ مسلسل کے امکانات بھی روشن ہیں۔ وہ انفرادی مایوسیوں کو کہیں حاوی نہیں ہونے دیتے اور جذباتی کرب کو شعری پیکر میںڈھال کر اپنے منفرد اسلوب کی بدولت استعارہ وعلامت کی چاشنی سے لبریز کرکے اپنے اشعار کو انسانی کیفیات کا آئینہ بنا دیتے ہیں۔ ان کے نصف درجن مجموعہ ہائے کلام کے مطالعہ سے ان کے شعری نظامِ فن کو سمجھا جا سکتا ہے ۔ ان مجموعوں کے نام اس طرح ہیں: گھن گرج، آگ میں پھول، مٹی کا قرض، تشنگی کا سفر، ہارون کی آواز، حرف حرف روشنی اور کلیاتِ شاعر۔ اس کے علاوہ ان کی منظوم خود نوشت ’’آئینہ سرِ آئینہ‘‘ کو بھی پزیرائی حاصل ہوئی جس میں ۳۵؍ ہزار اشعار ہیں۔
ایک اہم بات یہ تھی کہ اپنی جائے پیدائش سے ان کا اٹوٹ رشتہ رہا ۔ وہ بار بار ہندوستان آتے رہے اور دونوں ملکوں کے درمیان امن وآشتی کے سفیر تصور کئے جاتے تھے۔ وہ جتنے پاکستان میں مقبول تھے اتنے ہی ہندوستان میں ہر دلعزیز تھے۔ اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ کنیڈا میں قیام پزیر تھے جہاں سے ان کے صاحبزادہ بلند اقبال ان کی شاعری اور فکر و نظر کے بیشمار ویڈیو پوسٹ کیا کرتے تھے جن سے ان کی موجودگی کا احساس ہوتا رہتا تھا لیکن ۱۶؍ جولائی ۲۰۱۹ء کو جب ان کے انتقال کی خبر آئی تو علمی و ادبی حلقے سوگوار ہوگئے۔
حمایت علی شاعر ایک عظیم المرتبت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محافظ انسانیت بھی تھے ۔ان کے اندر اپنے بڑے ہونے کا شائبہ تک نہیں تھا ۔ جن سے ملتے ٹوٹ کر ملتے۔ وہ ایک باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے اور جس قدر ذہین وفطین تھے اسی طرح حسّی طورپر بیدار اور طنز ومزاح کے پیکر بھی تھے۔جس محفل میں بیٹھتے اپنے مخصوص قہقہوں اور ادبی لطائف کے ذریعہ محفل زعفران زار بنا دیتے ۔ان کا تاریخی شعور بھی بہت گہرا تھا اگر کوئی بات کہتے تو تاریخ کا حوالہ بھی دیتے۔
یادش بخیر، میری ان سے پہلی ملاقات ۱۹۸۷ء کے آخر میں ہوئی تھی ۔ شاید وہ نومبر یا دسمبر کا مہینہ رہا ہوگا ۔ ڈاکٹر خلیق انجم مرحوم نے انجمن ترقی اردو ہند کے دفتر میں میرا ان سے تعارف کرایا تھا ۔ ان دنوںمیں آصف علی روڈ میں رہا کرتا تھا جو وہاں سے بہت ہی قریب ہے۔ میں اکثر انجمن ترقی اردو کے دفتر آتا جاتا رہتا تھااور وہاں نہ صرف خلیق انجم صاحب کی بذلہ سنجی اور حاضر جوابی سے لطف اندوز ہوتا تھا بلکہ علم وادب کی کئی بڑی شخصیتوں سے متعارف ہونے کا موقع بھی ملتا رہتا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حمایت علی شاعر صاحب جس دن انجمن کے دفتر میں آئے تھے اسی دن تھوڑی ہی دیر کے بعد پروفیسر جگن ناتھ آزاد بھی تشریف لائے تھے ۔ گھنٹوں ان دونوں عظیم شخصیتوں کے مکالموں سے استفادہ کرتا رہا۔اس کے بعد جو ایک ادبی رشتہ استوار ہوا وہ برقرار رہا۔ پاکستان میں جب کبھی کہیں میری ٹوٹی پھوٹی تحریریں شائع ہوتیں تو وہ اس کا تراشہ بھیجتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے۔جس وقت میں اپنا تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی ’’اقبالیات کی وضاحتی کتابیات‘‘ لکھ رہا تھا اس وقت پروفیسر رفیع الدین ہاشمی اور حمایت علی شاعر اقبالیات سے متعلق مواد کی فراہمی میں نہ صرف معاون رہے بلکہ رہنمائی بھی کی اور جب میرا تحقیقی مقالہ کتابی صورت میں شائع ہوا تو اپنی مسرت کا اظہار بھی کیا۔ ۲۰۰۰ء میں وہ پٹنہ بھی آئے تھے ۔انہیں خدا بخش لائبریری سے کوئی نادر نسخہ حاصل کرنا تھا ۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے توسط سے انہیں حاصل بھی ہوا ۔ ایک دن ظہرانے پر حمایت علی شاعر کے ساتھ یہ خاکسار بھی تھا ۔ پروفیسر وہاب اشرفی ایک بڑے ناقد ودانشور کے ساتھ مخلص مہمان نواز بھی تھے۔ جب کبھی ملک یا بیرونِ ملک سے کوئی بڑی شخصیت پٹنہ تشریف لاتی تو وہ ان کیلئے خاص اہتمام کرتے ۔ اکثر اس ناچیز کو بھی یاد کرتے اگرچہ میں پٹنہ سے دور رہنے کی وجہ سے کم ہی جا پاتا لیکن عاشور کاظمی اور حمایت علی شاعر کی آمد پر میں ان سے ملنے کے لئے گیا تھا ۔
قصہ مختصر یہ کہ حمایت علی شاعر ایک ہمہ جہت شاعر و ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مخلص اور ہمدرد انسان بھی تھے ۔ ان کے اندر میں نے کبھی یہ زعم نہیں دیکھا کہ وہ خود کو بڑے ادیب وشاعر سمجھتے ہوں۔بالخصوص نئی نسل کی حوصلہ افزائی ان کا شیوہ تھا ۔ دہلی اور پٹنہ کی ملاقاتوں میں میں نے یہ محسوس کیا کہ ان کے اندر ایک بڑا فنکار بھی ہے اور ایک بڑا انسان بھی ۔وہ مذہب ِ انسانیت کے ایک بڑے علمبردار تھے اسلئے ہندوپاک کی کشیدگی کا ذکر جب بھی آتا ان کے چہرے پر مایوسیاں جھلک جاتیں۔ وہ اکثر کہتے کہ اس سرحدوں کی تقسیم نے ہماری تہذیب وتمدن کے شیرازے بھی بکھیر دیئے۔وہ تمام عمر امن وآشتی کے پیامبر رہے۔ ہندو پاک کے رشتے خواہ کتنے ہی کشیدہ ہوئے لیکن حمایت علی شاعر نے اپنی شاعری کے ذریعہ دونوں ملکوں کے لوگوں کو جوڑنے کی بھرپور کوشش کی۔اس وقت ان کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
مدت کے بعد تم سے ملا ہوں تو یہ کھلا
یہ وقت اور فاصلہ دھوکا نظر کا تھا