دہلی کے سینٹر فار ہسٹری اینڈ ہیریٹیج کے ڈائریکٹر سید عبیدالرحمان نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف وقف اِن انڈیا‘ میں وقف کی تاریخ، وقف کے فقہی مسائل، ہندوستان میں وقف کی صورتحال اور اس تعلق سے ملک کے نئے اور متنازع قانون کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
EPAPER
Updated: August 10, 2025, 12:34 PM IST | Ghulam Arif | Mumbai
دہلی کے سینٹر فار ہسٹری اینڈ ہیریٹیج کے ڈائریکٹر سید عبیدالرحمان نے اپنی کتاب ’ہسٹری آف وقف اِن انڈیا‘ میں وقف کی تاریخ، وقف کے فقہی مسائل، ہندوستان میں وقف کی صورتحال اور اس تعلق سے ملک کے نئے اور متنازع قانون کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
وقف ترمیم قانون ۲۰۲۵ نے ملک کے مسلمانوں میں شدید بےچینی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ قانون اور فقہ کے پیچیدہ مسائل کے فہم کی ہر کس و ناکس سے امید رکھنا کم فہمی ہوگی، لیکن ہمالیائی اہمیت کے اس قومی مسئلے کے متعلق عوام تو کیا خواص میں بھی معلومات کی کمی بالکل عیاں ہے۔ ان حالات میں سید عبیدالرحمان کی کتاب ’ ہسڑی آف وقف اِن اِنڈیا‘ کی اشاعت ایک خوش آئند اور بروقت علمی کاوش کی شکل میں سامنے آئی ہے۔
سید عبیدالرحمان، دہلی کے سینٹر فار ہسٹری اینڈ ہیریٹیج کے ڈائریکٹر ہیں اور تاریخ کے طلبہ و محققین میں ایک معروف نام بن چکے ہیں۔ اُن کے آن لائن کورس میں دنیا بھر سے شائقینِ علم شریک ہوتے ہیں۔ چند سال قبل وہ تاریخ کو مسخ ہوتے دیکھ کر بڑے مضطرب ہوئے۔ انھوں نے ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو نئے سرے سے مدون کرنے کا بیڑہ اُٹھایا۔ چار سال میں اُن کی پانچ انگریزی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وقف پر ان کی کتاب بالکل تازہ ہے اور خوب پڑھی جا رہی ہے۔
وقف ایک ایسا اسلامی ادارہ ہے جس نے نہ صرف مذہبی بلکہ سماجی، تعلیمی، اور فلاحی میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ یہ اسلامی قانون کا ایک ایسا پہلو ہے جو دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمانوں کی عبادات اور سماجی بہبود کا ذریعہ رہا ہے۔ برصغیر میں وقف کا آغاز مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہوا اور وقت کے ساتھ اس نے ایک منظم اور مربوط شکل اختیار کی۔ ایک ہزار سال سے بھی قبل کیرالا میں اولین وقف کئے گئے۔ وقف بلا شبہ دنیا میں صدقے خیرات کی قدیم ترین منظم شکل ہے۔
ملک میں آج لاکھوں کی تعداد میں وقف جائدادیں موجود ہیں جو تقریباً ۳۸؍ لاکھ ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ شہری اور دیہی علاقوں میں ان کا تناسب تقریباً یکساں ہے۔ ان کی مالیت کھربوں روپوں میں ہے۔ کتنے اوقاف ایسے ہیں جن کو مُتولیوں نے فروخت کردیا یا جو غیر قانونی قبضوں میں ہیں۔ کتنے ایسے ہیں جن پر مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا قبضہ ہے۔ ہندوستان میں ہر ریاست میں وقف بورڈ قائم ہے جو اوقاف کی نگہداشت، دیکھ بھال اور ترقی کے ذمہ دار ہوتا ہے۔ سینٹرل وقف کونسل ایک مرکزی ادارہ ہے جو نگرانی کا کردار ادا کرتا ہے۔ ملک میں وقف کا انتظام۲۳؍ ریاستوں اور ۷؍ مرکزی علاقوں پر پھیلے ۳۲؍ وقف بورڈ دیکھتےہیں تاہم اکثر ان اداروں کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ بدعنوانی، سیاسی مداخلت اور عدالتی پیچیدگیاں مسائل کو مزید سنگین بناتی ہیں۔
پہلے باب میں وقف کے آغاز اور بعدِ ہجرت پہلی چار صدیوں میں وقف سےمتعلق فقہ کے ارتقاء پر بحث کی گئی ہے۔ ایشیاء اور افریقہ میں وقف کے معنی اور مختلف مسالک میں اس سے متعلق اصولوں کی وضاحت کی گئی ہے۔ وقف کیا ہے، کون وقف کر سکتا ہے اور وہ کس طرح وجود میں آتا ہے؟ اس باب میں اہم فقہی اصطلاحوں کا بیان ہے۔ فقہاء نے وقف کیلئے متعدد شرائط اور اصول متعین کیے جن میں نیتِ خیر، دوام اور ناقابلِ واپسی ہونا شامل ہے۔ لفظ وقف عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں کسی چیز کو روک دینا یا مخصوص کر دینا۔ سادہ الفاظ میں وقف کا مطلب ہے کسی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے مخصوص کر دینا تاکہ اس کے نفع سے مسلسل خیر حاصل ہوتا رہے۔ وقف کے متعلق ایک ہم اصول یہ ہے کہ جس جائداد کو وقف کیا گیا ہو اس پر سے انسانی ملکیت ہمیشہ کیلئے ختم ہو جاتی ہے۔
دوسرے باب میں برصغیر ہندوپاک میں وقف کی تاریخ درج ہے۔ برصغیر میں منظم طور پر وقف کا ادارہ دہلی سلطنت کے دور میں خوب فروغ پایا، خاص طور پر خلجی، تغلق اور لودھی ادوار میں۔ ایک کے بعد دیگر مسلم حکومتوں نے اوقاف کی سرپرستی کی۔ بعد میں مغلیہ سلطنت کے زیرِ سایہ وقف ایک مضبوط ادارے کے طور پر ابھرا۔ اکبر سے اورنگ زیب تک، مختلف ادوار میں اوقاف کے تحت مدارس، مساجد، درگاہوں، امام بارگاہوں، قبرستانوں، یتیم خانوں، عید گاہوں، کاروان سرایوں، یتیم خانوں اور دواخانوں کا انتظام کیا گیا۔ اشرافیہ و تاجر طبقے کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی بڑے پیمانے پر زمین جائداد کو وقف کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اکبر کے دور میں اس نے وقف کے عمدہ انتظام پر توجہ کی بلکہ اس کو کرپشن سے پاک رکھنے کی بھی خاص کوشش کی۔ کتاب، بنگال، بہمنی، مالوہ، گجرات، خاندیش اور دیگر حکومتوں میں بھی وقف کے احوال پیش کرتی ہے۔
تیسرا باب ’وقف علی الاولاد‘ یعنی مسلم خاندانی وقف کی وضاحت کرتا ہے۔ ہندوستان میں وقف علی الاولاد کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔ اس نوع کے اوقاف میں اگرچہ مستفیدین خاندان کے افراد ہوتے ہیں مگر بنیادی نیت ثوابِ جاریہ اور صدقۂ جاریہ کی ہوتی ہے۔ ان اوقاف کی وجہ سے کئی خاندان مالی استحکام حاصل کرتے رہے ہیں۔ اس میں کچھ حصہ فلاح عام کا بھی ہوتا ہے۔ انگریزی دور میں اس کو بڑی قانونی اڑچنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سختی کے جواب میں سر سید احمد خان نے کافی جدوجہد کی۔ برسوں بعد۱۹۱۳ء میں مسلم وقف ویلىڈیٹنگ ایکٹ نے وقفِ اولاد کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھا مگر استعمار کی پالیسیوں نے اوقاف کے ادارے کو بہت نقصان پہنچایا اور کئی اوقاف ذاتی یا حکومتی قبضے میں چلے گئے۔ ۱۹۲۳ء کے وقف ایکٹ میں وقف کا دائرہ وسیع کیا گیا۔ ۱۹۳۰ء اس میں مزید ترمیمات کی گئیں۔
چوتھے باب میں ہندوستان میں وقف انتظامیہ کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ دہلی سلطنت اور مغلیہ دور میں زیادہ وقف متولیوں کے ذریعے چلائے جاتے رہے۔ ان پر قاضیوں کی معمولی نگرانی بھی ہوا کرتی تھی۔ قاضی برٹش دور میں بھی اوقاف کا کام دیکھا کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ مسلم حکمرانوں کے دور میں وقف ایک باضابطہ سسٹم کی شکل میں منظم ہوا۔ البتہ برٹش دور میں اس کو کئی سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ سیکولر قوانین کا اکثر ٹکراؤ ہوجاتا تھا۔ آزادی کے بعد ہندوستان میں وقف کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ وقف کے انتظام کو۱۹۵۴ء کے ایکٹ کے ذریعے مرکزیت حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۵ء میں وقف ایکٹ کو مزید مؤثر بنایا گیا اور ۲۰۱۳ء میں اس میں اہم ترمیمات کی گئیں، جن کا مقصد وقف جائیدادوں کے تحفظ، استعمال اور شفافیت کو یقینی بنانا تھا۔
آخری باب میں مصنف نے متنازع وقف ترمیم قانون ۲۰۲۵ء پر بحث کی ہے۔ اس قانون کے اصل مقاصد پر بہت سارے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ کمیونٹی اس کو مذہبی آزادی اور حقوق کی راست پامالی سمجھتی ہے۔ جمہوری طریقوں پر عمل کرتے ہوئے ملک بھر میں احتجاج بھی ہوا ہے۔ اس دفعہ مسلم لیڈرشپ اس حد تک کامیاب ضرور ہوئی کہ حزبِ اختلاف کی تقریباً ہر پارٹی سے متعلق ممبرانِ پارلیمنٹ، وقف بل کے خلاف واضح الفاظ میں بولے۔ اعداد کے دم پر بالآخر قانون تو پاس تو ہوا لیکن اس کی آئینی حیثیت کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیاگیا۔ نیا قانون، وقف پر سرکاری کنٹرول کا دائرہ سخت کرے گا۔ وقف انتظامیہ میں غیر مسلموں کی شمولیت پر زبردست اعتراض کیا گیا ہے۔ وقف بائی یوزر کو ختم کیا گیا ہے۔
ایک صبح چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے راقم الحروف نے ہمیشہ کی طرح اپنے آپ سے سوال پوچھا کہ وقف کی اس گمبھیر صورتحال کا ذمہ دار کون ہے ؟ اُتھلا سا جواب ملا کہ ہم خود ہیں۔ تشفی نہیں ہوئی۔ پھر پیالی میز پر رکھ کر کچھ دیر ڈیپ بریدھنگ یعنی گہری سانسوں کی مشق کی۔ کھڑکی کی جالی پر بیٹھا ایک کوّا اپنی کرخت آواز میں یہ کہ رہا تھا ’’سُنو، ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات !‘‘ تازہ آکسیجن پاکر خون خاطر خواہ مقدار میں دماغ تک پہنچنے لگا تھا۔ وہ بھی کائیں کائیں کرنے لگا کہ جب ہمارے کمیونٹی سسٹم کھوکھلے ہو چلیں۔ جب نیتوں میں فتور کو عام رضامندی حاصل ہونے لگے تو وہ صورتحال پیدا ہوتی ہے جو آج نظر آتی ہے۔ ساری دنیا میں لینڈ گریبنگ قانونی طریقوں سے جاری ہے۔ یہاں تو آپ کا مخالف تیار بیٹھا ہے۔ اپنی مظلومیت کے ذکر سے تلذُّذ کشید کرتے رہوگے کیا؟ اوقاف کو محفوظ کرنے کیلئے کمیونٹی کو ایک طویل عرصہ ملا جس کو اس نے بڑی ’فیاضی‘ سے گنوادیا۔ خود احتسابی کرو اور اصلاحی عمل کیلئے تیار ہو جاؤ۔
مایہ ناز آئینی ماہر فیضان مصطفیٰ نے کہا کہ عبیدالرحمان کی یہ کتاب، قانون اور تاریخ کے طلبہ کیلئے بہت مفید ثابت ہوگی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی پروفیسر نندنی چٹرجی نے وقف کو ہندوستان کا ایک قیمتی اثاثہ بتاتے ہوئے اس کتاب کی تعریف کی ہے۔ موجودہ حالات میں اس کتاب کی معنویت کافی بڑھ جاتی ہے۔ اس کتاب کو ضرور پڑھا جانا چاہئے۔ ہارڈ کور میں قیمت کچھ زیادہ ہے لیکن مصنف کی تحقیقی محنت کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ پذیرائی ہونی چا ہئے۔