Inquilab Logo

حضورؐ اور آپؐ کے افرادِ خاندان ۳؍سال تک شعب أبی طالب میں محصور رہے

Updated: July 10, 2020, 11:04 AM IST | Maolana Nadeemul Wajidi

قریش مکہ کے سرداروں نے بنوہاشم اور بنو مطلب کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور یہ معاہدہ خانۂ کعبہ میں لٹکا دیا گیا تھا۔ سیرت رسولؐ میں آج ملاحظہ کیجئےکہ ہادیٔ عالمؐ اور آپؐ کے اہل خاندان نے تین سال تک کتنی مشقتیں برداشت کیں۔

Birth Place of Huzur
نبی کریم ؐ کی ولادت مبارکہ جس جگہ ہوئی، وہ آج لائبریری کی شکل میں قائم ہے

معاہدہ لکھ کر جوف کعبہ میں لٹکا دیا گیا، حضرت ابوطالب کو خبر ملی تو انہوں نے تمام بنی ہاشم اور بنی مطلب کو جمع کیا، چچا ابوطالب کو اس کا اندیشہ تھا کہ اب یہ اعیان قریش انتہائی قدم اٹھاتے ہوئے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی نقصان پہنچانے کی پوری پوری کوشش کریں گے، اس اندیشے کا اظہار انہوں نے اپنے بھائیوں اور بھتیجوں سے کیا تو سب نے اس کا حل بھی انہی پر چھوڑ دیا، حضرت ابوطالب نے فیصلہ کیا کہ فی الوقت سب لوگ شعب أبی طالب میں چلے جائیں، وہیں قیام کریں، سب ایک ساتھ رہیں، اس طرح حفاظت بھی رہے گی اور اجتماعیت بھی برقرار رہے گی، یوں بھی اب محلو ّں میں رہنے سے کوئی فائدہ نہ تھا، مقاطعے کی صورت میں ان لوگوں کے بالکل الگ تھلگ پڑ جانے کا اندیشہ تھا جو قریش کے دوسرے قبیلوں کے درمیان مکان بنا کر رہ رہے تھے، ابولہب بھی بھائی تھا مگر وہ اس میٹنگ میں شریک نہیں تھا، اس کے علاوہ تمام لوگ شعب ابی طالب میں منتقل ہوگئے، یہ ایک وسیع وعریض گھاٹی تھی، جودو پہاڑوں کے بیچ میں قدرتی طور پر بن گئی تھی، اور اس وقت حضرت ابو طالب کی ملکیت میں تھی، قریش کے تمام دس قبیلوں کے پاس اپنی اپنی گھاٹیاں تھیں۔
ابولہب کو بڑا ناز تھا کہ اس نے اپنے آباء و اجداد کے دین کی خاطر اور لات وعزیٰ کی عظمت کے تحفظ کے لئے اپنے سگے بھائیوں اور بھتیجوں کو چھوڑ دیا ہے۔ ایک دن وہ عتبہ بن ربیعہ کی بیٹی ھند کے پاس گیا اور جاکر کہنے لگا: اے عتبہ کی بیٹی! کیا میں نے ان لوگوں کو چھوڑ کر جنہوں نے لات و عزیٰ کو چھوڑا اور ان معبودوں کے خلاف بغاوت کی لات وعزیٰ کی مدد نہیں کی؟ ھند نے جواب دیا، ہاں تم نے مدد کی ہے، اللہ تمہیں اس کی بہترین جزا دے۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۱/۲۴۴) قابل ذکر بات یہ ہے کہ ابولہب کے علاوہ سب ہی آل بنی ہاشم وبنی مطلب نے شعب ابی طالب میں پناہ گزینی کی زندگی اختیار کی، ان میں مسلمان بھی تھے اور غیر مسلم بھی، مسلمانوں نے دین کی خاطر اور کافروں نے خاندانی و نسبی تعلق کی وجہ سے قید وبند کی زندگی کو ترجیح دی۔
lمصائب ومشکلات کے تین سال:
تین سال کی مدت کم نہیں ہوتی، خاص طور پر اس وقت جب کہ یہ مدت مصائب اور مشکلات سے بھری ہوئی ہو، راحت وآرام اور خوشی ومسرت کے دن پر لگاکر اڑتے ہیں، جب کہ پریشانیوں کا وقت آہستہ آہستہ کٹتا ہے۔ شعب أبی طالب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے افراد خاندان کے دن مشقت بھرے تھے، کفار نے مکمل طور پر بائیکاٹ کر رکھا تھا، وہ لوگ ان تک کھانے پینے کی کوئی چیز پہنچنے نہیں دیتے تھے اور نہ بازار والوں کو یہ اجازت تھی کہ وہ ان لوگوں کو کوئی چیز فروخت کریں، بڑے تو کسی نہ کسی طرح فاقوں پر صبر کرلیتے لیکن چھوٹے چھوٹے معصوم بچے کیسے صبر کرتے، جب انہیں بھوک لگتی تو وہ بلبلاتے، روتے، ان کے رونے کی آوازیں سن کر کفار و مشرکین خوش ہوتے اور لطف اندوز ہوتے، انہیں ذرا رحم نہ آتا، ان کا دل ذرا نہ پسیجتا۔
حضرت عُتْبَہ بن غَزْوَان کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہمارا پورا پورا ہفتہ ایسا گزر جاتا کہ ہمارے پاس کھانے کیلئے درختوں کے پتوں کے علاوہ کچھ نہ ہوتا، پتے کھا کھا کر ہمارے منہ چھل جایا کرتے تھے۔ (مسلم کتاب الزہد والرقاق:۴/۲۲۷۸، رقم الحدیث: ۲۹۶۷، سنن ابن ماجہ: ۲/۱۳۹۲، رقم الحدیث: ۴۱۵۶، مسند احمد:۳۴/۲۱۳، رقم الحدیث: ۲۰۶۰۹)۔ 
  حضرت سعد بن أبی وقاصؓ فرماتے ہیں شعب أبی طالب میں ہماری زندگی سختیوں میں گزر رہی تھی۔ ایک مرتبہ میں بھوکا تھا، اتفاق سے رات کو میرا پیر کسی تر چیز پر پڑا، میں نے وہ چیز اٹھا کر زبان پر رکھ لی اور اسے نگل گیا، مجھے آج تک پتہ نہیں چلا وہ چیز کیا تھی۔ (حلیۃ الاولیاء الاصبہانی: ۱/۹۳، الروض الأنف السہیلی: ۳/۲۱۷، سیر اعلام النبلاء للذہبی: ۱/۱۴۸، زاد المعاد: ۳/۲۲)
الروض الانف کے مصنف علامہ سہیلیؒ لکھتے ہیں کہ جب کوئی قافلہ اشیاء خوردنی لے کر مکہ مکرمہ میں آتا تو شعب أبی طالب کے محصورین میں سے کچھ لوگ اس امید پر باہر نکلتے کہ شاید قافلے والے ہمیں کچھ فروخت کردیں، مکہ والے تو انہیں دیکھتے ہی منہ پھیر لیتے ہیں، جب وہ ان قافلے والوں کے پاس پہنچتے اور ان سے کوئی چیز خریدنا چاہتے تو اللہ کا دشمن ابولہب ان کے پاس آکر کھڑا ہوجاتا اور ان سے کہتا کہ یہ محمدؐ کے ساتھی ہیں، انہیں مہنگے دام بتاؤ تاکہ یہ کوئی چیز خرید نہ سکیں، نقصان کی پروا مت کرنا، اس کی بھرپائی میں کردوں گا۔ وہ لوگ ابولہب کے بہکاوے میں آکر مسلمانوں کو اتنے زیادہ دام بتلاتے کہ وہ خریدے بغیر خالی ہاتھ اپنے بچوں کے پاس واپس چلے جاتے۔ بچے بھوک سے بلبلا رہے ہوتے مگر ان کے پاس کھلانے کو کچھ نہ ہوتا، وہ لالچی تاجر ابولہب کے پاس جاکر اپنا منافع لے لیتے۔ مسلمان اور ان کے ساتھ جو لوگ بھی تھے وہ بڑی آزمائش سے گزر رہے تھے، ان کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہ تھا۔ (الروض الانف: ۳/۲۱۷)
کتنے مشکل، سخت اور جاں گسل حالات تھے مسلمانوں کے لئے، ہم ان حالات کا تصور بھی نہیں کرسکتے، اور جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ صورت حال دو چار دن یا دو چار مہینوں تک باقی نہیں رہی، بلکہ مسلسل تین سال اسی حالت میں گزرے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے، اور آنکھیں اشک بار ہوجاتی ہیں۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۱/۲۴۶، الطبقات الکبری: ۱/۱۶۴، الکامل فی التاریخ: ۱/۶۸۲، البدایہ والنہایہ: ۳/۱۰۹)
lابوطالب کو حضورؐ کی فکر:
ابوطالب بڑھاپے کی منزل میں قدم رکھ چکے تھے۔ حالات نے ان کو اور زیادہ کمزور کردیا تھا، یہ فیصلہ انہی کا تھا کہ سب افراد خاندان شعب أبی طالب میں محصور ہوجائیں، جو گزرے گی سب پر ایک ساتھ گزرے گی، کھائیں گے تو سب کھائیں گے، بھوکے رہیں گے تو سب بھوکے رہیں گے۔ دوسرے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کیلئے بھی ضروری تھا کہ جہاں بھی رہیں سب ایک ساتھ رہیں، دن تو خیر کسی طرح گزر ہی جاتا، دعوت اسلام کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی سے باہر بھی نکل جاتے، اس وقت حضرت حمزہؓ یا کوئی دوسرا آپؐ کے ساتھ ضرور رہتا، لیکن رات میں آپؐ کی حفاظت کا معقول انتظام اور بندوبست کیا جاتا، اور اس کا طریقہ یہ ہوتا کہ جب سب لوگ استراحت کیلئے اپنے اپنے بستر  پر چلے جاتے تو ابوطالب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے کہ وہ ان کے بستر پر آکر سوجائیں، اور حضور کے بستر پر اپنے بیٹے، بھائی یا آپ کے کسی چچا زاد بھائی کو سونے کے لئے کہتے۔ (الرحیق المختوم ص:۱۱۰)
lکچھ لوگوں کی خفیہ مدد:
ان حالات میں بعض درد مند دل پریشان اور فکر مند ضرور تھے مگر وہ کچھ نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ ہاشم اور مطلب کی اولاد کے خلاف مضبوط محاذ بنا ہوا تھا، قریش کی تمام شاخیں اس بائیکاٹ پر متفق تھیں، انہیں یہ گوارا نہیں تھا کہ کوئی شخص اس معاہدے کی خلاف ورزی کرے، حالانکہ بنوہاشم اور بنو مطلب سے قریش کے دوسرے سلسلوں میں رشتہ داریاں بھی تھیں، مگر اسلام دشمنی میں انہوں نے تمام رشتہ داریوں پر پانی پھیر دیا تھا، بس ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ محمدؐ  کو ہمارے حوالے کرو ورنہ ہم سے کوئی تعلق نہ رکھو۔ اس لئے بعض لوگ فکر مند ضرور تھے، معصوم بچوں کی بلبلاہٹ ان کے دل پر نشتر کی طرح لگتی تھی مگر وہ مجبور تھے، کھل کر کچھ نہیں کرسکتے تھے، ان حالات میں بھی بعض ہمدرد لوگ خاموشی کے ساتھ مدد کررہے تھے، مطعم بن عدی کو جب بھی موقع ملتا وہ کھانے کا کچھ سامان چپکے سے گھاٹی میں پہنچا دیا کرتا تھا۔
 اسی طرح حکیم حزامؓ بھی کبھی غلہ کی بوریاں بھیج دیتے تھے۔ یہ حضرت خدیجۃ الکبریؓ کے بھتیجے تھے، اور بعثت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست بھی تھے، بعثت کے بعد بھی آپؐ سے قلبی تعلق رکھتے تھے، اگرچہ فتح مکہ کے موقع پر مشرف بہ اسلام ہوئے، انہیں ان حالات کا بہت دکھ رہتا تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی پھوپھی کے لئے کچھ غلہ لے کر جارہے تھے۔ ابوجہل نے دیکھ لیا، کہنے لگا کیا تم بنو ہاشم کے لئے غلہ لے کر جارہے ہو، میں ہرگز اس کی اجازت نہیں دوں گا، اور تمہاری اس حرکت کی خبر تمام لوگوں کو کروں گا، حزامؓ نے بڑی منت سماجت کی مگر وہ اپنی ضد پر اڑ گیا، اتنے میں ابو البختری وہاں آگیا، جب اسے معلوم ہوا کہ ابوجہل حکیم حزامؓ کو غلہ لے جانے سے روک رہا ہے تو اس نے کہا تم اسے کیوں روک رہے ہو، یہ اپنی پھوپھی کے لئے غلہ لے کر جارہا ہے، تم کون ہوتے ہو روکنے والے، یہ سن کر ابوجہل نے ابو البختری کو برا بھلا کہنا شروع کردیا، ابو البختری نے اونٹ کی ایک بڑی سی ہڈی اٹھائی اور اس کے سر پر دے ماری جس سے خون نکل آیا، ابوجہل نے چوٹ بھی کھائی اور شرمندہ بھی ہوا کیوں کہ حضرت حمزہؓ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔
 حکیم حزامؓ نے بعد میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھا، وہ تجارت پیشہ انسان تھے، شام سے ان کے اونٹ غلے سے لد کر آیا کرتے تھے، جب یہ اونٹ مکے پہنچتے تو حکیم حزامؓ دو چار اونٹ شعب ابی طالب کی طرف ہنکا دیتے وہاں سے وہ لوگ یہ غلہ اتار کر اونٹوں کو واپس بھیج دیتے۔ ہشام ابن عمرو ابن ربیعہ بھی مدد کرنے میں پیش پیش رہتا تھا۔ ایک رات وہ غلے کی تین بوریاں گھاٹی کی طرف بھیج رہا تھا کہ قریش کو اس کا علم ہوگیا، انہوں نے سخت سست کہا، ہشام نے معذرت کی اور وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ یہ حرکت نہیں کرے گا، مگر اس نے دوبارہ بھی ایسا ہی کیا، ایک مرتبہ قریش نے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اسے سزا دینے کا ارادہ کیا، ابوسفیان نے کہا اسے چھوڑ دو، اس نے صرف ہم دردی اور صلہ رحمی کی وجہ سے ایسا کیا ہے، خدا کی قسم اگر ہم بھی ایسا کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔ (سیرۃ ابن ہشام: ۱/۲۴۶)
lہشام بن عمرو کُھل کر سامنے آگئے:
ان حالات سے اگر کوئی شخص سب سے زیادہ فکر مند، پریشان اور بے چین تھا وہ ہشام بن عمرو تھے۔ اور بھی رہے ہوں گے مگر کوئی شخص بھی کُھل کر مخالفت کی جرأت نہیں کرتا تھا، یہ صرف ہشام بن عمرو تھے جنہوں نے اس غیر انسانی مقاطعے کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کی۔ ایک دن انہیں خیال آیا، ہوسکتا ہے پہلے بھی خیال آیا ہو، لیکن اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وہ آج ہی آمادہ نظر آئے، انہیں خیال آیا کہ ہم تو سب عیش وآرام کی زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارے بھائی بھتیجے اور ان کے معصوم بچے وہاں بھوک پیاس سے بلبلا رہے ہیں۔ یہ خیال آنا تھا کہ تڑپ کر اٹھے اور زہیر بن امیہ کے پاس پہنچے، زہیر بن امیہ عبد المطلب کے نواسے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی عاتکہ بنت عبد المطلب کے بیٹے تھے، ہشام نے زہیر سے پوچھا: کیا تمہیں اچھا لگتا ہے کہ تم کھاؤ پیو، شادی بیاہ کرو اور تمہارے ماموں ایک ایک دانے کو ترسیں، خدا کی قسم اگر یہ معاملہ ابوجہل کے نانا ماموں کا ہوتا تو وہ کبھی یہ معاہدہ نہ کرتا اور کرتا تو اس کی پروا نہ کرتا۔ زہیر نے کہا واقعی دل تو میرا بھی بہت کڑھتا ہے مگر میں تنہا کیا کرسکتا ہوں، اگر ایک ہم خیال اور مل جائے تو میں کچھ پیش قدمی کروں۔
ہشام وہاں سے اٹھ کر مطعم بن عدی کے پاس پہنچے اور اس سے بھی اسی طرح کی گفتگو کی، اس کا جواب بھی یہی تھا، اس کے بعد ہشام نے ابو البختری اور زمعۃ بن الاسود کو ہم خیال بنایا، کل پانچ افراد ہوگئے، جو اگرچہ تنہا تنہا محصور ین کیلئے فکر مند رہتے تھے، مگر وہ اپنے دل کی بات کسی سے کہہ نہیں پاتے تھے، آج ہشام بن عمرو کے سامنے کھل گئے، پانچوں ایک جگہ جمع ہوئے، ان کے درمیان یہ بات طے پائی کہ کل صبح جب تمام لوگ بیت اللہ میں جمع ہوں تب ان کے سامنے یہ بات رکھی جائے  اور ہم سب ایک آواز ہوکر ان سے کہیں گے کہ اس معاہدے کو چاک کردیا جائے، زہیر نے کہا کہ بات کی ابتدا میں کروں گا، آپ سب لوگ میری تائید کریں گے۔ 
صبح کے وقت جب تمام سرکردہ افراد خانۂ کعبہ کے صحن میں اپنی اپنی محفلیں سجائے خوش گپیاں کر رہے تھے، زہیر اپنی جگہ سے اٹھے پہلے انہوں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے: اے مکہ والو! ہم کھانا بھی کھا رہے ہیں اور کپڑے بھی پہن رہے ہیں، دوسری طرف بنو ہاشم ہلاکت میں پڑے ہوئے ہیں، نہ وہ کچھ خرید سکتے ہیں اور نہ فروخت کرسکتے ہیں، واللہ! میں اس وقت تک اپنی جگہ نہیں بیٹھوں گا جب تک اس معاہدے کو نہ پھاڑ دوں جو سراسر ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہے۔ ابوجہل جو مسجد حرام کے ایک گوشے میں بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا: خدا کی قسم تو اسے نہیں پھاڑ سکتا، تو جھوٹا ہے، زمعۃ بن الاسود نے کہا تو بڑا جھوٹا ہے، ہم نے اس وقت بھی اس معاہدے کی مخالفت کی تھی، جب یہ لکھا جارہا تھا۔ ابو البختری نے کہا: زمعہ سچ کہتا ہے ہم اس سے متفق ہی نہیں تھے، مطعم بن عدی بولا: تم دونوں صحیح کہتے ہو، ابوجہل کی بات بالکل غلط ہے، ہم اس تحریر سے برأت کا اظہار کرتے ہیں، اور اللہ سے معافی مانگتے ہیں، ہشام نے بھی اسی طرح کے الفاظ کہے، ابوجہل بولا، مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ معاملہ رات میں کسی اور جگہ طے کیا گیا ہے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK