Inquilab Logo

دنیاوی زندگی میں انسان کا کردار اور انسان کی آخری اور اخروی منزلِ مقصود

Updated: March 29, 2020, 4:44 PM IST | Dr. Mahmood Ahmed Ghazi | Mumbai

قرآن مجید جو نسخۂ کیمیا لے کر آیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد انسان کو دُنیاوی زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی کامیاب و کامران بنانا ہے

reciting holy quran in mosque
مسجد میں دو افراد قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے

 اور آخری گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے مضمون ’’دنیاوی زندگی میں انسان کا کردار اور انسان کی آخری اور اخروی منزلِ مقصود‘‘ کا دوسرا حصہ

  عقائد کے متعلق جو مواد قرآن پاک میں بیان ہوا ہے  وہ تین بنیادی مسائل کے جوابات ہیں جو اس باب میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ سب سے بڑا بنیادی مسئلہ توحید ہے کہ اللہ ایک ہے، وہی اس کائنات کا پیدا کرنے والا ہے اور تمام صفات ِ کمال سے متصف ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ہر سلیم الطبع انسان ذرا  سا غور کرے تو وہ جلد ہی توحید پر ایمان لے آتا ہے۔ جب بھی کوئی صاحب ِ عقل اور صاحب ِ علم انسان تھوڑا سا غور کرکے یہ دیکھتا ہے کہ یہاں دنیا میں کیا نظام چل رہا ہے؟ کیسے یہ کائنات کام کررہی ہے؟ تو وہ خودبخود اللہ رب العزت کی ذات تک پہنچ جاتا ہے اور اس کو یہ تسلیم کرلینے میں کوئی تامل نہیں ہوتا کہ اس کائنات کا ایک بنانے والا ہے۔ اس کو یہ مان لینے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی کہ اس کائنات کا نظام کسی خودکار طریقے سے نہیں چل رہا ہے بلکہ کوئی طاقت ضرور موجود ہے یعنی کسی چلانے والے کے حکم اور مشیت کے تحت ہی چل رہا ہے۔ جب وہ یہ سب کچھ مان لیتا ہے تو پھر  اس کو جلد ہی یہ احساس بھی ہوجاتا ہے کہ عقیدۂ توحید کے منطقی نتیجے کے طور پر اسے آخرت پر ایمان لانا چاہئے۔ جب وہ یہ سب مان لے تو پھر اس کو یہ بھی ماننا چاہئے کہ جس خالق نے یہ کائنات پیدا کی ہے اس نے بغیر کسی مقصد کے اس کو پیدا نہیں کیا۔ 
 دوسری اہم حقیقت جو قرآن پاک نے جا بجا بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ بعض اوقات انسان جب صحیح راستے سے بھٹکتا ہے تو اس کے دو سبب ہوتے ہیں۔ ایک تویہ کہ اس کو صحیح عقیدہ معلوم نہیں ہوتا اور دوسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ صحیح عقیدہ تو معلوم ہوتا ہے لیکن وہ اپنے بارے میں یا تو احساس برتری کا شکار ہوجاتا ہے یا احساس کمتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ پوری کائنات کو اپنے ہی حوالے سے دیکھتا ہے۔ یہ انسان کی فطری کمزوری ہے۔ اگر کوئی شخص مجھ سے لڑتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ برا ہے، اور اگر مجھ سے اچھا برتاؤ کرتا ہے تو میں کہوں گا کہ وہ اچھا ہے۔
احکام
 قرآن پاک کا دوسرا اہم مبحث احکام ہے۔ قرآن مجید جو نسخۂ کیمیا لے کر آیا ہے اس کا سب سے بڑا مقصد انسان کو دنیاوی زندگی میں کامیابی کے ساتھ ساتھ اخروی زندگی میں بھی کامیاب و کامران بنانا ہے۔ دنیاوی کامیابی کے لئے قرآن مجید میں عموماً صلاح کی اور اخرو ی زندگی کی  کامیابی کیلئے فلاح کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں۔ اس صلاح اور فلاح کے لئے ضروری ہے کہ انسانی زندگی کسی قاعدے اور ضابطے کے تحت منظم ہو۔ قرآن مجید نے جو تفصیلی  ضابطۂ زندگی عطا فرمایا ہے وہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو منظم کرتا ہے۔ انسان اپنی روزمرہ زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو صحیح خطوط پر منظم اور استوار کرنے کے لئے قرآن پاک میںضروری اور بنیادی احکام دیئے گئے ہیں۔ 
 انسان اپنی ذاتی، خاندانی، معاشرتی، اقتصادی، اجتماعی، سیاسی اور بین الاقوامی زندگی میں جو کچھ کرتا ہے اس کو مفید، نتیجہ خیز اور بہتر بنانے کیلئے قرآن پاک نے جابجا ہدایات دی ہیں۔  ان آیات کا، جن میں اس طرح کے احکام بیان کئے گئے ہیں، جائزہ لیا جائے تو پتا چلے گا کہ کتابِ الٰہی نے انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس کے بارے میں ہدایات نہ دی ہوں۔ یہ احکام معاشرتی ہدایات اور اجتماعی رہنمائی پر بھی مشتمل ہیں اور قانونی اصول و ضوابط پر بھی۔ 
 قرآن مجید کی یہ آیات جن کو آیات ِ احکام کہا جاتا ہے، اکثر و بیشتر عمومی ہدایات پر مشتمل ہیں۔  قرآن مجید نے تفصیلات کا تعرض نہیں کیا، اس لئے کہ تفصیلات کا تعلق حالات اور زمانے کے تقاضوں سے ہوتا ہے۔ یہ اُمت کے اہل علم و دانش اور فقہائے اسلام کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ اجتہاد اور اجماع کے اصولوں سے کام لے کر قرآن مجید کی عمومی ہدایات، بنیادی احکام اور اصولوں کو سامنے رکھ کر اسوۂ حسنہ کی روشنی میں اور سنت رسولؐ کی بیان کردہ حد کے اندر رہتے ہوئے حالات و زمانے کے مطابق تفصیلات طے کریں۔ آیات ِ احکام میں بھی زیادہ زور جن دو پہلوؤں پر دیا گیا ہے وہ عبادات اور خاندانی زندگی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ آیات ِ احکام کی ایک تہائی تعداد عبادات کے بارے میں ہے اور ایک تہائی خاندانی زندگی کے بارے میں ہے، بقیہ ایک تہائی کا تعلق  زندگی کے دیگر پہلوؤں سے ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن نے خاندانی زندگی کے تحفظ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ قرآن میں ہر ایسی کوشش کو جس کا مقصد خاندان میں افتراق پیدا کرنا ہو، شیطان کی سحرکاری قرار دیا ہے ۔
 قرآن مجید کے کلیات اور عمومی اصولوں کو حقائق زندگی کے پس منظر میں برتنے کا ڈھنگ، سیرت اور سنت رسولؐ سے معلوم ہوتا ہے۔ سنت، قرآن مجید کی تشریح بھی کرتی ہے، تفصیل بھی بیان کرتی ہے اور مجملات قرآن کی تبیین بھی کرتی ہے۔ اگرچہ سنت رسولؐ براہِ راست مستقل بالذات احکام بھی دے سکتی ہے، تاہم بعض بالغ نظر اہل علم کا کہنا ہے کہ سنت کے دیئے ہوئے ہر حکم کی کوئی نہ کوئی اساس اللہ کے کلام یعنی قرآن پاک میں موجود ہوتی ہے اور غور کرنے سے سامنے آجاتی ہے۔
اخلاقیات
 تیسرا اہم مبحث اخلاق ہے جس کا تعلق انسان کے قلبی احساسات اور تاثرات سے ہے۔ انسان بعض چیزوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے ، جبکہ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن سے اس کو شدید نفرت ہوتی ہے۔ یہ پسندیدگی، ناپسندیدگی اور نفرت انسان کے قلبی احساسات کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ یہ احساسات بعض اوقات اچھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات بُرے یا خراب۔ انسان کے احساسات اچھے ہوں تو ہر چیز اس کو اچھی نظر آتی ہے،  احساسات بُرے اور خراب ہوں تو انسان مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے اور ہر چیز بگڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو روز اسی کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ اگر آپ خوش ہیں اور  قلبی و  ذہنی کیفیت کے اعتبار سے انبساط کی حالت میں ہیں تو آپ کو ہر چیز اچھی نظر آئے گی، اور اگر خدانخواستہ کوئی شخص آپ کو کوئی بری خبر سنادے تو آپ کو سارا ماحول پژمردہ، بے کیف اور بے رونق  نظر آنے لگتا ہے۔ 
ایام اللہ (عروج و زوال)
 قرآن پاک کا چوتھا بنیادی مبحث حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے الفاظ میں ’’ایام اللہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ایام اللہ سے مراد دنیا کی تاریخ  میں مسلسل  جاری رہنے والا وہ نشیب و فراز ہے جو اللہ کی سنت کے مطابق دنیا میں جاری ہے جس کے نتیجے میں افراد اور قوموں کے عروج و زوال کی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ قرآن مجید کا ہر طالب علم اس بات کو جانتا ہے کہ اس کتاب میں اقوام سابقہ اور انبیائے سابقین میں سے  بہت سوں  کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ سورہ فاتحہ سے ہی ان دونوں قسم کے انسانوں کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ میں اللہ سے جو دعا کی گئی ہے وہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے راستے پر چلائے جن پر اس نے انعام فرمایا اور ان لوگوں کے راستے سے محفوظ رکھے جن پر اس کا غضب نازل ہوا، یا وہ راہِ راست سے بھٹک گئے۔ یوں کتاب الٰہی کے آغاز ہی سے اللہ کے مقبول بندوں کا تذکرہ بھی شر وع ہوجاتا ہے اور اللہ کے ناپسندیدہ لوگوں کا بھی۔ پھر آگے چل کر قرآن پاک میں بڑی تفصیل سے جابجا انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ انبیاءؑ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے باغیوں کا ذکر بھی کم نہیں۔ چنانچہ فرعون، نمرود، شداد، ہامان، قارون اور ایسے ہی دوسرے لوگوں کا تذکرہ بھی موجودہے۔ یہ تذکرہ کہیں نام لے کر کیا گیا اور کہیں نام لئے بغیر۔
 انبیاءؑ میں سے جن جن کے اسمائے گرامی قرآن پاک میں آئے ان کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک بعض خاص خاص اوصاف و امتیازات کی نمائندگی فرماتےہیں۔ مثال کے طور پر حضرت نوحؑ دعوت دین میں استقلال اور تحمل کی نمائندگی فرماتے ہیں۔ حضرت ایوب ؑ صبر کی صفت کے مظہر ہیں۔ حضرت یحییٰؑ کی ذات میں صفات زہد و فقر نمایاں ہیں اور حضرت سلیمانؑ کی ذات میں شکر کا نمونہ ملتا ہے۔ ان تمام اوصاف حمیدہ کے چلتے پھرتے نمونے ان انبیاءؑ کی صورت میں قرآن پاک میں محفوظ کر دیئے گئے ہیں۔ قرآن مجید کا ایک قاری جب کتاب الٰہی کی تلاوت کرتا ہےتو اس کے سامنے بار بار مجسم اچھائیوں اور سراپا خوبیوں کے نمونے نظر آتے رہتے ہیں۔ ایک قاری یہ دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی نیک بندے کو اقتدار سے نوازتا ہے تو اس کا طرز عمل کیا ہونا چاہئے۔ حضرت داؤدؑ کی سنت اس کے سامنے آجاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو مال و دولت اور انعامات  کی فراوانی عطا  فرماتا ہے تو اس کوحضرت سلیمان ؑ کا رویہ اپنانا چاہئے۔ دین کی خاطر گھربار اور وطن چھوڑنا ہو تو حضرت ابراہیم ؑ کا اسوہ پیش نظر رہتا ہے۔ یوں اس کی نظر میں یہ مثالیں اور نمونے ہر وقت تازہ رہتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے سامنے انبیاءؑ کے واقعات ہر وقت اس طرح رہتے ہیں جیسے وہ خود ان کا مشاہدہ کررہا ہو۔
 سابقہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ساتھ ایام اللہ کے ضمن میں قرآن مجید میں سیرت نبویؐ کے اہم واقعات بھی محفوظ کردیئے گئے ہیں۔ قرآن مجیدکا ہر قاری روحانی طور پر رسول اللہ ﷺ کی معیت میں زندگی گزارتا ہے۔ وہ چشم تصور سے بدر و حنین کے معرکے دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے ہجرت کے مناظر تازہ رہتے ہیں۔ وہ غزوۂ احد میں صحابہ کرامؓ کی پریشانی اور سراسیمگی کو محسوس کرتا رہتا ہے اور یوں وہ اپنی چشم تصور سے واقعات ِ سیرت کو نہ صرف دیکھتا ہے بلکہ اس کو مسلسل مہمیز ملتی رہتی ہے۔ اس گہری اور مسلسل روحانی وابستگی اور چشم تصور کے ذریعے اس مشاہدے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسلام  کے عقائد اور اخلاق اس کی طبیعت اور مزاج کا حصہ بن جاتے ہیں اور یوں انبیاءؑ کی سنت سے مسلسل  رہنمائی حاصل کرتے رہنا اس کی فطرت ثانیہ بن جاتا ہے۔
 اس کے برعکس جن لوگوں نے غلط راستہ اختیار کیا ان کو کس انجام کا سامنا کرنا پڑا، یہ بات بھی قرآن کے قاری کی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے پاتی۔ قرآن مجیدمیںاس غرض کے لئے جن لوگوں کا تذکرہ کیا گیا ان میں ہر ایک انحراف اور سرکشی کے ایک خاص انداز کی نمائندگی کرتا ہے۔ اقتدار کے نشے میں انسان راہ راست سے بہک جائے تو کہاں جا کر دم لیتا ہے، یہ چیز فرعون کے انجام کی صورت میں سامنے  آتی ہے۔ مال و دولت کی بہتات کے نتیجے میں انسان راہ راست سے بھٹک جائے تو کیا نکلتا ہے، یہ چیز قارون کے انجام سے پتا چلتی ہے۔ بعض اوقات انسان کے اپنے پاس نہ دولت ہوتی ہے نہ اقتدار، لیکن اس کو کسی صاحب ِ اقتدار کی مصاحبت میسر آجاتی ہے، شہر میں اس کی اپنی کوئی آبرو نہیں ہوتی لیکن شاہ کا مصاحب بن کر اتراتا  پھرتا ہے اور یوں اس کا ذہن فساد کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔ اس کیلئے قرآن مجید میں ہامان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ہامان، فرعون کا مصاحب تھا اور صحبت ِ شاہ نے اسکا دماغ خراب کردیا تھا۔ 
 ان چیزوں کے ساتھ ساتھ بڑے لوگوں کی رشتے داری بھی بعض اوقات انسان کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ قرآن مجید نے مختلف رشتے داریاں بیان کرکے یہ بتایا ہے کہ کسی کی محض رشتے داری نہ انسان کو اچھا بناسکتی ہے اور نہ برا، اگر وہ خود اچھا یا برا نہ بننا چاہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مشہور اور بڑی شخصیتوں کے رشتے داروں کا تذکرہ بھی اس سیاق و سباق میں کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے باپ، حضرت نوحؑ کے بیٹے اور حضرت لوطؑ کی بیوی کا تذکرہ اللہ کے باغیوں کی فہرست میں کیا گیا ہے۔ رسولؐ اللہ کے تمام قریبی اعزہ آپؐ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے اور اسلام کے سابقین اولین میں شامل ہوئے۔ البتہ آپؐ کا ایک بدنصیب چچا ابولہب تھا جو اس فہرست میں شمولیت کا مستحق نہ ٹھہرایا گیا۔ اچھے لوگوں کے نالائق رشتے داروں کے ساتھ نالائق لوگوں کے اچھے رشتے داروں کا ذکر بھی کیا گیا۔ چنانچہ فرعون کی تمام تر گمراہیوں اور سرکشیوں کے باوجود اس کی اہلیہ حضرت آسیہ تقویٰ اور دینداری کے بہت بلند معیار پر فائز رہیں اور ان کو نیکی اور اخلاص کی ایک لازوال مثال کے طور پر بیان کیا گیا۔
زندگی بعد موت
 قرآن مجید کا آخری بنیادی مبحث مرنے کے بعد دوسری زندگی کے حالات اور ان کی تفصیلات ہیں۔ ایک اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ مضمون عقائد سے تعلق رکھتا ہے، اس لئے کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی کا تعلق عقیدۂ آخرت ہی سے ہے۔ لیکن چونکہ قرآن نے اس مضمون کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے اس لئے علمائے کرام اور مفسرین نے اس کو ایک جداگانہ مبحث قرار دیا ہے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اس کے لئے تذکیر بالموت ومابعدالموت کی اصطلاح اختیار فرمائی ہے۔
 واقعہ یہ ہے کہ حیات بعدالموت کی تفصیلات بیان کرنے، ان کو ذہن نشین کرانے اور عقیدۂ آخرت کو اہل ایمان کے رگ و پے میں سمودینے میں کوئی اور مذہبی کتاب قرآن مجید کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ قرآن مجید نے جس تفصیل اور باریک بینی کے ساتھ قیامت کے مناظر کی نقشہ کشی کی ہے وہ نہ صرف مذہبی لٹریچر کی تاریخ میں بلکہ ادبیات ِ عالم میں بھی ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ نہ  صرف مسلمان علماء بلکہ غیرمسلم اہل علم نے بھی قرآن پاک کے اس پہلو کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ بیسویں صدی کے مسلمان ادیبوں اور محققین میں مصر کے سید قطب شہید ؒ کا نام اس معاملے میں بڑا نمایاں ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب مشاہدالقیامہ فی القرآن میں قرآن پاک کے اس پہلو پر انتہائی عالمانہ اور ادیبانہ انداز سے گفتگو کی ہے۔ روز قیامت کے مناظر و مشاہد قرآن مجید کی ابتدائی سورتوں سے لے کر آخرتک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سکرات موت کا تذکرہ بھی ہے۔ مرنے کے بعد عالم برزخ کے سوال و جواب، قبر کی کیفیات و تجربات، مرنے والے کے روحانی احساسات سے لے کر جنت اور دوزخ کے مناظر تک ہر ہر مرحلے کی جھلکیاں موجود ہیں۔
خلاصۂ کلام
 یوں تو یہ مضمون قرآن مجید کے ہرحصے میں ملتا ہے لیکن مکی سورتیں اس معاملے میں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ مکی سورتیں یوں بھی اپنے غیرمعمولی زوربیان، خطیبانہ اسلوب اور اثرانگیزی میں ممتاز ہیں۔ یہ اسلوب، یہ انداز اور یہ اثرانگیزی  مناظر ِ قیامت کے ضمن میں سہ آتشہ بلکہ چہارآتشہ ہوجاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ کوئی صاحب ایمان جو عربی زبان کا فہم رکھتا ہو اور قرآن مجید کے مضامین  سے واقف ہو، ان آیات کو پڑھے اوران سے اثر نہ لے۔ ایسے واقعات سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں  ہیں کہ اللہ کے نیک بندے آیات ِ قیامت کو پڑھ کر یا سن کر تڑپ تڑپ گئے ۔ ایسے واقعات بھی لاتعداد ہیں جن میں آیات ِ قیامت کو پڑھنے یا سننے والے بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ ایسی مثالیں  بھی ہیں کہ بعض  اوقات تقویٰ شعار بزرگ تمام رات ایک ہی آیت کو دہراتے رہے۔ یہی ان آیات کا مقصد ہے اور شاید اسی لئے  یہ خصوصی انداز اس مضمون کے ضمن میں اختیار فرمایا گیا ہے۔
 یہ ہیں وہ پانچ بنیادی مباحث و مضامین جن سے قرآن پاک میں بیشتر آیات اور سورتوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ کلام کیا گیا ہے۔ ان میں سے ہر مضمون کا تعلق قرآن مجید کے اصل مقصد اور نفس مضمون سے ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا، یعنی انسان۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK