Inquilab Logo

افسانہ: اپنے

Updated: April 25, 2024, 12:34 PM IST | Ishrat Jahan | Mumbai

عارف نے ماں سے کہا، ’’ویسے، آخر بات کیا ہوئی تھی؟‘‘ زرّیں کے دل کا سوال عارف کی زبان پر آگیا۔ اور ساس کی باتیں سن کر تو وہ دنگ ہی رہ گئی کہ وہ باتیں تو اُس نے شاہینہ خالہ سے اپنا دل ہلکا کرنے کے لئے کی تھیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

’’بڑی باغ و بہار طبیعت پائی ہے خالہ نے، ان کے ساتھ گزرے وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ بچوں میں بچی، بڑوں میں بڑی۔ ‘‘
زرّیں نے شاہینہ خالہ سے متعلق سوچتے ہوئے چائے کا پانی چولہے پر رکھا۔ ’’اُن سے انسان اپنا ہردکھ سکھ کہہ لے، مجال ہے، کبھی کوئی بات اِدھر سے اُدھر کی ہو۔ یا اللہ! میرا بڑھاپا بھی ایسا ہی بنانا، میری تو بھئی آئیڈیل بن گئی ہیں یہ۔ ‘‘ ٹرے سجاتے ہوئے اُس نے سوچا اور لبوں پر مسکراہٹ تیر گئی۔ پھر چائے اور لوازمات کی ٹرے لئے وہ کمرے میں چلی آئی، جہاں ساس اکیلی ہی بیٹھی تھیں اور خالہ کہیں نظر نہیں آرہی تھیں۔ ’’امّی! شاہینہ خالہ کہاں گئیں ؟‘‘ ٹرے رکھتے ہوئے اُس نے قدرے حیرت سے پوچھا۔ ’’جا چکیں ....‘‘ ساس نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’اتنی جلدی....؟‘‘ وہ بدستور حیران تھی۔ ’’کام تھا اُنہیں۔ ‘‘ مختصراً کہتے ہوئے انہوں نے چائے کا کپ اُٹھا لیا۔ 
اُن کی سرد مہری محسوس کرتے ہوئے وہ مزید کچھ نہ بول سکی، لیکن دل ہی دل میں سوال و جواب کرنے لگی۔ ’’ضرور کوئی بات ہے، اِنہیں تو میرا کسی سے بات کرنا ذرا نہیں بھاتا۔ ‘‘ اُس کے دل میں ساس سے متعلق بدگمانی نے سَر اُٹھایا۔ ’’اپنوں سے دُور، بندے کا دل تو چاہے گا ہی، کسی سے دو گھڑی بات کرنے کو، ایک وہی تو میری دَم ساز ہیں۔ اگر مَیں ہنس کر خالہ سے بات کرلوں، تو یہ اعتراض کرنے والی کون ہوتی ہیں۔ عارف آجائیں، تو اُنہیں ضرور بتاؤں گی۔ ‘‘ یہی کچھ بے ربط سی باتیں سوچتے سوچتے، اُس نے خاموشی سے چائے پی کر برتن سمیٹے، مگر دل میں شکایتوں کا انبار جمع ہورہا تھا اور آج میاں کا انتظار بھی روز سے زیادہ ہی تھا اُسے۔ اُن کے آنے پر سب نے ایک ساتھ کھانا کھایا، پھر وہ قہوہ بنانے چلی گئی، مگر کان باہر ہی لگائے رکھے۔ 
’’بیٹا! مجھے مناسب نہیں لگتا کہ مَیں زرّیں کو کسی سے میل جول سے یک دَم روک دوں، لیکن اُنہوں نے زرّیں کے لئے جو باتیں کہیں، اُس کے بعد ضروری ہے کہ ہم....‘‘ ساس نے بیٹے سے کہا۔ ’’امّی! ویسے تو آپ نے ٹھیک کیا، لیکن پہلے ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، پھر کسی کی مجال نہ ہوگی کہ ہمارے گھر میں زقند لگا سکے۔ ‘‘
عارف نے ماں سے کہا، ’’ویسے، آخر بات کیا ہوئی تھی؟‘‘ زرّیں کے دل کا سوال عارف کی زبان پر آگیا۔ اور ساس کی باتیں سن کر تو وہ دنگ ہی رہ گئی کہ وہ باتیں تو اُس نے شاہینہ خالہ سے اپنا دل ہلکا کرنے کے لئے کی تھیں۔ ’’اِس کا مطلب ہے.... جنہیں مَیں اپنا غم خوار، ہم راز سمجھ رہی تھی، وہ میری دشمن نکلیں، اُنہوں نے میرے راز کا پاس ہی نہیں رکھا۔ ‘‘ زرّیں نے سوچا۔ 
’’بیٹا! مَیں سمجھتی ہوں کہ پودے کو نئی جگہ لگنے میں ذرا وقت تو لگتا ہے، مجھے زرّیں سے کوئی شکایت نہیں، وہ تو ابھی نئی نئی اس گھر میں آئی ہے، ظاہر ہے ہمارے رنگ میں رنگنے میں ابھی ذرا وقت لگے گا، تو تمہیں بھی اُس سے اِس حوالے سے کوئی بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ مَیں خود کوئی مناسب وقت دیکھ کر تحمل سے اُسے سمجھا دوں گی۔ ‘‘ ساس نے بیٹے کو شفقت سے سمجھایا۔ 
’’اُف…! مَیں نے بدگمانی میں شاہینہ خالہ سے امّی کی کتنی شکایتیں کر ڈالی تھیں اور وہ بھی تو ایسے میری ہاں میں ہاں ملا رہی تھیں، جیسے میری سب سے بڑی ہمدرد ہوں۔ ‘‘
اُس نے سوچا اور شرمندگی کا بوجھ لئے کام میں لگ گئی۔ ’’یہ امّی کی معاملہ فہمی اور دور اندیشی ہی تھی، جو مجھے شاہینہ خالہ سے زیادہ بات کرنے سے روکتی تھیں اور مَیں بے وقوف کچھ اور ہی سمجھی، حالانکہ مَیں جنہیں اپنا غمخوار سمجھ رہی تھی، وہ تو صرف تماش بین تھیں۔ شکر ہے، اللہ نے جلد ہی میری آنکھیں کھول دیں۔ میرے ہمدرد، میرے اپنے شاہینہ خالہ نہیں، امّی جان اور عارف ہیں۔ ‘‘ وہ اپنا محاسبہ کرنے لگی اور آنکھوں میں آنسو، ٹرے میں قہوہ سجا کر صحن کی جانب چلی دی، جہاں اُس کے اپنے، اُس کے ہاتھ کے بنے قہوے کے منتظر تھے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK