بچپن میں گھر کا ماحول انسانی شخصیت کی پہلی درسگاہ اور تمدن و تہذیب کا پہلا گہوارہ ہے۔ انسان کی فطرت میں اجتماعی زندگی کا رجحان ودیعت کیا گیا ہے اور اس اجتماعی زندگی کی پہلی اکائی خاندان ہے۔
EPAPER
Updated: August 08, 2025, 2:05 PM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai
بچپن میں گھر کا ماحول انسانی شخصیت کی پہلی درسگاہ اور تمدن و تہذیب کا پہلا گہوارہ ہے۔ انسان کی فطرت میں اجتماعی زندگی کا رجحان ودیعت کیا گیا ہے اور اس اجتماعی زندگی کی پہلی اکائی خاندان ہے۔
بچپن میں گھر کا ماحول انسانی شخصیت کی پہلی درسگاہ اور تمدن و تہذیب کا پہلا گہوارہ ہے۔ انسان کی فطرت میں اجتماعی زندگی کا رجحان ودیعت کیا گیا ہے اور اس اجتماعی زندگی کی پہلی اکائی خاندان ہے۔ گھر کے ماحول میں جو عادات، اخلاق اور رویّے انسان اپناتا ہے، وہی اس کی شخصیت کا بنیادی خمیر بنتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اوائل ِ عمری کا ماحول محبت، احترام، نظم و ضبط اور عدل و احسان پر استوار ہو تو پورا معاشرہ ان ہی اقدار کا عکس بن جاتا ہے۔ منطقی اعتبار سے دیکھا جائے تو گھریلو زندگی محض ایک جسمانی یا مادی ضرورت کا نام نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی، اخلاقی اور فکری ارتقاء کی آغوش ہے، جو انسان کو اپنے وجود کی گہرائیوں سے روشناس کراتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام نے گھریلو زندگی کو محض شخصی مسئلہ قرار نہیں دیا بلکہ اسے ایک اجتماعی و اخلاقی ذمہ داری کا درجہ دیا ہے۔ اسلام نے قرآن و سنت کے ذریعے خاندان کے ہر فرد کا کردار، اس کے حقوق و فرائض اور باہمی تعلقات کا ایک نہایت باریک مگر متوازن خاکہ پیش کیا ہے۔ گھر کو سکون، رحمت اور مودّت کا مرکز قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی تعلیمات میں گھریلو زندگی کو محض دنیاوی اور عارضی بندھن نہیں بلکہ ایک مقدّس معاہدہ تصور کیا گیا ہے۔ یاد رکھیں ! اس میں موجود حدود و قیود انسان کو قید نہیں کرتیں بلکہ ایک ایسے اخلاقی سانچے میں ڈھالتی ہیں جو انسانی زندگی کو ظاہری اور باطنی دونوں پہلوؤں سے بلند تر بناتی ہے۔ یہی تہذیب ِ خانہ انسان کو تہذیب ِ دنیا کا اہل بناتی ہے۔ گھریلو زندگی کی اہمیت کے پس منظر میں ہی شریعت اسلامیہ نے گھر کے آداب کو نہایت حکمت اور توازن کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لئے بہتر ہو، اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لئے بہتر ہوں۔ (ترمذی) اسلام نے والدین کو نہ صرف شفقت و محبت کا درس دیا ہے بلکہ ان کی تربیت کے ہر پہلو پر راہنمائی بھی فرمائی ہے۔ خاص طور پر بچوں کے حوالے سے یہ تعلیم دی گئی کہ سات سال کی عمر کے بعد ان کے بستر الگ کر دیئے جائیں (ابوداؤد)، تاکہ ان میں حیا، خودمختاری اور شخصی شعور پروان چڑھے۔ بچوں کی نفسیات اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انہیں عمر کے ہر مرحلے پر مناسب رہنمائی، حدود، اور ذاتی دائرہ دیا جائے، تاکہ وہ اعتماد، نظم و ضبط اور اخلاقی شعور کے ساتھ پروان چڑھیں۔ اسلام کی یہ باریک اور جامع ہدایات گھریلو فضا کو روحانیت، تہذیب اور امن کا گہوارہ بناتی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج کا معاشرہ اسلام کے بتائے ہوئے گھریلو آداب و اصول کو نظر انداز کرتا جا رہا ہے۔ اسلام نے گھر کو سکون، محبت، تربیت اور اخلاق کا مرکز قرار دیا تھا لیکن آج ہمارے گھروں میں ان بنیادوں کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ سب سے زیادہ غفلت بچوں کی تربیت کے معاملے میں برتی جارہی ہے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بچے محض چھوٹا جسم رکھنے والے افراد نہیں، بلکہ ان کی ذہنی اور جذباتی نشوونما مسلسل جاری رہتی ہے اور وہ ہر لمحہ اپنے ماحول سے سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ چاہے وہ چھوٹے ہوں یا عمر میں بڑے، ہم انہیں ہر وقت ’’بچہ‘‘ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ان کے سامنے ایسے موضوعات پر بات چیت کی جاتی ہے، یا ایسے امور انجام دیئے جاتے ہیں، جو ان کی عمر، ذہن اور نفسیاتی سطح کے لئے انتہائی مضر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرد و عورت کا غیر محتاط انداز میں گفتگو کرنا، یا لباس و طرزِ زندگی میں لاپروائی برتنا، بچوں کی ذہنی دنیا کو الجھا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کسی خاص عمر میں بچے کو کس طرح کی آزادی، ذمہ داری یا رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ان کے کمرے، بستر، مشاغل، اور گفتگو سب کچھ ایک بے ترتیب سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ نہ اپنی شخصیت کو سمجھ پاتے ہیں، نہ اعتماد حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ اخلاق و کردار کا نمونہ بن پاتے ہیں۔ اسلام نے جس طرح بچوں کے لئے تربیتی اصول، ادب، حیا، نظم و ضبط اور شخصی وقار کی تعلیم دی ہے، وہ سب کچھ ہمارے طرزِ عمل سے غائب ہوتا جا رہا ہے، جس کا نقصان صرف فرد کو نہیں بلکہ پورے معاشرے کو ہورہا ہے۔
جب گھریلو زندگی شرعی اصولوں کی روشنی سے محروم ہو جائے، تو اس کا نقصان فوری نہیں بلکہ رفتہ رفتہ ظاہر ہوتا ہے۔ ابتدا میں جو چیزیں معمولی لاپروائی یا وقتی سہولت محسوس ہوتی ہیں، وہی وقت گزرنے کے ساتھ بڑے اخلاقی، نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ بعد میں انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ آخر خرابی کہاں ہوئی؟ لیکن اس وقت تک دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ گویا گھریلو زندگی کا بے قابو ہونا ایک ایسا خاموش زہر ہے جو آہستہ آہستہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتا ہے اور آخرکار انسان کو اپنی کوتاہیوں پر افسوس اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
زیرِ نظر موضوع کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے سورۂ التحریم آیت ۶؍ کافی ہے:’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ ‘‘ یہ آیت دراصل اسلامی خاندانی نظام کی بنیاد ہے۔ اس میں جہاں فرد کو اپنی ذات کی اصلاح کی تاکید کی گئی ہے، وہیں اہلِ خانہ کی فکری، اخلاقی اور عملی تربیت کی مکمل ذمہ داری بھی اس کے کندھوں پر رکھی گئی ہے۔ اس میں براہِ راست یہ پیغام ہے کہ اگر گھریلو زندگی بے مہار، غیر مہذب اور غیر شرعی اصولوں پر چلے گی تو اس کا انجام صرف دنیاوی بگاڑ ہی نہیں بلکہ اخروی عذاب بھی ہو سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس طرح ہم اپنے بچوں کو باہر کی دنیا میں باادب، مہذب اور شائستہ بننے کی تلقین کرتے ہیں اسی طرح گھر کے اندر بھی انہیں ایسا ماحول فراہم کریں جو انہیں گھریلو اعتبار سے بھی مہذب اور با ادب بنائے!