Inquilab Logo Happiest Places to Work

۱۵۰۰؍ویں جشن میلا دپرعدل و انصافِ نبویؐ کی تعلیمات کا اعادہ کیجئے

Updated: August 08, 2025, 4:48 PM IST | Dr. Muhammad Hussain Mushahid Rizvi | Mumbai

 نبی کریم ﷺ کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا ظلم، استحصال، طبقاتی تفریق اور جبر کے اندھیروں میں گھری ہوئی تھی۔ عرب معاشرہ کمزوروں کی پستی اور طاقتوروں کی بالا دستی کا شکار تھا۔

In the light of the ideal of goodness, build a society where rich and poor, master and slave, man and woman all have equal rights. Photo: INN
اسوۂ حسنہ کی روشنی میں ایسا معاشرہ تعمیر کریں جہاں امیر و غریب، آقا و غلام، مرد و عورت سب کو برابر کا حق حاصل ہو۔ تصویر: آئی این این

 نبی کریم ﷺ کی بعثت ایسے وقت میں ہوئی جب دنیا ظلم، استحصال، طبقاتی تفریق اور جبر کے اندھیروں میں گھری ہوئی تھی۔ عرب معاشرہ کمزوروں کی پستی اور طاقتوروں کی بالا دستی کا شکار تھا۔ انصاف کا کوئی پیمانہ نہ تھا، طاقت ہی قانون تھی۔ ان حالات میں رسول اللہ ﷺ نے انسانیت کو ایسا آفاقی ضابطۂ حیات عطا فرمایا جو ہر مظلوم کے لئے ڈھارس اور ہر ظالم کےلئے للکار بن گیا۔ آپؐ نے صرف قول سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ایسا سماج تشکیل دیا جس میں ہر انسان کی عزت، جان، مال اور حق کو برابر کا درجہ حاصل تھا خواہ وہ قریشی ہو یا حبشی، آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت۔ 
 آپ ﷺ نے اعلان فرمایا: ’’لوگو! تمہارا رب ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے۔ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ ‘‘ یہ صرف ایک اعلان نہ تھا بلکہ پوری انسانی تاریخ میں عدل و مساوات کی بنیاد رکھنے والا انقلابی بیان تھا۔ معاشرتی سطح پر آپ ﷺ نے سب سے پہلے مظلوم طبقات کو تحفظ دیا۔ عورتوں کو وراثت، گواہی، رائے اور نکاح جیسے بنیادی حقوق دیئے گئے۔ بچوں کو پیار، تربیت اور احترام کا حقدار بنایا گیا۔ غلاموں کو آزادی اور برابری کی راہ دکھائی گئی حتیٰ کہ حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ جیسے سابق غلام کو مسجد ِ نبوی کی اذان جیسی عظیم سعادت عطا کی گئی جو اس بات کی علامت تھی کہ اسلام رنگ و نسل نہیں بلکہ کردار و تقویٰ کو معیارِ فضیلت سمجھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے عدل کا وہ نمونہ پیش کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ رسول اللہ ﷺ کے نظامِ عدل میں نہ رشتہ دیکھ کر فیصلہ ہوتا تھا، نہ دولت دیکھ کر، نہ شہرت دیکھ کر بلکہ خالص انصاف پر مبنی تھا۔ 
 معاشی میدان میں بھی آپ ﷺ نے استحصال کا دروازہ بند کیا۔ سود کو ظلم قرار دے کر اس کی جڑ کاٹ دی۔ زکوٰۃ کو لازمی قرار دے کر مال دار طبقے کو مجبور کیا کہ وہ غریبوں کا حق ادا کریں۔ آپ ﷺ نے ہر فرد کو معاشی تحفظ، روٹی، لباس اور رہائش کی ضمانت دی اور فرمایا کہ جو شخص شام کو اس حال میں ہو کہ اس کے پاس دن بھر کا کھانا ہو، تندرست ہو اور اس کے پاس رہنے کو جگہ ہو وہ ایسا ہے گویا اسے دنیا کی تمام نعمتیں مل گئیں۔ 
 نبی کریم ﷺ نے اجتماعی سطح پر بھی سماجی انصاف کو مضبوط کیا۔ مدینہ کے شہری معاہدے میں مسلمانوں، یہودیوں اور دیگر قبائل کو برابر کے شہری حقوق دیئے گئے۔ یہ انسانی تاریخ کی پہلی دستاویزی ریاستی مساوات کی مثال ہے جہاں اقلیتوں کو مذہبی آزادی، جان و مال کا تحفظ اور عدالتی برابری حاصل تھی۔ یہ تصور آج کے ترقی یافتہ ممالک کے آئین میں شامل ہے مگر اس کا اصل سرچشمہ نبی رحمت ﷺ کی سیرتِ طیبہ ہے۔ 
 آج جب دنیا پھر سے طبقاتی تعصب، نسلی امتیاز، معاشی ناانصافی اور سیاسی جبر کا شکار ہے، نبی کریم ﷺ کا پیغام ہمیں پکار رہا ہے کہ آئیں، اسوۂ حسنہ کی روشنی میں ایسا معاشرہ تعمیر کریں جہاں امیر و غریب، آقا و غلام، مرد و عورت سب کو برابر کا حق حاصل ہو اور انصاف صرف کتابوں میں نہیں بلکہ ہر دل کی دھڑکن بن جائے۔ جشن ِ میلاد کے اس ۱۵۰۰؍ سالہ موقع پر سب سے بڑی تجدید یہی ہو سکتی ہے کہ ہم نبی اکرم ﷺ کے سماجی انصاف کے اس پیغام کو پھر سے زندہ کریں، اپنی ذاتی، خاندانی اور قومی زندگی میں اس کو نافذ کریں اور دنیا کو بتائیں کہ اسلام عدل کا مذہب ہے اور محمد مصطفیٰ ﷺ عدل و رحمت کے نبی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK