Inquilab Logo

اپنی سرزمین، غیر ملکی یونیورسٹیاں

Updated: January 08, 2023, 11:05 AM IST | Mumbai

سرزمین ہند پر غیر ملکی یونیورسٹیوں (مثلاً ییل، آکسفورڈ اور اسٹنفورڈ) کی شاخیں قائم کرنے کی تجویز، تاکہ ہندوستانی طلبہ اپنے ہی ملک میں اِن غیر ملکی یونیورسٹیوں سے استفادہ کریں اور بڑے خرچ سے بچتے ہوئے اُن کی ڈگریاں ’’گھر بیٹھے‘‘ حاصل کریں، بظاہر دلخوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کیا یہ حقیقتاً اتنی دلخوش کن ہے

Oxford Universities
آکسفورڈیونیورسٹیوں

سرزمین ہند پر غیر ملکی یونیورسٹیوں (مثلاً ییل، آکسفورڈ اور اسٹنفورڈ) کی شاخیں قائم کرنے کی تجویز، تاکہ ہندوستانی طلبہ اپنے ہی ملک میں اِن غیر ملکی یونیورسٹیوں سے استفادہ کریں اور بڑے خرچ سے بچتے ہوئے اُن کی ڈگریاں ’’گھر بیٹھے‘‘ حاصل کریں، بظاہر دلخوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کیا یہ حقیقتاً اتنی  دلخوش کن ہے؟ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) کی یہ تجویز جب حتمی شکل اختیار کرلے گی تب اسے ایوان پارلیمان میں پیش کیا جائیگا تاکہ قانون بن سکے۔ اس سلسلے میں ہمارے معروضات حسب ذیل ہیں:
 کیا غیر ملکی یونیورسٹیوں کو اپنی سرزمین پر آنے کی دعوت دے کر ہم ہندوستانی یونیورسٹیوں کیلئے غیر ضروری مقابلہ آرائی پیدا نہیں کررہے ہیں؟ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کی یونیورسٹیوں کا تعلیمی معیار بلند کرنے پر غور کیا جاتا، ان یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ کی علمی لیاقت میں اضافہ کی بابت سوچا جاتا تاکہ وہ ملکی و غیر ملکی کمپنیوں میں ملازمت پانے کے قابل بنتے، دیسی یونیورسٹیوں کو زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کئے جاتے، ان کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جاتا اور انہیں غیر ملکی طلبہ کیلئے قابل رشک بنایا جاتا۔ ۲۰۱۹ء میں ہندوستان میں ۴۷؍ ہزار غیر ملکی طلبہ تھے اور کوشش یہ تھی کہ ۲۰۲۳ء تک اِن طلبہ کی تعداد میں کم و بیش پانچ گنا اضافہ ہو تاکہ مجموعی تعداد ۲؍ لاکھ ہو جائے۔ کیا ہم اس ہدف کو پانے میں کامیاب ہوئے؟ 
  غیر ملکوں میں تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی طلبہ کی تعداد ۲۰۱۹ء میں ۸؍ لاکھ تھی اور خیال کیا جارہا تھا کہ  ۲۰۲۳ء تک یہ تعداد بڑھ کر ۱۸؍ لاکھ ہوجائیگی۔  اتنی بڑی تعداد میں طلبہ بیرونی ملکوں کا رُخ کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ وہاں کے تعلیمی اخراجات کم ہیں۔ تو کیا ہم نے سوچا کہ ہندوستانی طلبہ کو ہندوستانی یونیورسٹیوں ہی میں داخلہ لینے کیلئے کیسے آمادہ کیا جاسکتا ہے؟ اگر فیس مسئلہ ہے تو فیس میں رعایت کیسے ہوسکتی ہے اور اگر معیار تعلیم مسئلہ ہے تو معیار تعلیم کی کیا ضمانت دی جاسکتی ہے؟ ہمارے خیال میں ان نکات پر سوچا جانا چاہئے تھا۔
  ہندوستانی طلبہ کا بیرونی ملکوں میں جانا ہندوستانی ذخیرۂ زرمبادلہ کا نقصان بھی ہے۔ ماہرین معاشیات کے نزدیک یہ ناگوار عمل ہے۔ اس کے علاوہ جب کسی پرائے ملک کے حالات خراب ہوتے ہیں تو ہمارے طلبہ کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد کیجئے گزشتہ سال فروری میں یوکرین کے خلاف روس کی جنگ شروع ہونے پر کیا ہوا تھا۔ اگر اپنی سرزمین پر اپنی ہی یونیورسٹی کی معیاری تعلیم کم خرچ میں میسر ہو تو اس سے بہتر کوئی آپشن طلبہ کے سامنے نہیں ہوسکتا۔ غیر ملکی یونیورسٹیاں مسئلہ کا حل نہیں ہیں۔
 ا س کے علاوہ: اگر غیر ملکی یونیورسٹیوں کی مانگ بڑھی تو ہندوستانی یونیورسٹیاں کیا کریں گی جہاں ویسے بھی بہت سے شعبے طلبہ کی کمی سے پریشان رہتے ہیں؟
 اگر غیر ملکی یونیورسٹیوں کی اندرون ملک شاخوں میں داخلہ لینے والے طلبہ کو ویسے اساتذہ میسر نہیں آئے جیسے کہ اپنے ملک میں ان یونیورسٹیوں کے اساتذہ ہیں تو کیا ہوگا اور ان کا کتنا اعتبار باقی رہ جائیگا؟اگر ان یونیورسٹیوں کی فیس غیر معمولی ہوئی تو کیا ہوگا؟ اگر یہ یونیورسٹیاں دیگر ملکوں میں برانچیں نہیں کھولتی ہیں تو ہندوستان میں کیوں کھولنا چاہتی ہیں؟ 
 یہ اور ایسے کئی سوالات ہیں جن کا جواب حاصل کرنا ضروری ہے۔ بہرکیف، ہمارا پہلا تاثر یہی ہے کہ یہ اپنی ہی یونیورسٹیوں کو ’’ڈی گریڈ‘‘ کرنے جیسا ہوگا۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK