Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی عدالت نے ٹرمپ کے غیر ملکی طلبہ ویزا معطل کرنے کے حکم نامے پر روک لگائی

Updated: June 06, 2025, 9:57 PM IST | Washington

امریکی عدالت نے ہارورڈ میں غیر ملکی طلبہ کے ویزا معطل کرنے کے ٹرمپ کے حکم نامے کو روک دیا، صدر نے یونیورسٹی میں نئے بین الاقوامی طلبہ کی آمد چھ ماہ کیلئے معطل کی تھی، جس میں توسیع ہو سکتی تھی۔

President of  America Donald Trump. Photo INN
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

  رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، امریکی عدالت نے جمعرات کو صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ان حکم ناموں کو روک دیا جن کے تحت ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم یا تبادلہ پروگراموں میں حصہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کے ویزےمعطل کیے گئے تھے۔ این بی سی نیوز کے مطابق، ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ یونیورسٹی کے بڑھتے ہوئے تنازع کے درمیان امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ کی جج ایلسن ڈی بروز نے عارضی روک لگانے کا حکم دیا ہے جو بدھ کے روز دستخط شدہ ’’صدارتی اعلان‘‘ پر عملدرآمد، نفاذ، برقرار رکھنے، نافذ کرنے یا اسے اثر پذیر بنانے‘‘سے کسی کو روکتی ہے۔ رائٹرز کے مطابق، یہ معطلی ابتدائی طور پر چھ ماہ کے لیے نافذ ہوتی جو بعد میں بڑھائی جا سکتی تھی۔ وائٹ ہاؤس نے مزید کہا کہ یونیورسٹی نے ’’غیر ملکی روابط اور انتہا پسندی کی تاریخ‘‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔
  یونیورسٹی نے جمعرات کو اس اقدام کو ’’غیر قانونی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ٹرمپ کے ساتھ وسیع تر تنازع کے دوران دائر کی گئی ایک مقدمے میں ترمیم کرکہ تازہ اعلان کو چیلنج کیا ہے۔  یونیورسٹی کے صدر ایلن ایم گاربر نے کہا کہ ’’بین الاقوامی طلبہ کی اندراج اور دنیا بھر کی دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ تعاون‘‘کی بنیاد پر ادارے کو نشانہ بنانا ، انتظامیہ کی ہارورڈ کے خلاف انتقامی کارروائی کا ایک اور غیر قانونی قدم ہے۔ انہوں نے ایک خط میں کہا: کہ ’’آج ہم نے اپنا مقدمہ ترمیم کیا ہے اور عدالت سے فوری طور پر اعلان کے نفاذ کو روکنے کا مطالبہ کریں گے۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت فوری طور پر کارروائی کرے گی۔‘‘ گاربر۲۲؍ مئی کو امریکی محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے یونیورسٹی کی بین الاقوامی طلبہ کے لیے تصدیق منسوخ کرنے کے فیصلے کے خلاف دائر مقدمے کا حوالہ دے رہے تھے۔۲۳؍ مئی کو، جج بروز نے اس منسوخی پر عارضی روک لگا دی تھی۔ ۲۲؍ مئی کی پریس ریلیز میں، محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی نے الزام لگایا تھا کہ’’ یونیورسٹی جوابدہ ٹھہرائی جا رہی ہے‘‘ کیونکہ وہ مبینہ طور پر چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ تعاون کر رہی تھی، اور کیمپس میں طلبہ کی جانب سے تشدد، یہود دشمنی اور دہشت گردی کی حمایت کو فروغ دے رہی تھی۔ ‘‘

یہ بھی پڑھئے: امریکہ نے آئی سی سی کے ججوں پر اسرائیل کے خلاف تحقیقات پر پابندیاں عائد کر دیں

ہارورڈ نے اپنے مقدمے میں زور دیا تھا کہ بین الاقوامی طلبہ کے داخلے کو روکنے کا انتظامیہ کا فیصلہ یونیورسٹی کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے کام کاج کو شدید طور پر متاثر کرے گا۔  یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق رواں تعلیمی سال میں۶۷۹۳؍ بین الاقوامی طلبہ زیر تعلیم تھے، جو کل طلبہ کا تقریباً ۲۷؍ اعشاریہ ۲؍ فیصد ہیں۔ اپریل میں، ٹرمپ انتظامیہ نے ہارورڈ امداد روک دی ساتھ ہی معاہدے منجمد کر دئے۔ بعد ازاں جب ادارے نے کیمپس پر اپنی پالیسیوں میں تبدیلی اور سرگرمیوں کو محدود کرنے کی ہدایات ماننے سے انکار کر دیا۔ جواب میں، یونیورسٹی نے فنڈز کی بحالی کے لیے ایک اور مقدمہ دائر کیا تھا۔  یہ کارروائی اس کے چند گھنٹوں بعد ہوئی تھی جب ہارورڈ نے وائٹ ہاؤس کی طرف سے یہود دشمنی کے خلاف جنگ اور یونیورسٹی کے انتظام، داخلہ اور ملازمت کے طریقوں میں اصلاحات کے لیے دی گئی شرائط کی ایک طویل فہرست کو مسترد کر دیا تھا۔  امریکی حکومت نے کہا تھا کہ اگر ہارورڈ تعمیل نہیں کرتا تو کل نو ارب ڈالر کے گرانٹس اور معاہدے خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے یونیورسٹی کی ٹیکس چھوٹ کی حیثیت منسوخ کرنے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ دیگر اقدامات میں کیمپس پر چہرے ڈھانپنے پر پابندی، تنوع، مساوات اور شمولیت کی سرگرمیوں کا خاتمہ، اور ان طلبہ کلبوں کی تسلیم شدہ حیثیت واپس لینا شامل تھے جن پر مجرمانہ سرگرمی، تشدد یا ہراسانی کو فروغ دینے کا الزام ہے۔ وائٹ ہاؤس کا موقف ہے کہ اسرائیل کی غزہ جنگ اور امریکی حمایت کے خلاف احتجاج کے دوران یونیورسٹیوں نے یہود دشمنی کو پروان چڑھنے دیا۔

یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی پر نئے بین الاقوامی طلباء کے داخلے پر پابندی لگا دی

واضح رہے کہ جنوری میں عہدہ سنبھالنے کے بعد سے، ٹرمپ بار بار کیمپس احتجاج، تنوع کے پروگراموں اور آزادی اظہار کے مسائل پر یونیورسٹیوں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ ہارورڈ ساتواں بڑا ادارہ ہے جس کے فنڈ انتظامیہ نے منجمد کیے ہیں۔ دیگر میں کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف پنسلوانیا، براؤن، پرنسٹن، کارنیل اور نارتھ ویسٹرن شامل ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK