Inquilab Logo Happiest Places to Work

وہ مٹی کی دنیا کتنی پیاری تھی؟

Updated: March 07, 2023, 1:41 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai

گزشتہ کالموں میں گھروندوں اور ننھے فنکاروں کا ذکر کیا گیا۔ سچ پوچھئے تو اس زمانے میں بچپن اور مٹی کا بہت گہرا رشتہ تھا۔اسی مٹی میں کھیلتے کھیلتے بچپن سے جوانی کا سفر طے ہوتا تھا، پتہ ہی نہیں چلتاتھا۔ گاؤں میں رہتے ہوئے ایک پل کیلئے بھی دھول

photo;INN
تصویر :آئی این این

گزشتہ کالموں میں گھروندوں اور ننھے فنکاروں کا ذکر کیا گیا۔ سچ پوچھئے تو اس زمانے میں بچپن اور مٹی کا بہت گہرا رشتہ تھا۔اسی مٹی میں کھیلتے کھیلتے بچپن سے جوانی کا سفر طے ہوتا تھا، پتہ ہی نہیں چلتاتھا۔ گاؤں میں رہتے ہوئے ایک پل کیلئے بھی دھول اور مٹی سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوتا تھا۔
 گزشتہ کالم میں ایک کان میں مرغا اور ایک کان میں مرغا ککڑککوں(ککڑوں کوں) کا ذکر کیا گیا۔اس پر کچھ گاؤں والوں نے توجہ دلائی کہ ان کے خطے میں بھی یہ دلچسپ کھیل کھیلا جاتا تھا۔بس اس کا انداز تھوڑا الگ ہوتا تھا۔ علقمہ سراج خان بتاتے ہیں کہ شاید ہم کہتے تھے ،’’یک کانم دال،یک کانم بھات، مرغا بولے ککڑککوں۔( ایک کان میں دال...ایک کان میں چاول... مرغا بولے ککڑککوں...)پھر ہم مٹی کے گولے کو پٹختے تھے۔ اس سے آواز آتی تھی: پٹ پٹ.......‘‘ 
 اس کے آگے کیا ہوتا تھا؟اس پر ابوبکر سلفی چودھری نے بتایا،’’آخر میں اپنے ہی پیروں سے کچلتے ہوئے: جے نہ کھووے  وکرے گھر میں سانپ و سانپ.. (جو اپنے کھلونے یا پٹاخے کو نہ مٹائے اس کے گھر میں سانپ ہی سانپ..)کہتے تھے۔‘‘
 اس کالم نگار نے اسی خطے کے ایک نوجوان سے اس کھیل کے بارے میں پوچھا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ کچھ دیر تک کالم نگار کا چہرہ دیکھتا رہا، پھر کہنے لگے کہ اچھا اب تک آپ کو یہ سب یاد ہے۔ یہ نوجوان سدھارتھ نگر کے گجرولیہ گاؤں کا  ہے، نام عبدالرحیم  ہے۔ اس نےاپنے حافظے پر زور دیا اور گویا ہوا،’’ہم نے بچپن میں گیلی مٹی کو زمین پر پٹخنے کا کھیل کھیلا ہے۔ مجھے  یاد ہے کہ چھٹی کا دن تھا، ہم بچے گھر کے سامنے نیم کے درخت کے نیچے میدان میں جمع ہوئے۔قریب میں بیل بندھے ہوئے تھے، وہیں ہل بھی رکھا ہواتھا،حالانکہ تھوڑے فاصلے پر ٹریکٹر بھی کھڑا تھا۔اس زمانے میں بیل سے زیادہ جتائی ہوتی تھی، ٹریکٹر کم کم دکھائی دیتا تھا۔ ہم بچے تالاب سے گیلی مٹی لائے، دیر تک اسے گوندھا۔اتنا کہ اس سے انگلیوں کی مدد سے  کھلونا بنایا جاسکے، گھروندا تیار کیاجاسکے۔ ہر بچے کی مٹی الگ الگ تھی۔مٹی سے پیالہ نما بناتے تھے۔پھر اسے زمین پر پٹختے تھے ، اس طرح اس مٹی کے  بیچ میں سوراخ ہوجاتا تھا، سوراخ کی مٹی غائب ہوجاتی تھی۔ اس خالی جگہ کو پر کرنے کیلئے بچے اپنے اپنےڈھیر سے تھوڑی تھوڑی مٹی جمع کرتےتھے، اسی سے سوراخ بھردیا جاتا تھا۔ یہ بہت خوبصورت روایت تھی۔تھوڑی تھوڑی مٹی سے ٹوٹا کھلوناپھر سے جڑ جاتا تھا۔ اس کھیل میں باہمی مدد کا جذبہ بھی شامل تھا،ایک منفرد احساس تھا، ننھے ایثار کی روایت تھی مگر بچپن میں ہم اس کھیل کا سب سے خوبصورت پیغام سمجھ نہیں پائے تھے۔ آج اس کا احساس ہورہا ہے۔ سوچتے ہیں کہ اس دور میں کوئی بچہ یہ کھیل کھیلتے ہوئے دکھائی دے تو ہم اسے بتائیں کہ اس کھیل کا پیغام کیا ہے؟ مگر اب تک کوئی ملا ہی نہیں،یہ تلاش جاری ہے،مایوس نہیں ہوا ہوں۔کبھی تو کوئی کہیں نہ کہیں ملے گا ہی،میری بھی شادی ہوگئی ہے۔ وقت ملا یا یاد رہا تو اپنی اولاد ہی کو اس کھیل کا یہ پیغام بتادوں گا۔یہ امانت ہے۔ ‘‘
 اس دور کی نانیاں دادیاں مٹی سے برتن اور کھلونا بنانا چاہتی ہیں مگر ان کا ساتھ دینے والا کوئی ملتا ہی نہیں۔ ایسی ہی ایک نانی دادی کہتی ہیں،’’ہم لوگ سب کچھ مٹی سے بناتے تھے، ہمارے سب کھلونے مٹی ہی کے ہوتے تھے۔  ہم سلوٹا،بیلن، توا، بھگونا اور چمچ وغیرہ بناتے تھے۔ انہیں سجاتے سنوارتے تھے، ان پر بیل بوٹے اورنقش ونگار بناتے تھے۔ میں آج بھی یہ کھلونے بناسکتی ہوں بلکہ بنانا چاہتی ہوں مگر اس  دور کے’ چالاک بچوں‘ کو موبائل سے فرصت ہی نہیں ملتی کہ وہ میرے پاس آئیں اور کھلونے بنانے کی ضد کریں۔کاش کوئی بچہ تو آتا اور یہ خوبصورت روایت یاد دلاتا۔ بڑھاپے میں کچھ لمحےکیلئے بچپن کے ساتھ جینے کا بہانہ بنتا۔ ہم تو چولہا بنانے کی مٹی لے کر اپنی دادی، نانی،ماں، بہن اور خالہ  وغیرہ کے پاس پہنچ جاتے تھے بلکہ دھرنا دے دیتے تھے۔ ان سے ضد کرکے گھروندے اور مٹی کے برتن بنانا سیکھتے تھے۔ ایک دو بار وہ بناتی تھیں،پھر ہم اس کے ماہر ہوجاتے تھے۔ جب وہ مٹی کے برتن بناتی تھیں ، بچے  بہت دھیان سے  انہیںدیکھتے تھے بلکہ اس میں کھو جاتے تھے، پلک جھپکانا تک بھول جاتے تھے۔اس طرح تخلیقی صلاحیت پروان چڑھتی تھی۔ جب ہم اپنے کھلونے بڑوں بوڑھوں کو دکھاتے تو ہمیں سکھانے والوں کا ردعمل بالکل ویساہی ہوتا تھاجیسا کسی استاد کا اپنے شاگرد کے کارنامے دیکھ کر ہوتا ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK