Inquilab Logo Happiest Places to Work

ریلوے انتظامیہ سے سوال کیا گیا کہ ناقص منصوبہ بندی کب تک جانیں لے گی؟

Updated: June 18, 2025, 9:56 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

لوکل ٹرینوں میں لٹک کر سفر کرنا ممبئی واسیوں کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے، سرکار اقدامات اٹھانے اور حالات کو بہتر بنانے کا اعلان کرتی ہے لیکن عملی طور پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

People in Mumbai and its suburbs have come to terms with the fact that they have to travel in local trains hanging like this. Photo: INN.
لوکل ٹرینوں میں اس طرح لٹک کرسفر کرنے کو ممبئی اورمضافات کے لوگوں نے اپنی قسمت سمجھ لیا ہے۔ تصویر: آئی این این۔

ممبئیکی لائف لائن کہی جانے والی لوکل ٹرین درحقیقت موت کا دلدل بنتی جارہی ہے جس میں ہر سال ہزاروں افراد دھنستے چلے جارہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ممبرا اور دیوا ریلوے اسٹیشنوں کے درمیان ہوئے دلخراش حادثے میں چار قیمتی جانیں چلی گئیں۔ جو بچ گئے وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ لوکل ٹرینوں میں لٹک کر سفر کرنا ممبئی واسیوں کی زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔ جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے، سرکار اقدامات اٹھانے اور حالات کو بہتر بنانے کا اعلان کرتی ہے لیکن عملی طور پر کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ متعلقہ حکام نہ مضافاتی ٹرینوں میں سفر کرنے والے مسافروں کے درد اور تکلیف سے واقف ہیں، نہ ہی ممبرا سانحہ میں جان گنوانے والوں کے تئیں انہیں کوئی ہمدردی ہے۔ 
ریل انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی
سامنا(مراٹھی، ۱۱؍جون)
’’پیر کو ممبرا میں پیش آنے والے ہولناک حادثے نے ایک بار پھر ظاہر کردیا کہ لوکل ٹرینوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی زندگی کتنی ارزاں ہے اور وزارت ریلوے مسافروں کی حفاظت کے تئیں کتنی بے حس اور لاپروا ہے۔ مسافروں اور مسافر تنظیموں نے ممبرا اسٹیشن کے قریب ’خطرناک موڑ‘ کے بارے میں ریلوے انتظامیہ کو بارہا متنبہ کیا مگر ریلوے انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ ریلوے کے ناقص انتظام کی وجہ سے چار معصوم مسافروں کی جانیں چلی گئیں۔ دیگر۹؍ مسافر موت سے جنگ لڑ رہے ہیں۔ لوکل ٹرینوں میں لٹک کر سفر کرنے والے مسافروں کو معلوم ہوتا ہے کہ چند لمحات کا سفر ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے لیکن ریلوے انتظامیہ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اب پیر کو ہوئے حادثے کے بعد ریلوے انتظامیہ بیدار ہوا ہے لیکن کیا چار زندگیاں واپس آئیں گی؟کیا اہل خانہ کا غم ہلکا ہوگا؟ریلوے انتظامیہ بے قابو بھیڑ کا حوالہ دے کر اپنی جواب دہی سے بچنا چاہتا ہے۔ ریلوے کے پاس تکنیکی اور دیگر حدود ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ریلوے انتظامیہ مسافروں کو چھوڑ دے اور یہ کہہ کر اپنی ذمہ داری سے بچے کہ ` مسافر اپنی جان کی حفاظت خود کریں۔ ایک جانب ہم فخر سے کہتے ہیں کہ لوکل ٹرین ممبئی کی لائف لائن ہے تو دوسری جانب اسی لوکل ٹرین سروس میں شرح اموات۳۸ء۸؍ فیصد ہے۔ یہ تضاد کیوں ؟‘‘
یہاں انسانی جان سستی اور زمین مہنگی ہے
سکال( مراٹھی، ۱۰؍جون)
’’ممبئی کو `خوابوں کا شہر کہا جاتا ہےلیکن خوابوں کا یہ شہر ہر روز اوسطاً۸؍ خاندانوں کے خواب کو راکھ کے ڈھیر میں بدل دیتا ہے اور اس کی ذمہ داری ممبئی کے مضافاتی ریلوے(لوکل)پر عائد ہوتی ہے۔ ریلوے پولیس کی رپورٹ کے مطابق پچھلے دس برسوں میں لوکل ٹرینوں میں سفر کے دوران اوسطاً ۸؍ سے ۹؍ افراد کی موت واقع ہوئی ہے۔ لوکل ٹرین میں لٹک کر سفر کرنے والوں کی موت پیرکو ہوئے حادثےکی ایک کڑی ہے۔ اگر ہم دنیا بھر میں پبلک ٹرانسپورٹ سروسیز پر نظر ڈالیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ممبئی کی لوکل سب سے زیادہ مہلک پبلک ٹرانسپورٹ سروس ہے۔ ممبئی کی یہ قابل رحم صورتحال روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ممبئی واسیوں نے برداشت کرنے کی ذہنیت کے ساتھ کیڑے مکوڑوں کی طرح زندگی گزارنا قبول کرلیا ہے۔ یہاں انسانی جان سستی اور زمین مہنگی ہے۔ خاندان کی کفالت کا واحد ذریعہ ملازمت ہے۔ اسلئے خاندان کا کمانے والا شخص ٹرین میں لٹک کر اپنی جان خطرے میں ڈال کر روزانہ سفر کرتا ہے۔ یہ سب غیر انسانی ہے۔ اسے چھپانے کیلئے سسٹم اسے’ممبئی اسپرٹ‘ کا نام دیتا ہے۔ ممبئی کے مضافاتی علاقوں سے روزانہ تقریباً ۶۵؍ لاکھ لوگ لوکل ٹرین سے سفر کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ مسافر لوکل ٹرین کا استعمال صبح ۸؍ سے ۱۰؍بجے اور شام ۶ ؍سے ۸ ؍بجے کے درمیان کرتے ہیں۔ اگر ہم حادثات کے اوقات کو دیکھیں تو۸۰؍ فیصد حادثات انہی اوقات میں ہوتے ہیں۔ دفتری اوقات میں تبدیلی کی جائے تو یہ مسئلہ کسی حد تک حل ہوسکتا ہے۔ ‘‘
زیادہ سے زیادہ ٹرینیں چلانے کی کوشش کی جائے
لوک مت سماچار(ہندی، ۱۱؍جون)
’’تھانے میں لوکل ٹرین سے گر کر ۴؍ مسافر ہلاک ہوگئے۔ چونکہ مسافروں کے گرنے کا یہ واقعہ تھوڑا مختلف انداز میں پیش آیا ہے، اسلئے اتنا ہنگامہ برپا ہوا۔ ورنہ ممبئی میں لوکل ٹرینوں سے گر کر روزانہ اوسطاً ۵؍ افراد کی موت ہوتی ہے لیکن کوئی ہنگامہ برپا نہیں ہوتا۔ جو لوگ کام کے سلسلے میں یا جو طلبہ پڑھائی کیلئے گھروں سے نکلتے ہیں، ان میں سے ۵؍ یمراج کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ صبح اور شام کے اوقات میں لوکل ٹرینوں میں سوار ہونا بڑی جانبازی کا کام ہوتا ہے۔ لیکن لوگ کیا کریں ؟ کام کی جگہ اور گھر کے درمیان فاصلہ طے کرنے کا یہ ایک سستا ذریعہ ہے۔ لوکل ٹرینوں سے یومیہ اوسطاً ۸۰؍ لاکھ لوگ سفر کرتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ہی ممبئی لوکل میں کئی تبدیلیاں آئی ہیں لیکن کیا یہ تبدیلیاں ضرورت کے مطابق ہوئی ہیں ؟ وقت کا تقاضا ہے کہ مستقبل کی ضرورتوں کو ذہن میں رکھ کر ابھی سے انتظامات کئے جائیں لیکن موجودہ لوکل سروس کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا ہے۔ 
 جب حالات بے قابو ہوجائیں، مسئلہ سنگین ہوجائے، تنقیدیں شروع ہوجائیں تب کہیں جاکر منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر لوکل ٹرینوں کے چلنے میں وقت کا فرق لیں۔ کافی عرصے سے لوکل ٹرینیں ۱۸۰؍ سیکنڈ کے وقفے سے چل رہی ہیں۔ ریلوے انتظامیہ کو چاہئے کہ وقت کا فرق کم کرکےزیادہ سے زیادہ ٹرینیں چلانے کی کوشش کرے۔ ‘‘
لوکل ٹرینیں تین سے چار گنا زیادہ بھری رہتی ہیں 
دی ہندوستان ٹائمز( انگریزی، ۱۱؍جون)
’’۱۷۲ سال قبل ہندوستان کی پہلی لوکل ٹرین بوری بندر سے تھانے کے درمیان چلی تھی تب سے ریل کا یہ نیٹ ورک شہر کی لائف لائن بنا ہوا ہے۔ لیکن پیر کو ہونے والا حادثہ، جس میں چار لوگوں کی جان چلی گئی، اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ لاکھوں مسافروں کیلئے روزانہ کا سفر کتنا خطرناک ہے۔ جن ٹرینوں کی گنجائش ۲۵۰۰؍ مسافروں کی ہوتی ہے وہ تین سے چار گنا زیادہ بھری رہتی ہیں۔ اسلئے دنیا میں سب سے زیادہ بھیڑ ممبئی کی لوکل ٹرینوں میں پائی جاتی ہے۔ ممبئی شہر میں جائیدادوں کی بڑھتی قیمتوں نے بیشتر متوسط طبقے کو شہر سے دور دھکیل دیا ہے۔ ٹٹوالا، بدلاپور، دیوا، کلیان اور کرجت جیسے مضافاتی علاقوں میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے کیونکہ ان جگہوں پر مناسب دام میں گھر مل جاتا ہے۔ تاہم یہ سب علاقے بہتر ٹرانسپورٹ کی سہولت سے محروم ہیں۔ بیسٹ کی سروس کا دائرہ محدود ہے۔ وہاں پر نہ ایسی سڑکیں ہیں جو دور درازے کے مسافروں کے سفر کو آسان بنا سکیں نہ ہی اور کوئی انتظام۔ میٹرو ٹرین کے پروجیکٹ کاغذوں تک محدود ہیں لہٰذا وہاں رہنے والوں کیلئے لوکل ٹرین ہی سفر کا واحد ذریعہ ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK