Inquilab Logo

بینکوں پر یہ کیسی اُفتاد؟

Updated: March 09, 2020, 9:43 AM IST | Editorial

مرکزی وزارت مالیات ایک نہیں پچاس مرتبہ کہے کہ معیشت اپنے بنیادی معیارات پر پورا اُتر رہی ہے اور ایسی کوئی بات نہیں ہے جسے تشویشناک قرار دیا جائے تب بھی اس کی یقین دہانی پر اعتبار کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے ایک نہیں کئی اسباب ہیں۔ کوئی سیکٹر ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی اُمید افزا ہو۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کا گراف اگر بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت ہی اوپر اُٹھا ہو۔ شرح نمو جو معیشت کا چہرہ ہوتی ہے اُس کا پست ہونا پورے نظام کی خستہ حالی کی چغلی کھاتا ہے۔

Yes Bank - Pic : INN
ایس بینک ۔ تصویر : آئی این این

 مرکزی وزارت مالیات ایک نہیں پچاس مرتبہ کہے کہ معیشت اپنے بنیادی معیارات پر پورا اُتر رہی ہے اور ایسی کوئی بات نہیں ہے جسے تشویشناک قرار دیا جائے تب بھی اس کی یقین دہانی پر اعتبار کرنا مشکل ہوگا۔ اس کے ایک نہیں کئی اسباب ہیں۔ کوئی سیکٹر ایسا نہیں ہے جس کی کارکردگی اُمید افزا ہو۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کا گراف اگر بہت زیادہ نہیں تو تھوڑا بہت ہی اوپر اُٹھا ہو۔ شرح نمو جو معیشت کا چہرہ ہوتی ہے اُس کا پست ہونا پورے نظام کی خستہ حالی کی چغلی کھاتا ہے۔ بینک کاری کا ہمارا شعبہ ہمیشہ مستحکم اور توانا رہا۔ ہرچند کہ گلوبل ۱۰۰؍ یا گلوبل ۱۵۰؍ میں ہمارے بینکوں کی تعداد کم رہی مگر اس کی اور بھی وجوہات تھیں تاہم بینکوں کی مجموعی ساکھ اس طرح کھوکھلی نہیں ہوئی تھی جس طرح گزشتہ چند سال میں ہوئی ہے۔ ۲۰۔۲۰۱۹ء کے معاشی سروے میں کہا گیا تھا کہ دُنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کے کم از کم ۶؍بینکوں کو گلوبل ۱۰۰؍ میں جگہ ملنی چاہئے مگر نہیں ملتی۔ اس فہرست میں شامل اسٹیٹ بینک کو ۵۵؍ واں مقام حاصل ہے۔
  موٹے طور پر اگر یہ توقع کی جائے کہ دُنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت کے سب سے بڑے بینک کو ۵؍ واں مقام حاصل ہو تو یہ قابل قدر ہوگا، ۵؍ واں نہیں تو ۱۵؍ واں قابل ذکر ہو گا، یہ بھی نہیں تو ۲۵؍ واں مقام غنیمت ہوگا مگر یہ مقام بھی نہ ملے تو سوچنا چاہئے کہ اتنی بڑی معیشت پر کتنی توجہ ضروری ہے۔ 
 حالیہ برسوں میں بینکوں کی خستہ حالی کی ایک وجہ غیر فعال اثاثہ جات ہیں جن کا حجم سال بہ سال بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سابق وزیر مالیات پی چدمبرم چونکہ اپوزیشن میں ہیں اس لئے اُن کی ہر بات کا مسترد کردیا جانا ٹھیک نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں اُنہوں نے بینکوں کے غیر فعال اثاثہ جات (این پی اے) کے اعدادوشمار ٹویٹ کئے اور بتایا کہ ۲۰۱۴ء میں جب یو پی اے کا اقتدار ختم ہوا، تب غیر فعال اثاثے ۵۵؍ ہزار ۶؍ سو ۳۳ ؍کروڑ روپے تھے جو ۲۰۱۹ء میں ۲؍ لاکھ ۴۱؍ ہزار ۴۹۹؍ کروڑ روپے ہوگئے۔ محض چند برسوں میں یہ حالت بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ بادی النظر میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ بینکوں کے انتظامیہ اُن اُصولوں اور ضابطوں کی پابندی نہیں کررہے ہیں۔ یہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ وزارت مالیات اپنے فرائض کو بحسن و خوبی ادا کرنے میں ناکام ہے۔ کسی بھی چیز کو بنانے میں برسوں لگ جاتے ہیں مگر اس کے بکھرنے میں وقت نہیں لگتا۔ بینکنگ سیکٹر کم وقت میں اپنی آب و تاب کھو رہا ہے۔ اسے بچانا ازحد ضروری ہے۔ 
 اس موڑ پر حکومت کو دو کام تو لازماً کرنے چاہئیں۔ ایک تو یہ کہ گزشتہ چھ برس میں غیر فعال اثاثہ جات کے مذکورہ بالا اضافے کا اعتراف کرے اور دوئم یہ بتائے کہ وہ کون لوگ یا کمپنیاں ہیں جنہوں نے بڑی بڑی رقومات بطور قرض حاصل کیں اور جب وہ ڈیفالٹر ہوئیں تو اُن کے خلاف کیا کارروائی کی گئی۔ اس ڈیفالٹ کی وجہ سے بینکوں میں نقدی کے لالے پڑے جیسا کہ فی الحال یس بینک میں ہورہا ہے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے ڈیفالٹرس دھوکہ باز ہیں مگر ان میں یقیناً کئی بدنیت ہوں گے۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ ہم نے تالاب میں جال اُس وقت ڈالا جب بڑی بڑی مچھلیاں خطیر رقموں کے ساتھ تیر کر کسی دوسرے تالاب میں پہنچ چکی تھیں چنانچہ جان پر بنی اُن چھوٹی مچھلیوں کی جن میں سے بیشتر کا مقصد دھوکہ دینا نہیں تھا ۔ معلوم ہوا کہ طرم خاں بڑا گھپلہ کرکے نکل گئے اور وصولی افسران پہنچے چھوٹے خاں کے گھر پر۔ اکثر یہی ہوا ہے۔ کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ حکومت بڑا قرض لینے والوں پر نظر رکھے؟ وہ چاہے ’’یس‘‘ ہو یا کوئی اور بینک۔ تشویش کا امر یہ ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ اس سے قبل پنجاب اینڈ مہاراشٹر کو آپریٹیو (پی ایم سی) بینک بھی بڑے بحران سے گزرا۔ لگتا ہے حکومت یہ سمجھنا نہیں چاہتی کہ ایسے بحرانوں سے ہونے والی اعتماد شکنی بڑے گھپلوں سے بھی کئی گنا بڑا مسئلہ ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK