اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، ہولوکاسٹ اسکالر عمر بارتوف نے نیویارک ٹائمز میں شائع ایک مضمون میں لکھا کہ میں نسل کشی کا محقق ہوں۔ جب دیکھتا ہوں تو پہچان لیتا ہوں۔
EPAPER
Updated: July 16, 2025, 10:06 PM IST | Washington
اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے، ہولوکاسٹ اسکالر عمر بارتوف نے نیویارک ٹائمز میں شائع ایک مضمون میں لکھا کہ میں نسل کشی کا محقق ہوں۔ جب دیکھتا ہوں تو پہچان لیتا ہوں۔
نسل کشی کے ایک سرکردہ محقق اور ہولوکاسٹ مورخ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیل محصور غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔نیو یارک ٹائمز میں لکھتے ہوئے، ڈاکٹر عمر بارتوف نے کہا کہ اسرائیلی فوجی حملوں کے پیمانے اور ارادے کو بین الاقوامی قانون کے تحت جواز نہیں دیا جا سکتا۔مئی۲۰۲۴ء تک، رفح کی بڑے پیمانے پر تباہی اور دس لاکھ سے زیادہ فلسطینیوں کو مَوّاسی ساحلی علاقے میں جبری بے دخلی کے بعد، ان کا نتیجہ تھا کہ اسرائیل کے اقدامات غزہ کو غیر آباد بنانے کی منظم مہم کی نشاندہی کرتے ہیں۔ بارتوف نے لکھاکہ ’’اس وقت، اس بات سے انکار کرنا ناممکن لگتا تھا کہ اسرائیلی فوج (آئی ڈی ایف) کی جارحیت کا نمونہ اسرائیلی لیڈروں کے نسل کشی کے ارادے کی عکاسی کرنے والے بیانات سے ہم آہنگ ہے۔‘‘ انہوں نے ارادے کے ثبوت کے طور پر اسرائیلی سیاسی اور فوجی اہلکاروں کے متعدد عوامی بیانات کا حوالہ دیا۔وزیر اعظم نیتن یاہو نے عہد کیا کہ دشمن کو ’’بھاری قیمت‘‘ چکانی پڑے گی اور غزہ کے رہائشیوں سے کہا کہ ’’ابھی چلے جائیں کیونکہ ہم ہر جگہ زوردار کارروائی کریں گے۔‘‘
انہوں نے بائبل کی امّالِق کی کہانی کا بھی حوالہ دیا جس کی تعبیر اکثر پوری آبادی کو ختم کرنے کے مطالبے کے طور پر کی جاتی ہے — نیز ’’غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنانے‘‘کے وعدے بھی کیے۔دیگر اہلکاروں نے اشتعال انگیز زبان استعمال کی، بشمول فلسطینیوں کو ’’انسانی جانور‘‘کہنا اور’’مکمل فنا‘‘ کے مطالبے۔اسرائیلی پارلیمان کے ایک سینئر رکن، نسیم وطوری نے لکھا کہ’’ اسرائیل کا کام غزہ پٹی کو زمین کے نقشے سے مٹا دینا ہونا چاہیے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ: قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے غیر معمولی جینیاتی تبدیلیوں کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں
بارتوف نے دلیل دی کہ ایسی خطابت، اسرائیلی فوجی حملوں کے ساتھ مل کر منظم بمباری، شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانا، اور ایسی صورتحال پیدا کرنا جس سے غزہ میں زندگی گزارنا ناممکن ہو نسل کشی کے ارادے اور عمل کے واضح ثبوت ہیں۔انہوں نے لکھا’’میرا خیال ہے کہ مقصد تھا — اور آج بھی ہے — کہ پوری آبادی کو پٹی چھوڑنے پر مجبور کیا جائے یا،بمباری اور شدید محرومی کے ذریعے اس خطے کو کمزور کیا جائے، تاکہ غزہ کے فلسطینیوں کے لیے ایک گروہ کے طور پر اپنی موجودگی برقرار رکھنا یا دوبارہ قائم کرنا ناممکن ہو جائے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: غزہ کی صورت حال ’’انتہائی سنگین‘‘: یورپی یونین کی خارجہ پالیسی سربراہ
نسل کشی کا اذیت ناک ادراک
بارتوف نے اس نتیجے پر پہنچنے کو اذیت ناک اور گہرا ذاتی تجربہ قرار دیا۔انہوں نے کہاصیہونی گھرانے میں پلنے بڑھنے، اپنی زندگی کا پہلا نصف حصہ اسرائیل میں گزارنے، اسرائیلی فوج میں خدمات انجام دینے، اور اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا بیشتر حصہ جنگی جرائم اور ہولوکاسٹ پر تحقیق و تحریر میں گزارنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا میرے لیے تکلیف دہ تھا، اور میں نے جتنی دیر ممکن ہو سکا اس کی مزاحمت کی۔لیکن میں پچھلی پون صدی سے نسل کشی پر کلاسیں پڑھا رہا ہوں۔ جب دیکھتا ہوں تو پہچان لیتا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ ان کی تنبیہ ایسے وقت سامنے آئی ہے جب نسل کشی اور بین الاقوامی قانون کے محققین کی بڑھتی ہوئی تعداد اسی طرح کے نتائج پر پہنچ رہی ہے۔ان میں مقبوضہ فلسطینی علاقوں کی اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر فرانسسکا البانیز، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی تنظیمیںشامل ہیں۔جنوبی افریقہ نے بین الاقوامی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ بارتوف کے مطابق، اسرائیل کے اقدامات اب جنگ کی حدود سے بھی تجاوز کر گئے ہیں، کیونکہ فوج اب کسی منظم فوجی قوت سے نہیں لڑ رہی بلکہ ’’تباہی اور نسلی صفائی‘‘ میں مصروف ہے — ایسی کارروائیاں جن کا مقصد غزہ کو غیر آباد کرنا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ حکومتوں، اداروں اور ہولوکاسٹ اسکالرز کی جانب سے اسرائیل کے طرز عمل کو تسلیم کرنے سے مسلسل انکار پورے ہولوکاسٹ کے بعد کے بین الاقوامی قانونی فریم ورک کو کمزور کرنے کا خطرہ ہے۔انہوں نے لکھا: ’’یہ اخلاقی نظام کی بنیادی قدروں کے لیے خطرہ ہے جس پر ہم سب انحصار کرتے ہیں۔‘‘