یہ ایک ایسے گاؤں کا ذکر ہے جو لب سڑک ہے، گاؤں درختوں اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے۔
EPAPER
Updated: March 20, 2023, 2:07 PM IST | Hamza Fazal Islahi | Mumbai
یہ ایک ایسے گاؤں کا ذکر ہے جو لب سڑک ہے، گاؤں درختوں اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے۔
یہ ایک ایسے گاؤں کا ذکر ہے جو لب سڑک ہے، گاؤں درختوں اور کھیتوں سے گھرا ہوا ہے۔ گلی محلے میں جابجا گلاب، بیل،چمیلی،امرود ، پپیتا، املی، نیم ، ببول،بیر اور لیمو وغیرہ کے درخت ہیں۔لمبے تڑنگےبانس بھی لہلہا رہے ہیں،گاؤں والوں کی زبان میں کہیں تو ’بانس کی کھونٹاں‘ بھی ہیں،گویا ہر طرف ہریالی ہے، شادابی ہے۔ یہ تصویر اسی گاؤں کے آنگن کی ہے جو بدلتے بدلتے بہت بدل گیا مگر اس کا ’آنگن پن‘ اب بھی باقی ہے۔ پرانے آنگن کی روح زندہ ہے۔ اس انگنائی میں اب بھی بہار کے موسم میں بہار آتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ اب اس موسم میں آنگن میں اس طرح کی چہل پہل نہیں رہتی، گھر کا ہرفرد ہاتھ نہیں بٹاتا،بچوں میں وہ جوش وخروش نظر نہیں آتا جو کبھی گاؤں دیہاتوں کے آنگن کاخاصہ ہوا کرتا تھا، تیوہار جیسا ماحول ہوتاتھا۔فروری کے بعد سے کھیتوں سے کٹ کر ایک ایک کرکےفصلیں آنے لگتی تھیں ، پھر اپریل اور مئی کی جھلسا دینے والی گرمی میں آنگن خالی نہیں رہتا تھا۔ چلئے اب اس آنگن کی سیر کرتے ہیں۔ اس آنگن کے دو کناروں پر امرود کے درخت ہیں۔ ایک لیمو کا درخت ہے، ایک الویرا کا پودا ہے۔ اس آنگن میں سب سے بڑا بوڑھا’پیپ‘(ہینڈ پمپ) ہے جو پہلے کھلے میں تھا، پھرکچی دیواریں اٹھیں، اس طرح وہ کچے آنگن کا حصہ بن گیا۔پھر کچی دیوار یںگرا دی گئیں، پکی دیوار اٹھائی گئیں۔ اب یہ ہینڈ پمپ اسی پکے آنگن کا حصہ ہے، اس کا پڑوسی امرود ہے جو اسے دھوپ سے بچاتا ہے۔دھوپ کیا؟دن رات اس کے سر پہ سوار رہتا ہے؟ ایک پل کیلئے بھی دونوں کا ساتھ نہیں چھوٹتا۔ کوئی چڑ یا پہلے درختو ں پرآتی ہے ، سستاتی ہے ، دم لیتی ہے ، پھر ہینڈ پمپ کے نیچے جمع پانی سے اپنی پیا س بجھاتی ہے اور پھر امر ود کے درخت پر بیٹھ جاتی ہے۔ ۱۵؍ مارچ کی شام تھی، اس آنگن کی دھو پ جاچکی تھی ۔ آنگن کی پیلی ترپال پر سرسوں پھیلائی گئی تھی ۔ قریب میں ایک پنکھا رکھا ہوا تھا جو شاید سر سوں کو صاف کرنے میں استعمال کیا گیا ہوگا۔ آنگن صاف تھا، جھاڑو دیا گیا تھا ، ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی ، ایک کونے میں وائپر رکھا تھا ، آنگن کے ایک طرف ٹب رکھا ہوا تھا، ایک پلاسٹک کی گیند لڑھک رہی تھی ۔ آنگن میں درختوں کی ایک بھی پتی نہیں تھی ۔یہی پت جھڑ کے موسم میں بار بار جھاڑو دینے کے باوجودایک آدھ پیتا ں کہیں نہ کہیں نظر ہی آجاتی تھیں مگر موسم بہار میں آنگن کی تصویر بالکل مختلف تھی ۔
کسی زمانے میں یہ آنگن کچا تھا ،کھپریل کی چھت تھی۔ امرود اور لیمو کے ساتھ ساتھ املی او ر گولر کے درخت بھی اس کی زینت بڑھاتے تھے ، اس کے حسن کو دوبالا کرتے تھے۔ درخت کے نیچے چارپائیاں بچھتی تھیں ، گھر کی عورتیں اس کے نیچے بیٹھ کر کام کا ج کرتی تھیں ۔ اس زمانے میں فرصت سے بیٹھ کر باتیں کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا ، اتنا کام ہوتا تھا کہ کوئی اپنا ہاتھ روکتا ہی نہیں تھا ۔ کا م کرتے کرتے بہت ساری باتیں ہوجاتی تھیں۔ گرمیوں کی دوپہر میں درخت کے نیچے کچھ دیر سستانے کا بھی چلن تھا ۔ یعنی کچھ ہو یا نہ ہو قیلولہ ضروری سمجھا جاتا تھا۔ دوپہر میں سونے سے پہلے بھی تھوڑی بہت بات چیت ہوتی تھی۔ ہنسی مذاق ہوتا تھامگر یہ وقفہ بہت مختصر ہوتا تھا۔
بتاتےہیںکہ کچے آنگن کا منظر بالکل مختلف ہوتا تھا۔ سردی کے بعد جیسےہی دھوپ کی نرمی ختم ہوتی تھی،اس میں تھوڑی سی تمازت آجاتی تھی ، آنگن آباد ہونے لگتے تھے ۔ایک طرف مرچی کا اچار بنتا تھا ، ایک طرف لیمو کا .. پاپڑ ڈالی جاتی تھی، بری بننے لگتی تھی۔ موسم بہار میں ایک دن بھی آنگن خالی نہیں رہتا تھا ۔ اس کے بعد ایک ایک کرکے فصلیں آنے لگتی تھیں، سب سے پہلے مٹر آتی تھی ، پھرسرسوں ، چنا اور دھنیا .... ۔ موسم بہار تک اس کاسلسلہ چلتا رہتا تھا ، پھر اپریل میں گیہوںآتا تھا، پیاز اور لہسن بھی ..... مئی کی چلچلاتی دھوپ میں دوپٹے پر آم کا اچار پھیلا رہتا تھا، کھٹائی بھی سوکھتی تھی ۔
گاؤں کی ایک لڑکی اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہے ، ’’ وہ بھی کیا دن تھے؟ سنہرے دن ... لوگ دن رات کام کرتے تھے ۔ بچے بھی ان کا ساتھ دیتے تھے ، مزدور بھی لگے رہتے تھے۔ ہرطرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوتی تھیں۔موسم بہار میں تیو ہا ر جیسا ماحول ہوتا تھا ، پورے گاؤں میں چہل پہل رہتی تھی۔ بار ہ تیرہ سال پہلے کا قصہ ہے ، میرے آنگن میں ارہر کے دو چار بوجھ آئے ۔ اسے دیکھ کر میں اورمیری سہیلیاں بھی اپنے دادا کے ساتھ کھیت پہنچ گئے اور ضد کر کے ارہر کے چھوٹے چھوٹے بوجھ بنوائے اور اسے گھر لے کر آئے۔ کھیت سے آنگن تک ہمارا یہ سفر بہت دلچسپ تھا، اسے طے کرنے کے بعد لگا کہ ہم نے کوئی جنگ جیت لی ہے۔‘‘
اس کالم نگار نے موسم بہار میں فصلوں کو ’بہار‘ کہہ دیا تو اس پر لڑکی کا کہناتھا ،’’ آپ کیلئے بہار ہوگی لیکن آج کی لڑکیوں کیلئے وبال ہے، سرسوں کا بوجھ دیکھ کر ان کا خون خشک ہوجاتا ہے۔ کہتی ہیں: آگوا پھوہر پن، اب پورا گھر گندا ہوجائی۔( آگیا پھوہڑپن ، اب پورا گھر گندہ ہوجائے گا۔)اس پر بڑی بوڑھیاں ٹوکتی ہیں :ایہے ناسکری سے اللہ میاں اب کچھ نہ دیتن، آدھا کام تو مسین کے دی تھی۔( اسی ناشکری سے اللہ تعالی اب کچھ نہیں دیتے، آدھا کام تو مشین کردیتی ہے۔‘‘