جیاخان،نفیسہ جوزف، دیویا بھارتی اور سلک سمیتا کوتو جانے دیجئے کہ ان کی شہرت نے ان کی جان لے لی مگر ان ہزار ہا گمنام نوجوانوں کو کوئی نہیں جانتا جو کامیابی کی ریس میں شکست کھاکر نہ جانے کہاں کھوگئے۔ آج کے فلم شائقین ان نامور فنکاروں کے نام بھی شاید نہ جانتے ہوں جو کبھی لاکھوں دلوں پر راج کرتے تھے مگر اپنی زندگی کی شام میں صرف اچھے دنوں کے اجالے یاد کرتے رہے۔ ان میں چندو لال شاہ، بھارت بھوشن، ماسٹر نثار، بھگوان دادا، نادرہ، پروین بابی جیسے فنکاروں کے انجام عبرت انگیز ہیں
سشانت سنگھ راجپوت ۔ تصویر : آئی این این
ایک اور نوجوان نے خودکشی کرلی جو صرف ۳۴؍ سال کا تھا اورانڈسٹری کی بھیڑ بھاڑ میں تیزی سے اُبھرنے لگا تھا۔ اس کی فلموں نے بزنس بھی خوب کیا تھا اوراسے شائقین کی محبت بھی حاصل تھی۔ اس کی آخری فلم ’چھچھورے ‘ نے جو کم بجٹ میں تیارہوئی تھی غیر متوقع طور پر کافی مقبول ہوئی تھی اوراس کامیابی کے بعد اسےیکے بعد دیگرے فلمیں مل گئی تھیں۔ اس دوران یہ بات انڈسٹری میں مشہور ہونے لگی تھی کہ ایک نیا سوپر اسٹار وجود میں آچکا ہے کہ ایسے میں اس اسٹار نے اپنی جان لے لی۔ اب یہ راز شاید ہی کوئی جان سکے کیونکہ اس نے کوئی خط ، نوٹ یا دستاویز نہیں چھوڑی جس سے اس کی خودکشی کی وجہ معلوم ہو۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ باندرہ میں اس کا ایک خوبصورت مکان، گیراج میں مہنگی گاڑیاں اور ساری آسائشیں اسے میسر تھیں، اس کی Net Wortتقریباً ۶۰؍ کروڑ روپے تھی اور چاہنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی۔ اس لئے محبت، شہرت اور دولت کی اتنی فراوانی کے بعد کوئی اداکار خودکشی کرلے توایک ہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ شخص یقیناً اعصابی طورپر کمزور رہا ہوگا۔ خبروں میں اس کے ڈپریشن کا تذکرہ ہوتا رہا ہے، جس کیلئے وہ دوائیں لے رہا تھا مگراس مایوسی اور ذہنی پریشانی کی کیا وجہ تھی، یہ اب تک معلوم نہیں ہوسکا۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ شہرت کی معراج پر پہنچ کر اکثر لوگ تنہا ہوجاتے ہیں۔ کیا سشانت سنگھ راجپوت دنیا سمیٹ کر بھی اتنا تنہا تھا کہ وہ اس کرب کو برداشت نہیں کرسکا اوراپنی جان لینے ہی میں عافیت نظرآئی۔ یہ ایسی Mystry ہے جسےماہر نفسیات ہی حل کرسکتے ہیں۔
ویسے ایک عا م آدمی جب تھیٹر میں فلم دیکھنے جاتا ہے تو اس کا مقصد چند گھنٹوں کی تفریح ہوتا ہے۔ اس کی خاطر وہ چند سوروپے خرچ کرکے تھوڑی دیر کیلئے خوابوں کی ایسی دنیا میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ اپنی ساری محرومیاں بھلادیتا ہے۔ ان چند گھنٹوں میں اسے وہ سب کچھ مل جاتا ہے جس کی وہ برسوں سے تمنا کرتا رہا ہے۔ ہم شاید فلم سازی کو آرٹ خیال کرتےہوں مگر آج اس آرٹ نے ایسے کاروبار کی شکل اختیارکرلی ہے کہ عام آدمی اس کا تصوربھی نہیں کرسکتا۔ ہماری فلم انڈسٹری آج سالانہ۱۸؍ ہزار کروڑ روپوں کا کاروبار ہے جہاں سے ۱۳؍ ہزار کروڑ روپوں کی کمائی ان تھیٹروں سے ہوتی ہے جہاں ہم اپنی گاڑھے پسینے کی کمائی اس بکنگ کلرک کو دے دیتے ہیں جو پیسے لے کر ہمیں سیٹ نمبر تھما دیتا ہے۔ اب کسی کاروباری سے پوچھئے جس نے کروڑ ہا روپےاپنے کاروبار میں لگائے ہوں اور اسے ڈھنگ کا منافع نہ ملے تو اس پر کیا بیتے گی؟ آج کی بے رحم دنیا میں ہمارے کاروباری منافع کیلئے کچھ بھی کرگزرتے ہیں۔ رشوت ، دھمکی اور تشدد سب کچھ آج معمول بن چکا ہے۔ بے اندازہ دولت ان کی انا کو اتنا موٹا کردیتی ہے کہ وہ اپنی معمولی خراش کا انتقام بھی شد ومد سے لیتے ہیں۔ وہ اپنے کاروبار میں کوئی رسک نہیں لیتے اوراپنے کارکنان سے مکمل اطاعت اور فرماں برادری طلب کرتے ہیں لہٰذا آپ کسی اسٹار یا پروڈیوسر کو ناراض کردیں تو آپ کے کریئر کو ختم ہونے میں ذرا بھی وقت نہیں لگتا۔ اس لئے نہیں کہ انہیں آپ سے کوئی کد ہے بلکہ اس لئے کہ آپ نے اپنی حرکت سے ا ن کے کاروبار کو نقصان پہنچایا ہے یا آپ کی ننھی سی انا نے ان کی ہمالیائی انا کو زک پہنچانے کی جرأت کی ہے۔
شاید سشانت سنگھ سے بھی ایسی ہی غلطی ہوگئی ہوگی۔ اس نے پٹنہ سے آکر جب ٹیلی ویژن سیریل میں کام کرنا شروع کیا تو اس کی اداکاری کا چرچا فلم پروڈیوسر ز تک جا پہنچا اور آدتیہ چوپڑا نے اسے سائن کر لیا۔ انڈسٹری میں کچھ نامی گرامی پروڈیوسرز کے گروپ ہیں جو نئے اداکاروں سے کنٹریکٹ کرکے انہیں چند برسوں کیلئے اپنے سے باندھ لیتے ہیں۔ ان میں کرن جوہر کا دھرماپروڈکشن، آدتیہ چوپڑا کا یش راج پروڈکشن، ایکتا کپور کا بالاجی پروڈکشن اور ٹی سیریزوغیرہ بڑے نام ہیں جوانڈسٹری پر باقاعد ہ راج کرتے ہیں۔ اب وہ زمانے نہیں رہے جب راجیش کھنہ ، دھرمیندر ، منوج کمار اور جتیندر ایسے اداکاروں کو فلم فیئر کے مقابلوں میں منتخب کیاجاتا تھا اور پروڈیوسر انہیں اپنی فلموں میں کام دیتے تھے۔ اب تو ہر نئے چہرے کو جو اپنی آنکھوں میں خواب سجائے ممبئی آتےہیں،خود ہی کام ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ یہ نوجوان اپنے ایسے’اسٹرگلرس‘ کے ساتھ کرایے کا فلیٹ شیئر کرتے ہیں، دن بھر ایک آفس سے دوسری آفس کا چکر لگاتے ہیں اور شام کو اکثر بھوکے پیٹ سوجاتے ہیں۔ چونکہ آج کل ایسی ’کاسٹنگ‘ ایجنسیاں بھی کھل چکی ہیں جو نئے اداکاروں کا آڈیشن لے کر انہیں فلم سازوں تک بھیجتی ہیں، اسلئے یہ نوجوان ان ایجنسیوں کے باہرگھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ قسمت سے کہیں کام مل گیا تو ٹھیک ، ورنہ برسوں جوتیاں چٹخاتے رہئے۔ اس انڈسٹری میں صرف ان فلمی گھرانوں کے سپوتوں اور سپوتریوں کی چاندی ہے جو برسوں سے فلمیں بنارہے ہیں اوران کےبزرگوں کے گزرجانے کے بعد بھی ان کی دولت اور شہرت میں کوئی کمی نہیں ہوئی لہٰذا اس انڈسٹری میں انہیں ہی کام ملتا ہے جو رشتہ داری کے دھاگوں میں بندھے ہوئے ہیں یا ماضی کے کاروباری رشتے اسے آج تک باندھے ہوئے ہیں۔ ان نوجوانوں کے نام گنانے کی ضرورت نہیں کہ یہ برسہا برس سے انڈسٹری کے آسمان میں جھلملارہے ہیں۔ ہاں!کچھ ہی خوش نصیب ایسے ہیں جن کا کوئی سرپرست نہیں لیکن اپنی اداکاری کے بل بوتے پر انہوںنے اپنے لئے جگہ بنائی ہے ۔ نصیرالدین شاہ ، اوم پوری، نوازالدین صدیقی ، منوج واجپائی، آشوتوش رانا اور راج کمار راؤوغیرہ ایسے ہی لوگ ہیں جو چھوٹے شہروں سے آئے اور ممبئی نگری میں ساری رکاوٹیں پھلانگ کرکامیاب اداکار کہلائے جانے لگے۔
سنا ہے سشانت سنگھ کو آدتیہ چوپڑا نے سائن کیا تھا اوراپنی ایک فلم میں کام بھی دیاتھا مگر کسی دوسری فلم کیلئے اس نے انکارکردیا تو یش راج فلمز کے کرتا دھرتا اس سے ناراض ہوگئے۔ جب ’چھچھورے ‘ کی کامیابی کے بعد سشانت سنگھ کو یکے بعد دیگرے ۷؍ فلمیں ملیں تو اچانک ایک کے بعد ایک پروڈیوسر نے اس سے فلمیں واپس لے لیں اوریہ بے کار ہوگئے۔ سشانت سنگھ یہ جان نہیں پائے کہ آدتیہ چوپڑا یا کرن جوہر کوئی معمولی نام نہیں ہیں۔ یہ اوران کے دیگر ساتھی انڈسٹری پر بڑی حد تک قابض ہیں۔ یہ وہ بڑےپروڈکشن ہاؤس ہیں جن کے ہزار ہا کروڑ روپے انڈسٹری میں لگے ہیں۔ یہ اپنے خلاف کسی کی سن سکتے ہیں نہ اپنے منافع کے معاملے میں کسی قسم کی رورعایت کرسکتے ہیں بلکہ یہ جب چاہیں ایسے حالات بناسکتے ہیںکہ ان کے مخالف کیلئے سانس لینا دوبھر ہوجائے۔
اس واقعہ کے بعد ایک وکیل سدھیر کمار اوجھا نے آٹھ پروڈکشن ہاؤسیز پر مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس کے مطابق سشانت سنگھ کو ایسا بے بس اور لاچار کردیا گیا تھا کہ اسے خودکشی ہی میں پناہ لینی پڑی۔سلمان خان کے پروڈکشن ہاؤس کے خلاف ان کے سابق ہدایتکار (ابھینو سنہا نے فلم دبنگ میں ہدایت دی تھی)نے بھی خوب لعن طعن کی ہے کہ کس طرح سلمان کے بھائیوں نے انہیں ہراساں کیا اورایک پروڈیوسر پر دباؤ ڈال کر ان سے فلم چھین لی۔ سچائی تویہ ہے کہ ہر دور میں چند مٹھی بھر لوگ ہمیشہ موجود رہتے ہیں جن کے پاس طاقت اور اقتدار ہوتا ہے اور ان سے جھگڑا کرکے آپ خسارے میں رہتے ہیں۔ یوں بھی فلم انڈسٹری ایسی غیر یقینی د نیا ہے کہ یہاں کسی جمعہ کو آپ کی فلم نہ چلے تو شام تک سارے دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ پھر چاہے اداکار ہویا ہدایتکار، گیت کارہویا موسیقار، اگر وہ ہوش مند ہے تو اپنی ناکامی کو بھلاکر خاموشی سے منظر سے غائب ہوجاتا ہے ورنہ ازسرنو جدوجہد کرنے کیلئے آپ تیار ہونا پڑتا ہے۔ اورایسا بہت کم ہوا ہے کہ یہاں ایک بار گرجانے کے بعد کوئی سنبھل پایا ہو۔
دیکھا گیا ہے کہ اسی فلم انڈسٹری میں گرودت ایسا فلم ساز خودکشی کرتا ہے اورمنموہن دیسائی بلڈنگ سے چھلانگ لگاکر موت کو گلے لگاتا ہے۔ جیاخان،نفیسہ جوزف، دیویا بھارتی اور سلک سمیتا کوتو جانے دیجئے کہ ان اداکاراؤں کی شہرت نے ان کی جان لے لی مگر ان ہزار ہا گمنام نوجوانوں کو کوئی نہیں جانتا جو کامیابی کی ریس میں شکست کھاکر نہ جانے کہاں کھوگئے۔ آج کے فلمی شائقین ان نامور فنکاروں کے نام بھی شاید نہ جانتے ہوں جو کبھی لاکھوں دلوں پر راج کرتے تھے مگر اپنی زندگی کی شام میں صرف اچھے دنوں کے اجالے یاد کرتے رہے۔ کہتے ہیں چندولال شاہ ایسا مشہور پروڈیوسر اپنے ہی اسٹوڈیو کے باہر پرانی فلموں کی تصاویر فروخت کرتا پایا گیا۔ بھارت بھوشن ایسا سوپر اسٹار بسوں کی قطار میں دھکے کھاتا رہا۔ ماسٹر نثار اپنے ملبار ہل کے بنگلے اور کاروں کو فروخت کرکے کسی چال میں رہنے لگا تھا۔ فلم البیلا کا سوپر اسٹار بھگوان دادا کی موت بھی پریل کی چال میں واقع ہوئی تھی ۔’ آن‘ اور ’شری چارسو بیس‘جیسی بین الاقوامی شہریت یافتہ فلم کی مقبول ہیروئن نادرہ نے بھی کسمپرسی کی حالت میں جان دی۔ پروین بابی ، جس کی تصویر ٹائم میگزین کے سرورق پر چھپی تھی، وہ بھی اپنے فلیٹ میں مردہ پائی گئی تھی۔ ایسے عبرت ناک واقعات کے باوجود آج بھی ملک کے کونے کونے سے ہزار ہانوجوان فلموں میں قسمت آزمانے چلے آتے ہیں۔ ہر کوئی یہی سوچتا ہے کہ جب شاہ رخ خان ریلوے پلیٹ فارم پر سوکرکامیاب ہوسکتا ہے اور امیتابھ بچن چھوٹے چھوٹے رول سے ترقی کرکے سوپر اسٹار بن سکتا ہے تو وہ کیوں نہیں بن سکتے؟ وہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا ایک ہاتھ سے دیتی ہے تو سوہاتھوں سے لے بھی لیتی ہے