Inquilab Logo

عدم برداشت کا یہ طرز عمل کب تک جاری رہے گا؟

Updated: May 30, 2021, 9:08 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

ٹویٹر کا قضیہ آپ جانتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے میں مرکزی حکومت کی جانب سے ٹویٹر کو بھیجی جانے والی درخواستوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس کا سبب ہے عدم برداشت کا طرز عمل

Twitter has called the tweets of BJP leaders, including party spokesperson Sambat Patra, "distorted".Picture:Midday
ٹویٹر نے بی جے پی کے لیڈروں بشمول پارٹی ترجمان سمبت پاترا کے ٹویٹس کو ’’تحریف شدہ‘‘ قرار دیا ہے تصویر مڈڈے

ٹویٹر نے بی جے پی کے لیڈروں بشمول پارٹی ترجمان سمبت پاترا کے ٹویٹس کو ’’تحریف شدہ‘‘ قرار دیا ہے۔ پارٹی نے ایک ایسےٹول کٹ کی تشہیر کی جس کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ یہ کانگریس کا تیارکردہ ہے جس کا مقصد ملک کو بدنام کرنا تھا۔ لیکن، جیسا کہ آپ جانتے ہوں گے، حقائق کا پتہ لگانے والی ویب سائٹ ’’آلٹ نیوز‘‘ نے انکشاف کیا کہ بی جے پی جو مواد پیش کررہی ہے وہ جعلی ہے۔ بی جے پی کا کہنا تھا کہ کانگریس نے اپنے لیٹر ہیڈ پر اپنے کارکنان کو ہدایت دی تھی کہ وہ ’’سپر اسپریڈر کمبھ‘‘ (یعنی کمبھ کے میلے کی وجہ سے کورونا کے پھیلاؤ میں شدت آئی) کی اصطلاح کا استعمال کریں، اجتماعاتِ عید سے گریز کریں اور جنازوں اور ارتھیوں کی وہ ڈرامائی تصویریں شامل کریں جو غیر ملکی میڈیا استعمال کررہا ہے۔ آلٹ نیوز نے بتایا کہ ایسی کوئی ہدایت کانگریس نے نہیں دی، جو لیٹر ہیڈ استعمال کیا گیا وہ جعلی تھا۔ ٹویٹر نے آلٹ نیوز پر بھروسہ کیا اور ٹول کٹ کو جعلی قرار دے دیا۔ اس پر بی جے پی چراغ پا ہے۔ 
 آئیے چند اعدادوشمار کے ذریعہ صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ جنوری ۲۰۱۲ء سے جون ۲۰۱۴ء تک ادارہ ٹویٹر کو اکا دکا درخواستیں ہی حکومت ہند کی جانب سے موصول ہوتی تھیں کہ فلاں چیز ہٹادیجئے مگر ۲۰۱۶ء کی دوسری ششماہی میں اسے ۱۵۱؍ درخواستیں موصول ہوئیں۔ یہ تعداد جنوری اور جون ۲۰۱۸ء کے درمیانی حصے میں دوگنا ہوکر ۳۰۶؍ ہوگئی۔ جولائی اور دسمبر ۲۰۱۹ء کے درمیان میں مزید اضافہ ہوا اور یہ تعداد سابقہ تعداد کے مقابلے میں پھر دوگنا (۶۶۲) ہوگئی۔ جنوری اور جون ۲۰۲۰ء کے درمیانی حصے میں مودی حکومت نے ۲۳۶۷؍ درخواستیں ارسال کیں جن میں شناخت ظاہر کرنے کیلئے کہا گیا یا ایسا مواد ہٹانے کیلئے کہا گیا جو اس کی نظر میں ٹھیک نہیں تھا۔ ٹویٹر کو ملنے والی درخواستوں کی تفصیل جون ۲۰۲۰ء تک ہی دستیاب ہے اس کے بعد اب ایک سال کا ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ اب حکومت اتنی سرگرم کیوں ہوگئی ہے کہ ہزاروں درخواستیں ٹویٹر کو روانہ کررہی ہے؟ 
 اس کا جواب یہ ہے کہ سوشل میڈیا ایسی حقیقت کو اُجاگر کررہا ہے جو بی جے پی کو پسند نہیں ہے چنانچہ وہ نہیں چاہتی کہ ایسا مواد عوام تک پہنچے۔ اس دوران بہت سے لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں جو حکومت کو ناگوار گزر رہی ہیں۔ اس سے پہلو بچانے کاایک طریقہ یہ ہے کہ انہیں نظر انداز کیا جائے۔ یہی سابقہ حکومتوں نے کیا تھا جس کے نتیجے میں اُس وقت ٹویٹر کو کم درخواستیں ملتی تھیں۔ اگر حکومت جو کچھ بھی کہہ رہی ہے اس کے تعلق سے حساس ہے، اور اس قدر حساس ہے کہ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقیدیں اس کی برداشت سے باہر ہیں تو وہ وہی کرنا پسند کرے گی جو اِس وقت کررہی ہے۔ 
 یاد رہنا چاہئے کہ ٹویٹر، فیس بک سے مختلف ہے۔ یہ ادارہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ آزاد ہے اور آزادیٔ اظہار خیال کی سرپرستی کو اپنا فریضہ تصور کرتا ہے۔ فیس بک ایک کارپوریٹ کمپنی ہے جو ’’مختلف انداز  میں سوچنے والی‘‘ حکومتوں کے ساتھ بہتر روابط رکھنا پسند کرے گی اور صارفین کو بلاک بھی کرے گی یا ضرورت پڑنے پر حکومتوں کی جانب سے پیش کیا جانے والا مواد بھی صارفین تک پہنچا دے گی خواہ وہ اس قابل نہ ہو۔ ٹویٹر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے صارفین کو مکمل آزادی  فراہم کرنے اور اطلاعات کے آزادانہ تبادلے کا قائل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شفافیت کے مقصد سے رپورٹ شائع کرتا ہے جس میں وہ ڈیٹا ہوتا ہے جو اس کالم نگار نے بالائی سطور میں پیش کیا ہے۔
 ہندوستان واحد جمہوری ملک نہیں ہے جوکوئی پیغام ہٹانے وغیرہ سے متعلق ٹویٹر سے درخواستیں کرتا ہے۔ امریکہ میں صدر مملکت کا تحفظ کرنے والی سکریٹ سروس کے متعدد فرائض میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اُن تمام انتباہات کا تجزیہ کرے جو صدر مملکت کے تحفظ کیلئے خطرہ بنتے ہیں خواہ کوئی بات بہت ہلکے پھلکے انداز میں کہی گئی ہو۔ مگر وہاں بھی یہ نہیں ہوتا کہ کسی کی کہی ہوئی بات یا کسی کے خیال کو سنسر کیا جائے۔ ہمارے ملک میں یہ ہورہا ہے کہ حکومت پر ہونے والی تنقیدوں کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، اس کے برخلاف اپوزیشن کے بے اثر یا بے کار ہونے کے تاثر کو حکومت کی جانب سے بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اس کوشش میں پکڑ ہوجاتی ہے تو وہ جوابدہی سے بچنےکی تگ و دو کرتی ہے۔
 ان حالات میں بار بار احساس ہوتا ہے کہ کہیں ہمارا ملک چین کی راہ پر تو گامزن نہیں ہوگیا ہے؟ جہاں سوشل میڈیا کو پیغام رسانی کو کنٹرول کرنے اور اس کا بڑے پیمانے پر جائزہ لینے (سرویلانس) کی حکومتی خواہش کا پابند رہنا پڑتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا اور عوام کو اظہار کی مکمل آزادی تھی۔ نہیں تھی (مگر شاید یہ حالات بھی نہیں تھے)۔ چند ہی جمہوری ملک ایسے ہیں جہاں عوام کی رائے کو روکنے کیلئے ایسی تگ و دو کی جاتی ہو جیسی ہندوستان میں کی جارہی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمارے یہاں غداری، مجرمانہ توہین اور ایسے دیگر قانون موجود ہیں جن کے تحت بعض اوقات کچھ کہنے پر اور کبھی کبھی کچھ نہ کہا ہو تب بھی لوگوں کے جیل جانے کی نوبت آجاتی ہے۔ یہ پہلے بھی تھا اور اب بھی ہے مگر جیسا کہ عرض کیا گیا، حکومت کی پالیسیوں پر اور اس کی کارکردگی پر تنقید اس قدر عدم برداشت کی زد پر پہلے کبھی نہیں تھی جتنی کہ اب ہے۔ ہماری موجودہ حکومت صرف ایک بیانیہ پر اصرار کرتی ہے جو اس کا اپنا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کوئی دوسرا کچھ کہنا چاہے تو وہ اسے پوری قوت کے ساتھ روکنے کے درپے ہوجاتی ہے۔ 
 ٹول کٹ کا معاملہ عجیب و غریب ہے اور اس معاملے میں بھی ایسا ہی ہورہا ہے۔ مقام ِ افسوس ہے کہ حکمراں جماعت ایسا مواد تیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی جو دوسروں کی آواز یا رائے کو غلط ثابت کرنے کیلئے ہو۔ میرے خیال میں ایمرجنسی کے دور میں بھی جسے ہم ملک کی تاریخ کا سیاہ دور قرار دیتے ہیں، ایسا ہی کچھ ہوا ہوگا۔ جن لوگوں نے ایمرجنسی دیکھی اور خوش قسمتی سے اس وقت بقید حیات ہیں وہ آج کے حالات میں بھی ویسا ہی محسوس کررہے ہوں گے جیسا انہوں نے ایمرجنسی کے دور میں محسوس کیا تھا ۔ n

IT LAWS Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK