Updated: May 19, 2025, 11:09 PM IST
| Mumbai
پاکستان کو معلو م تھا کہ چنددن کی جنگ کے بعد ہی اس کا حلیہ بگڑ جائے گا کیونکہ پاکستان کی مالی حالت تقریباً صفر ہوچکی ہے ۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان پر بھی اپنی تجارت بند کرنے کا دباؤ ڈالتے تو ہندوستان کا بھی نقصان ہوتا لیکن بہت دیر میںہوتا اور پاکستان کے مقابلے بہت کم ہوتا۔
پہلگام کے بدنصیب واقعہ کے بعد پاکستان کو یہ معلوم تھا کہ ہندوستان سیاسی دباؤ کی وجہ سے کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کرے گا، یوں بھی جب یہ نام نہاد جنگ پیش آئی تو واقعہ کو سترہ دن بیت چکے تھے
ماہِ رواں کی سات اور آٹھ تاریخ میں ہندوستان اور پاکستان کی فضائیہ میں جو کچھ ہوا اگر ہم اُسے جنگ نہ کہیں گے تو کچھ آدمیوں کا دِل بہت دُکھے گا اس لئے چلئے مان لیتے ہیں کہ یہ جنگ ہی تھی،جنگ میں کس کا کتنا نقصان ہوا، یہ بے کار کی باتیںہیں لیکن ہم ایک بار پھر رسوخ سے کہتے ہیں کہ نہ ہندوستان کی فضائیہ نے پاکستانی سرحدوں کو توڑا اور نہ ہی پاکستان کی طرف سے جنگ کا کوئی معقول جواب ملا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اِس بار یہ جنگ ہندوستان اور پاکستان کی میڈیا میں ہورہی تھی۔ اِس بار اتفاق سے ہندوستان کا میڈیا پاکستانی میڈیا سے بہت آگے تھا اور اُس کی بھی ایک وجہ تھی۔ پہلگام کے بدنصیب واقعہ کے بعد پاکستان کو یہ معلوم تھا کہ ہندوستان سیاسی دباؤ کی وجہ سے کوئی نہ کوئی کارروائی ضرور کرے گا، یوں بھی جب یہ نام نہاد جنگ پیش آئی تو واقعہ کو سترہ دن بیت چکے تھے۔ ہندوستان کے لئے جنگ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں تھا لیکن سیاسی دباؤ تھا اور بہت شدید تھا۔ نریندر مودی کو معلوم تھا کہ اگر وہ کچھ نہیں کرتے ہیں تو ہندوستان میں اُن کی اور بی جے پی کی حالت بہت خراب ہوجائے گی ، اس لئے انہیں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی تھا اور اس حقیقت کے باوجود کرنا تھا کہ اس معاملے میں پاکستان کا نام لینے کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو کسی جنگ کو جائز قرار دیتی۔ وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی ذمہ داروں نے پاکستان کو مجرم تو ضرور قرار دیا لیکن کوئی ایسا ثبوت نہیں پیش کیا جو کسی جنگ کا بہانہ بن سکے۔ جن چار افراد کو پہلگام کی فائرنگ میں مجرم بتایا گیا تھا اُن پر تفتیش نہیں ہوئی۔ ان کے جو نام بتائے گئے تھے وہ بھی درست نہیں تھے اور ہر بار کی طرح اس بار بھی ہندوستان کو پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیںتھا۔
شاید یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے کسی بھی ملک نے ہندوستان کی باتیں مسترد تو نہیں کی مگر قبول بھی نہیں کیں۔ پاکستانی ذمہ داروں نے الگ پینترا آزمایا۔ پہلگام کے واقعہ کے بعد اُن کا یہ بیان کہ اس معاملے پر کوئی بین الاقوامی چھان بین کرلی جائے اور پاکستان اس چھان بین میں اپنی پوری مدد بھی کرے گا۔ اس سے پاکستان پر لگایا ہوا الزام تھوڑا سرد پڑ جاتا ہے لیکن ہندوستان بہرحال جانتا تھا کہ اس موقع پر اگر اس نے کچھ نہیں کیا تو اندرونِ ملک معاملات بہت خراب ہوجائینگے۔ یہ سب بکواس ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستان او رپاکستان پر تجارت ختم کرنے کی دھمکی دی۔ پاکستان کو معلو م تھا کہ چنددن کی جنگ کے بعد ہی اس کا حلیہ بگڑ جائے گا کیونکہ پاکستان کی مالی حالت تقریباً صفر ہوچکی ہے ۔ اگر ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان پر بھی اپنی تجارت بند کرنے کا دباؤ ڈالتے تو ہندوستان کا بھی نقصان ہوتا لیکن بہت دیر میںہوتا اور پاکستان کے مقابلے بہت کم ہوتا۔ نریندر مودی کو یہ بھی معلوم تھا کہ اس معاملے میں مغرب اور ڈونالڈ ٹرمپ کابیچ میں آنا تقریباً ناگزیر ہے ۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ بولیں گے اور ضرور بولیں گے لیکن نریندر مودی اپنی تمام ’سیاسی فراست‘ کے باوجود یہ سمجھتے تھے کہ اگر ٹرمپ نے کچھ کہا بھی تو بس یہی کہیں گے کہ دونوں فریق جنگ سے باز آئیں۔ نریندر مودی کا خیال تھا کہ اگر ایسا ہوا تو وہ ڈونالڈ ٹرمپ پر یہ دباؤ ڈالیں گے کہ وہ ضرور ایسا ہی کریں گے جیسا کہ ڈونالڈ ٹرمپ کہہ رہے ہیں لیکن اسی کے ساتھ وہ یہ بھی سوچتے تھےکہ پھر ہم ڈونالڈ ٹرمپ پر یہ تاثر پیش کریں گے کہ ہم اُن کے احکامات سےباز تو نہیں رہیں گے لیکن ہمارے ملک میں اس وقت حکومت پر سیاسی دباؤ بہت زیادہ ہے اس لئے یہ دباؤ کم کرنے کیلئے انہیں کچھ وقت درکار ہے۔ان کا خیال تھا کہ ٹرمپ بھی اس بات کو مان لینگے لیکن ٹرمپ نے کمال کردیا۔ انہو ںنے صرف یہ نہیں کہا کہ آپ لو گ جنگ سے باز رہیں بلکہ یہ بھی کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں کشمیر کے مسئلہ پر تنازع ڈیڑھ ہزار برس پرانا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ٹرمپ عالمی تاریخ سے بہت زیادہ واقف نہیں ہیں لیکن ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ یہ سمجھیں گے کہ ڈیڑھ ہزار برس پہلے جو آج کا ہندوستان ہے وہ موجودہ شکل میں ہندوستان تھا اور نہ جو آج کا کشمیر ہے وہ اس وقت کا کشمیر تھا اس لئے تاریخ کی اس لاعلمی کے باوجود ٹرمپ کی دھمکی کا خاصا اثر ہوا۔
ہندوستان کے لئے ٹرمپ کا یہ بیان بہت حیرت ناک ثابت ہوا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ہندوستان میں آر ایس ایس نے اپنے وجود کا موقف اس نظریہ پر رکھا ہے کہ ہندوستان جب تک کشمیر کو نہیں لے لے گا تب تک اس کی آزادی کو دُرُست نہیں قرار دیا جائے گا۔ ٹرمپ کی اطلاع کیلئے کشمیر کا تنازع ہندوستان کی آزادی کے بعد سے ہی شروع ہوا تھا ۔ اس نام نہاد جنگ کے باوجود کچھ ایسی باتیں بھی ہوئی ہیں جن کا شاید کسی کو بھی علم نہیں تھا ۔ مثال کے طور پر پہلے جب دنیا میں کہیں جنگ ہوتی تھی اورا س کےبارے میں کوئی صلح کرائی جاتی تھی تو صلح کرنے کا مقام کوئی نہ کوئی مغربی ملک ہوتا تھا لیکن اتفاق دیکھئے کہ اس بار روس اور یوکرین کی جنگ کا معاملہ پہلے ترکی اور اس کے بعد سعودی عرب میں طے ہوا۔ کیا یہ بھی اتفاق نہیں ہے کہ ٹرمپ جو اس وقت مشرق کا دورہ کررہے تھے، اس کے دورہ میں سعودی عرب، قطر اور دیگر خلیجی ممالک شامل تھے۔ یہ ایک اتفاق ہے کہ ٹرمپ پہلے امریکی صدر ہیں اس طرف آئے ہیں اور ان کے دورے میں ہندوستان کا کہیں دور دور تک پتہ نہیں۔ ٹرمپ کے سب سے بڑے دوست نریندر مودی کے لئے یہ ایک جھٹکا تھا۔ انہو ںنے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے فرینڈ ٹرمپ اتنے دوست فراموش ہوں گے کہ یہ بھی بھول جائیں کہ نریندر مودی دنیا کے وہ پہلے وزیر اعظم ہیں جو کسی دوسرے ملک میں صدارت کے الیکشن کی تشہیر کررہے تھے۔ اگر وہ ہندوستان آتے تو ہمیں یقین ہے کہ نریندر مودی ان کے سامنے دَنڈوَت ہوجاتے ۔ اس سے پہلے جب اوبامہ ہندوستان آئے تھے تو نریندر مودی نے رقص کناں ہو کر ان سے بغل گیر ہونے کی کوشش کی تھی لیکن بغل گیر ہونا شاید اوبامہ کے کلچر میں نہیں تھا۔ ہمیں ہی نہیں شاید ساری دنیا کو معلوم تھا کہ ٹرمپ آئے تو مودی شاید بچھ جائیں لیکن قدر ت کو یہ منظور نہیں تھا۔ موجودہ جنگ کے بارے میں بہت سی اور باتیں بھی ہیں جو بعد میں بتائی جائیں گی۔n
hasankamaal100@gmail.com