Inquilab Logo

ملک میں پھیلی نفرت کی لہر پر قابو کیسے پائیں ؟اس کیلئے ہم کیا کریں ؟

Updated: September 10, 2023, 4:08 PM IST | Dr Abdul Karim Salar | Mumbai

حالیہ دنوں میں ہریانہ کےنوح میں جو فساد ہوا، وہ کوئی ملک کا پہلا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے آخری کہا جاسکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اس طرح کے فساد کی ایک روایت بن گئی ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

حالیہ دنوں میں ہریانہ کےنوح میں جو فساد ہوا، وہ کوئی ملک کا پہلا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی اسے آخری کہا جاسکتا ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں اس طرح کے فساد کی ایک روایت بن گئی ہے جس پر قابو پانا ضروری ہے
 ۲۰۲۴ء کے انتخابات کی آمد آمد ہےلہٰذا اقتدار کے حصول کیلئے ہر کوئی اپنی اپنی جدوجہد میں لگا ہوا ہے۔ یہ ایک فطری عمل ہے۔۲۰۱۴ء میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے موجودہ مرکزی حکومت کے لیڈروں نے ایک حسین خواب ملک کو دکھلایا تھا خصوصاً نوجوانوں کو کہ ملک کی ہرسمت ترقی کی جائے گی۔کئی منصوبے پیش کئے گئے تھے اور کروڑوں نوکریوں کی امید دلائی گئی تھی۔نتیجتاً سابقہ پارٹی کی حکومت کو شکست ہوئی اور بی جے پی خصوصاً نریندر مودی ایک امید کی کرن لے کر آئے لیکن ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۹ء تک وعدے ،وعدے ہی رہ گئے۔ ۲۰۱۹ء میں ’وکاس‘ اور ترقی کی باتوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے مذہبی جذبات کو ابھارا گیا جس کے نتیجے میں ایک بار پھر وہی سرکار اقتدار میں آگئی۔ اب ۲۰۲۴ء کے الیکشن کی تیاریاں زوروشور پر ہیں ۔ افسوس کہ ایک بار پھر نفرت کا ایجنڈہ چلایا جا رہا ہے۔یہ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں اکثریت کو اقلیت کا ڈر دکھایاجارہا ہے۔
 گیان واپی مسجد ہی نہیں بلکہ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ۳۵۰؍مساجد ان طاقتوں کے نشانے پر ہیں ۔مقدمات کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ نچلی کورٹ میں مقدمہ دائر کرنا۔کورٹ کے فیصلے سے مساجد کے ٹرسٹیان پریشانی میں ۔ہائی کورٹ سے رجوع ہونا۔ہائی کورٹ میں بھی کبھی خوشی تو کبھی غم کا ماحول ۔پھر سپریم کورٹ میں بھی وہی صورتحال ۔غرض یہ کہ ماحول گرم ہے اور اسے گرم رکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ گیان واپی کا مسئلہ چل ہی رہا تھا ،اسی دوران متھرا کی شاہی مسجد کو بھی نشانے پرلے لیا گیا۔ اس کا بھی آثار قدیمہ کی ٹیم سے جانچ کرنے کا مطالبہ ہوا اور دعویٰ کیا گیا کہ مسجد کے نیچے مندر ہے۔مہاراشٹر کے ایرنڈول (جلگائوں ،خاندیش) کی جامع مسجد کا بھی تنازع کھڑا کردیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ پانڈو راڑے کی جگہ ہے۔اس میں بھی ترشول اور کمل کے نشان وغیرہ کی بات کی گئی۔ہر جگہ یکساں طریقۂ کار۔ہریانہ کے نوح میں فساد کا باریکی سے جائزہ لیں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی ایک خاص طریقۂ کار اور سازش کا نتیجہ ہے۔مونومانیسر ایک شدت پسند کامیوات کے دومسلم نوجوانوں کے قتل میں کلیدی ملزم ہونا اوراس کا آج تک فرار رہنا؟اسی درمیان ایک دھارمک یاترا نکالی گئی اور اسے اس راستے سے گزارنے کی ضد کی گئی جہاں کی مسلم آبادی ۸۰؍فی صد سے زائد ہے۔ اس کے بعد باہر سے سیکڑوں گاڑیوں کا جلوس کی شکل میں آنا اورایک ویڈیو وائرل کرکے یہ کہنا کہ ــ’جیجا‘آرہے ہیں ، استقبال کی تیاری کرو۔ اپنے لوگوں سے بڑے پیمانے بھی آنے کی اپیل بھی کی گئی۔ ایک اور شدت پسند بابو بجرنگی کا ہتھیاروں سے لیس قافلہ لے کر آنا۔ اس پر بی جے پی ہی کے ایک رکن پارلیمان اور مرکزی وزیر نے یہ کہہ کر سوال اٹھایا کہ’’مذہبی جلوس میں ہتھیاروں کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
جلوس پر پتھر بازی کا الزام عائد ہوا۔ یہ پتھرپھینکے گئے یا پھینکوائے گئے؟اس کے بعد فساد شروع۔پولیس بھی حرکت میں آئی۔سیکڑوں مسلم نوجوان گرفتار لیکن جس کی وجہ سے فساد ہوا، وہ مونو مانیسر آج بھی آزاد۔ بعد ازاں سیکڑوں گھروں کو زمین دوز کردیا گیا، گویابلڈوزر تیار بیٹھے تھے۔ مسلمان خود کو بے بس محسوس کررہے تھے کہ اللہ کی مدد آئی ۔از خود نوٹس لیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کارروائی روک د ی لیکن دوسرے دن کورٹ کی وہ بنچ ہی تبدیل کردی گئی۔دستور بنانے والوں کی آتمائیں آنسو بہا رہی ہوں گی۔
لے سانس بھی آہستہ کہ ناز ک ہے بہت کام 
اس ملک کے حالات اور ترے بھولے پن کا
 پورے ملک میں بس یہی طریقۂ کار ہے کہ قصبوں سے لے کر شہروں تک کسی بھی طرح سے مسلم نوجوانوں کے جذبات بھڑکائے جائیں اور انھیں ردّ عمل پر مجبور کیا جائے۔ جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہر جگہ کے طریقہ کار ایک جیسے ہی ہیں ۔رام نومی جلوس ،گنپتی جلوس،دیوی جلوس اورکانوڑیا تراوغیرہ نکالے جاتےہیں ۔ جس طرح سے شیر کا شکار کرنے والے شکاری مچان بنا کر جنگل میں گھات لگا کر بیٹھتے ہیں اور شیر کو باہر نکالنے کیلئے درخت سے بکری یا بچھڑا باندھ دیتے ہیں ۔ شیر اس کی بو سونگھ کر باہر نکلتا ہے اور شکار کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ خود شکار ہوجاتا ہے۔ گھات میں بیٹھے شکاری اس پر گولیاں چلا کر اسے مار دیتے ہیں ۔کیا ہمارے نوجوانوں کا بھی کچھ اسی طرح سےشکار کیا جارہا ہے؟کئی مثالیں موجود ہیں اور اب منی پور میں بھی یہی حربہ استعمال کیا جارہا ہے جہاں دوسری اقلیت یعنی عیسائی ہیں ۔ یہ آدی واسی علاقوں میں رہتے ہیں ۔
 جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے، وہاں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دیکھو!جہاں یہ زیادہ تعداد میں ہیں ، وہاں ہندو محفوظ نہیں ہیں ،وہ اپنے دھرم پر چل نہیں سکتے۔اس کے بعد آناً فاناً پنچایتوں سے فرمان جاری ہونے لگتے ہیں ۔جن جن چھوٹے چھوٹے گائوں میں کم مسلمان ہوتے ہیں ، وہاں ان کے خلاف زہر افشانی شروع ہوجاتی ہے ۔ طرح طرح کےبائیکاٹ کی بات کی جاتی ہے، مسلم ٹھیلے والوں پر اورپھیری والوں پر پابندی عائد کردی جاتی ہے۔کیا ان سب میں حکومت کی پشت پناہی شامل نہیں ؟ یہ سب باقاعدہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہا ہے۔ اکثریتی طبقے کے مذہبی جذبات ابھارے جارہے ہیں ۔ٹیلی ویژن چینلوں پر پرانے دھارمک سیریل جیسے مہا بھارت، رامائن اور مہادیو وغیرہ ایک بار پھر دکھائے جارہے ہیں ۔ گائوں ، قصبوں اور شہروں میں پرانے مندروں کو حکومت کی جانب سے مالی تعاون دے کر اُن کی از سر نو تجدید کاری ہورہی ہے اور انہیں کسی نہ کسی نام سے دھارمک جلوس نکالنے پر آمادہ کیا جارہا ہے تاکہ ملک کا ماحول خراب ہو ۔ جلگائوں ضلع کے پاچورہ شہر میں ’پرتی اجودھیا‘کیلئے ۱۱؍کروڑ روپے حکومت مہاراشٹر کی جانب سے منظور ہوئے ہیں ۔ 
 ایسا لگتا ہے کہ ۲۰۲۴ء تک یہ عمل کچھ زیادہ ہی زور و شور سے جاری رہے گا۔کوئی بھی ان کی مخالفت نہیں کرسکے گا کیونکہ دستور نے سب کو اپنے اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ کا حق دیا ہے۔ایسے میں خدشہ یہی ہے کہ اس طرح دھارمک جلوسوں سے شر پسند عناصرفائدہ نہ اٹھانے لگیں ۔
 سوال یہ ہے کہ ایسے میں ہم کیا کریں ؟
ناچیز کی نظر میں کچھ باتیں ہیں ، اگر مناسب ہو تو اس پر عمل کی گزارش ہے ۔
جہاں تک ممکن ہو مخصوص مواقع پر اشتعال انگیز ماحول میں صبر سے کام لیں البتہ اس کی ویڈیو شوٹنگ ضرور کریں ۔
ہر مسجد کے باہر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں ۔
مسلمانوں کے محلوں کے چوراہوں پر بھی سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے جائیں ۔ 
جب پولیس آتی ہے تو اُن سے بحث نہ کریں اور بھیڑ تو قطعی جمع نہ کریں ۔
نفرتی ویڈیو ز اور تصاویر کی ثبوت کے ساتھ پولیس میں شکایت درج کرائیں ۔ اگر پولیس کارروائی کرنے میں تساہلی برتے تو اچھے وکیل کے ذریعہ ہائی کورٹ سے رجوع کریں ۔
پولیس اسٹیشن میں فسادیوں اور خاطیوں کے خلاف شکایت درج کرانے میں نہ گھبرائیں ۔کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کچھ نہ کرنے پر بھی پولیس ملزم بنا دیتی ہے۔اس سے بہتر ہے کہ شکایت درج کرائی جائے۔
مسلمانوں کی کثیر آبادی والے علاقوں سے اگر کوئی یاترا یا جلوس نکلتا ہےتو پولیس کو از خود ہم اپنی بلڈنگوں کی چھت سے شرپسند عناصر پر نظر رکھنے کی گزارش کریں ۔
سماج میں بیداری پیدا کرنے کی جدوجہد کریں تاکہ فرقہ پرست طاقتیں بر سر اقتدار نہ آسکیں ۔
اپنے اپنے محلّوں اور گائوں میں اپنے نام ووٹر لسٹ میں چیک کریں اور اگر کسی کا نام نہ ہوتو اُن کے نام درج کروائیں ۔
جن کے پاس آدھارکارڈ،راشن کارڈ اور دیگر ضروری دستاویزات نہیں ہیں ، وہ جلد از جلد بنوالیں ۔ 
ہر ممکنہ کوشش کریں کہ کم از کم ۲۰۲۴ء کے الیکشن تک فساد نہ ہونے پائے۔ہر قیمت پر امن و امان قائم رکھنے کی کوشش کریں اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھیں ۔ ملک سے نفرت کومٹانے کیلئے ہمارا کردار ہی ہمارا ہتھیار ہے۔
میں جانتا ہوں کہ یہ کہہ دینا یا لکھ دینا بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت مشکل ہے،لیکن اس ماحول میں کیا کوئی دوسرا بھی لائحہ عمل ہے۔اگر ہو تو ضرور مطلع کریں ۔اللہ ہمیں جرأت ،ہوش اور صبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK