Inquilab Logo Happiest Places to Work

قرآنِ کریم کے انسانی نمونے

Updated: August 14, 2020, 9:59 AM IST | Sayed Qutub Shaheed

انسانیت کے چند نمونوں کا تذکرہ جن کا ذکر قرآن کریم میں کیا گیا ہے۔ یہ ہر زمانہ اور ہر جگہ معاشرہ میں بکھرے ہوئے ملتے ہیں۔ قرآنی تعبیر و بیان نے ان کی ایسی نمایاں منظرکشی کی ہے کہ صدیاں بیت جانے کے باوجود انسانی آنکھ ان کو جاننے اور پہچاننے سے قاصر نہیں رہ سکتی۔

Quran Kareem - Pic : INN
قرآن کریم ۔ تصویر : آئی این این

قرآن کریم نے مختلف دینی مقاصد کی تعبیر و بیان کے دوران  قصص و واقعات کے علاوہ بھی دسیوں انسانی نمونوں کی بکمالِ سہولت و اختصار تصویرکشی کی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ایک یا دو جملو ںمیں ’’انسانی نمونہ‘‘ ، تصویرکشی کے ذریعے ایک زندہ اور ابدی مخلوق کی صورت میں ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔ 
 گاہے یہ نمونے پوری نسلِ انسانی کی تصویر ہوتے ہیں گاہے بنی نوعِ انسان کے چند ایسے افراد کی تصویر پیش کی جاتی ہے جو دنیا میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مگر دونوں حالتوں میں یہ نمونے ابدی اور دائمی ہوتے ہیں۔ کوئی معاشرہ اور کوئی قوم و قبیلہ اُن سے خالی نہیں ہوتا۔
 دراصل یہ آیات خاص مواقع پر نازل ہوئی تھیں اور ان کے ذریعے کسی خاص زندہ اور موجود شخص کی تصویرکشی کے فنی معجزہ نے ان تصاویر کو ابدی اور دائمی بنا دیا چنانچہ زمان و مکان گردش میں رہیں گے اور صدیاں بیت جائیں گی مگر یہ تصاویر زندہ اور پائندہ رہیں گی۔
  ذیل میں مختصراً بعض نمونے اسی طرح پیش کئے جارہے ہیں جس طرح قرآن  نے ان کو پیش کیا ہے۔
۱۔کامل نسلِ انسانی کے نمونے: ذیل میں  وہ نمونے پیش کئے جاتے ہیں جو پوری نسل انسانی کی منظرکشی کرتے ہیں:
 ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب اس پر کوئی سخت وقت آتا ہے تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہم کو پکارتا ہے، مگر جب ہم اس کی مصیبت ٹال دیتے ہیں تو ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا، اس طرح حد سے گزر جانے والوں کے لئے ان کے کرتوت خوشنما بنا دیئے گئے ہیں ۔‘‘ (یونس:۱۲)
 مندرجہ صدر مختصر نمونے میں حق و صداقت اور فنی حسن و جمال کے تمام عناصر یکجا ملتے ہیں۔ درحقیقت انسان ہے ہی اسی قسم کا۔ انسان کی فطرت ہے کہ جب تکلیف سے دوچار ہوتا ہے اور زندگی کی سرگرمیاں ٹھنڈی پڑ جاتی ہیں تو پیچھے مڑ کر جھانکنے لگتا ہے۔ اس وقت عظیم طاقت (خداوندتعالیٰ) اسے یاد آجاتی ہے اور اس کی پناہ میں آنا چاہتا ہے۔ جب تکلیف دور ہوجاتی ہے اور زندگی کے عوائق و موانع راستہ سے ہٹ جاتے ہیں تو اس میں زندگی کی رَو دوڑنے لگتی ہے ۔ زندگی کے ولولے اور جذبات اس میں عود کر آتے ہیں ۔ وہ یوں سمجھنے لگتا ہے کہ گویا کوئی تکلیف اسے پہنچی ہی نہیں۔ زندگی ایک آگے دھکیلنے والی قوت ہے۔ وہ پچھلی طرف ہرگز نہیں مڑنے دیتی ۔ بجز اس صورت کے جبکہ اس کے آگے کوئی رکاوٹ کھڑی ہو اور آگے بڑھنے سے مانع ہو۔
 جہاں تک فنی حسن و جمال کا تعلق ہے وہ حالت ِ ضرر کو اس طرح طول دینے میں ہے کہ :
 ’’تو لیٹے اور بیٹھنے اور کھڑا ہونے کی حالت میں ہمیں پکارتا ہے۔‘‘
 اور پھر ازالۂ ضرر کو یوں مختصراً بیان کرنے میں فنّی جمال پایا جاتا ہے :
 ’’ایسا چل نکلتا ہے کہ گویا اس نے کبھی اپنے کسی بُرے وقت پر ہم کو پکارا ہی نہ تھا ۔‘‘
  ان دونوں تصویروں سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آتی ہے کہ جب انسان کے سامنے کوئی شدید رکاوٹ ہوتی ہے تو اس کا طوفانِ حیات رک جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ رکاوٹ بہت طویل ہوجاتی ہے اور جب سنگ ِ گراں راستہ سے ہٹ جاتا ہے تو کشتیٔ حیات رواں دواں ہوجاتی ہے۔ گویا کبھی کسی رکاوٹ سے ہمکنار ہوئی ہی نہیں۔
 قرآن میں اس نمونہ کی منظرکشی بڑی کثرت سے کی گئی ہے۔ اگرچہ منظرنگاری کا طرز و انداز یکساں نہیں تاہم سب کا مرکزی نقطہ ایک ہے اور یہ طریقہ ہائے مختلفہ ایک بنیادی نقطہ پر آکر یکجا ہوجاتے ہیں ۔ مثلاً:
 ’’انسان کا حال یہ ہے کہ جب ہم اس کو نعمت عطا کرتے ہیں تو وہ اینٹھتا اور پیٹھ موڑ لیتا ہے، اور جب ذرا مصیبت سے دو چار ہوتا ہے تو مایوس ہونے لگتا ہے ۔‘‘ (بنی اسرائیل:۸۳)
 ’’اگر کبھی ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازنے کے بعد پھر اس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہوتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے۔ اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی ہم اسے نعمت کا مزا چکھاتے ہیں تو کہتا ہے میرے تو سارے دلدر پار ہو گئے، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے ۔‘‘ (ہود:۹۔۱۰)
 ’’کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ جب اس پر مصیبت آتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے خوشحالی نصیب ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے ۔‘‘ (المعارج: ۱۹؍تا۲۱)
 اس قسم کی آیات قرآن میں بکثرت ہیں۔ غرضیکہ قرآن اس ابدی اور دائمی نمونہ کو انسانی زندگی کے مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے۔ مگر انسانی زندگی کے یہ تمام گوشے ایک حقیقت ِ کبریٰ پر آکر مل جاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان قوت و شوکت کی موجودگی میں …باختلاف الوان مظاہر… آگے بڑھنے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ وہ اپنی قوت کے فریب میں آجاتا ہے اور جملہ لوازمِ حیات سے مستفید ہونا چاہتا ہے۔ ہاں! جب اس کی راہ میں کوئی سنگ ِ گراں حائل ہوجاتا ہے تو وہ رک جاتا ہے۔ راستہ  میں  رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تو وہ پیچھے جھانکنے لگتا ہے۔
۲۔ ضعف ِ عقیدہ:  انسانی نمونوں میں سے ایک خاص نمونہ ضعیف العقیدہ لوگوں کا ہے۔ یہ لوگ کسی عقیدہ کے ساتھ اس وقت تک وابستہ رہتے ہیں جب تک  اس کے ذریعے (مادی) فائدہ پہنچتا رہتا ہے جب اس کی وجہ سے ذرا تکلیف پہنچتی ہے تو اسے فوراً ترک کردیتے ہیں:
 ’’اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو کنارے پر رہ کر اللہ کی بندگی کرتا ہے، اگر فائدہ ہوا تو مطمئن ہو گیا اور جو کوئی مصیبت آ گئی تو الٹا پھر گیا اُس کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی ،یہ ہے صریح خسارہ ۔‘‘ (الحج:۱۱)
 ’’لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ ’’ہم تو تمہارے ساتھ تھے‘‘ کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟ ‘‘ (العنکبوت:۱۰)
۳۔ مصلحت شناسی: بعض لوگ حق پر مبنی کوئی عمل خود انجام دیتے اور اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ جب حق و صداقت پر مبنی وہی کام اور انجام دیتا ہے تو اس کا انکار کردیتے ہیں:
 ’’اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے، اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے؟ باوجود یہ کہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جو ان کے پاس پہلے سے موجو د تھی، باوجود یہ کہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آ گئی، جسے وہ پہچان بھی گئے تو، انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا خدا کی لعنت اِن منکرین پر ۔‘‘ (البقرہ:۸۹)
 ’’جب ان کو بلایا جاتا ہے اللہ اور رسول کی طرف، تاکہ رسول ان کے آپس کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو ان میں سے ایک فریق کترا جاتا ہے۔ البتہ اگر حق ان کی موافقت میں ہو تو رسول کے پاس بڑے اطاعت کیش بن کر آ جاتے ہیں ۔‘‘ (النور:۴۸۔۴۹)
۴۔ بزدلی :کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو حق کو نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس سے آگاہ نہیں ہونا چاہتے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ  ان میں ایک طرف تو ضد و عناد ہوتا ہے جو قبولِ حق سے مانع ہوتا ہے، دوسری جانب وہ بزدل ہوتے ہیں اور حق کا سامنا نہیں کرسکتے:
 ’’ وہ لوگ حق بات میں اس کے ظاہر ہونے کے بعد تم سے جھگڑنے لگے گویا موت کی طرف دھکیلے جاتے ہیں اور اسے دیکھ رہے ہیں۔‘‘ (الانفال:۶)
۵۔ مذاق و تمسخر: بعض لوگ نہایت عجیب انداز سے حق سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں:
 ’’آخر اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ اِس نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں،گویا یہ جنگلی گدھے ہیں جو شیر سے ڈر کر بھاگ پڑے ہیں ۔‘‘ (المدثر: ۴۹؍تا۵۱)
۶۔ فقط ڈیل ڈول کے انسان: یہ منظر بالکل متحرک نظر آتا ہے اور اس سے انسان میں ہنسی مذاق کا داعیہ ابھرتا ہے:
 ’’اِنہیں دیکھو تو اِن کے جثے تمہیں بڑے شاندار نظر آئیں، بولیں تو تم ان کی باتیں سنتے رہ جاؤ مگر اصل میں یہ گویا لکڑی کے کندے ہیں جو دیوار کے ساتھ چن کر رکھ دیئے گئے ہوں۔‘‘ (المنافقون:۴)
 یہ (منافقین کی) بڑی عمدہ تصویر  ہے۔
۷۔ تعریف کے بھوکے: بعض لوگ کچھ بھی نہیں کرتے:
 ’’تم اُن لوگوں کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھو جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ ایسے کاموں کی تعریف اُنہیں حاصل ہو جو فی الواقع انہوں نے نہیں کئے ہیں۔‘‘ (آل عمران:۱۸۸)
۸۔ ہرجائی لوگ: کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی کے بن بلائے مہمان بن جاتے ہیں۔ ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ سب ہی کے دوست ہیں اور سب کے لئے ناگزیر بھی ہیں:
 ’’یہ منافق تمہارے معاملہ میں انتظار کر رہے ہیں (کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے) اگر اللہ کی طرف سے فتح تمہاری ہوئی تو آ کر کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ ا گر کافروں کا پلہ بھاری رہا تو اُن سے کہیں گے کہ کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے اور پھر بھی ہم نے تم کو مسلمانوں سے بچایا؟ ‘‘(النساء:۱۴۱)
۹۔ مکابرہ عجیبہ: مندرجہ ذیل دو آیات  سے ایک عجیب قسم کے مکابرے کا نمونہ واضح ہوتا ہے:
 ’’اگر ہم اُن پر آسمان کا کوئی دروازہ کھول دیتے اور وہ دن دہاڑے اُس میں چڑھنے بھی لگتے ۔تب بھی وہ یہی کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ۔‘‘ (الحجر:۱۴۔۱۵)
 ’’اے پیغمبرؐ! اگر ہم تمہارے اوپر کوئی کاغذ میں لکھی لکھائی کتاب بھی اتار دیتے اور لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تب بھی جنہوں نے حق کا انکار کیا ہے وہ یہی کہتے کہ یہ تو صریح جادو ہے ۔‘‘ (الانعام:۷)
۱۰۔ ڈرنے والے بے حیا کا نمونہ:  جو شخص ڈرتا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ بے شرم بھی ہے، اس کا نمونہ یوں پیش کیا گیا ہے:
 ’’کاش تم اس وقت ان کی حالت دیکھ سکتے جب وہ دوزخ کے کنارے کھڑے کئے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش کوئی صورت ایسی ہو کہ ہم دنیا میں پھر واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی نشانیوں کو نہ جھٹلائیں اور ایمان لانے والوں میں شامل ہوں۔ در حقیقت یہ با ت وہ محض اس وجہ سے کہیں گے کہ جس حقیقت پر انہوں نے پردہ ڈال رکھا تھا وہ اس وقت بے نقاب ہو کر ان کے سامنے آ چکی ہوگی، ورنہ اگر انہیں سابق زندگی کی طرف واپس بھیجا جائے تو پھر وہی سب کچھ کریں جس سے انہیں منع کیا گیا ہے، وہ تو ہیں ہی جھوٹے (اس لئے اپنی اس خواہش کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK