Inquilab Logo

سر اُٹھا کر جینے کیلئےکردار حسینؓ ضروری ہے!

Updated: July 29, 2023, 11:04 AM IST | Mudassar Ahmad Qasmi | Mumbai

آج ہم حضرت حسینؓ سے اپنی محبت کا جائزہ اپنے عمل کے آئینے میں لیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اپنی محبت کے دعوے میں کس حد تک سچے ہیں۔

The soulful scene of Muharram in Ajmer
اجمیرمیں محرم کا روح پرور منظر

آج ہم حضرت حسینؓ سے اپنی محبت کا جائزہ اپنے عمل کے آئینے میں لیں گے اور دیکھیں گے کہ ہم اپنی محبت کے دعوے میں کس حد تک سچے ہیں۔یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ نواسہ رسول ؐحضرت حسین ؓکی شخصیت کو مسلمانوں کے تمام فرقے عقیدت و محبت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ جذبہ محبت اور وابستگی صرف اس وجہ سے نہیں ہے کہ آپؓ نواسہ رسول ؐ ہیں بلکہ اس وجہ سے بھی ہے کہ آپ ؓ حق کے زبردست علمبردار تھے اور اس باب میں آپ نے جو مثال قائم کی ہے وہ رہتی دنیا تک قابل تقلید ہے۔ اس طرح حضرت حسین ؓنے ہمیں یہ پیغام دیا ہے کہ شریعت مطہرہ ہمارے لئے سب سے اوپر ہے۔اگر ہمیں اس کی حفاظت اور اشاعت کیلئے جان کا نذرانہ بھی پیش کرنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
 اس پس منظر میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم حضرت حسینؓ سے محبت کے دعوے کے ساتھ ان کے مشن کو عملاً آگے بڑھا رہے ہیں اور شریعت کی حفاظت اور اشاعت میں ہم بھی وہ جوانمردی دکھا رہے ہیں جو حضرت حسینؓاور ان کے رفقاء کی امتیازی شان تھی؟ سچ یہ ہے کہ اس سوال کا مثبت جواب ہمارے پاس نہیں ہے کیونکہ شریعت کی حفاظت اور اشاعت تو دور کی بات، ہم خود شریعت سے دور ہیں۔ اس سے آگے کی خطرناک بات یہ ہے کہ ہم بہت سارے معاملات میں شریعت کا عملا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ اس طرح کہ شریعت کا حکم کچھ اور ہوتا ہے اور ہمارا عمل کچھ اور کرتے ہیں۔
 ہم اپنی مذکورہ صورت حال کے آئینے میں یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حضرت حسین ؓ اور ان کے مشن سے محبت ہے!  اس صورت حال کے بعد ہماری یہ پوزیشن سامنے آتی ہے کہ ہمارے قول و عمل میں تضاد ہے جو شریعت کی نظر میں انتہائی مذموم حرکت ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اس حوالے سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:’’ اے ایمان والو ! ایسی باتیں کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔‘‘(الصافات ۲۔۳)  معاشرتی اعتبار سے اگر دیکھیں تو قول و عمل میں تضاد ایسی بیماری ہے جو انسان کو اعلیٰ لوگوں کے معیار سے نیچے کر دیتی ہے اور ایسی صفت  کا حامل شخص معاشرے میں اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے۔
حضرت حسین ؓکی زندگی کا ایک انتہائی نمایا ں پہلو جو ہم میں سے اکثر کی زندگی میں ناپید ہے، یہ ہے کہ انہوں نے سر کٹانا تو گوارا کرلیا لیکن باطل کے سامنے سر جھکانا پسند نہیں فرمایا۔ حضرت حسین ؓسے محبت کے دعوے کے باوجود اس پہلو سے آج  ہمارا طرز عمل انتہائی افسوس ناک ہے۔ کیا آج ہم میں سے کچھ لوگ ا پنے چھوٹے بڑے ذاتی فائدہ کیلئےشریعت کے اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ظالموں کی جی حضوری نہیں کر رہے ہیں؟
سچ تو یہ ہے کہ شریعت کے خلاف عمل ہوتا دیکھ کر بھی ہمارے اندر احساس کی چنگاری نہیں سلگتی اور اس طرح ہم ایمان  کے ادنیٰ درجہ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیںکیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:’’تم میں سے جو شخص کوئی برائی دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ سے بدل (روک) دے۔ اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا، تو پھر اپنی زبان سے بدل دے۔ اگر وہ اس کی بھی طاقت نہیں رکھتا، تو پھر اسے اپنے دل میں برا جانے اوریہ ایمان کا کم تر درجہ ہے۔‘‘ (مسلم) 
 ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ دین کے معاملے میں ہماری بے حسی اور مجرمانہ تساہلی نے  ہی بہت سارے فتنوں کو جنم دیا ہے اور ہمیں دشمنوں نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا ہے جتنا ہم نے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس لئےضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر جذبہ حسین ؒ کو زندہ کریں اور کردار حسین ؓکو اپنا کردار بنائیں۔ اس کے بعد ہم سر جھکا کر نہیں بلکہ سر اٹھا کے جینے کے قابل بن جائیں گے۔ ان شاء اللہ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK