سورہ بقرہ کی آیات ۸؍ تا ۲۰؍میں منافقین کی علامات کا مسلسل بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے باقاعدہ طور پر ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔
EPAPER
Updated: May 12, 2023, 12:57 PM IST | Dr. Tahir-ul-Qadri | Mumbai
سورہ بقرہ کی آیات ۸؍ تا ۲۰؍میں منافقین کی علامات کا مسلسل بیان کیا گیا ہے۔ ان کے مطالعہ سے باقاعدہ طور پر ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کرے۔
ہجرتِ مدینہ کے بعد اسلام کو یہودیوں سے سابقہ پڑا ۔ یثرب کے اصلی باشندے گو انصار تھے لیکن عملاً اس علاقے کے اقتدار پر یہود کا قبضہ تھا۔ تجارت و زراعت پر انہی کا تسلط تھا۔ تعلیمی اور معاشرتی اعتبار سے بھی یہ زیادہ مستحکم تھے۔ الغرض مذہب، معیشت اور سیاست کے میدان میں یہود کا سکہ رواں تھا۔ یہ بنیادی طور پر اہل کتاب میں سے تھے لیکن موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کو اس وقت تقریباً ۱۹؍ سو سال گزر چکے تھے۔ تورات لفظاً و معناً ہر طرح محرف (تبدیل) ہو چکی تھی بلکہ اس سے پہلے اور بعد کی آسمانی کتابیں اور صحیفے بھی تحریف کا شکار ہو چکے تھے۔ سب کے عقائد مسخ ہو گئے تھے۔ ان میں غیر الہامی، باطل خیالات کی آمیزش ہو گئی تھی۔ دینِ حق اور نبوت کو انہوں نے نسل اسرائیل کی وراثت سمجھ رکھا تھا۔ یہودیت پر انہیں بہت ناز تھا اور اسی نسلی تفاخر اور متعصبانہ زعم نے انہیں گمراہی سے ہمکنار کر دیا تھا۔ جو تعلیمات الٰہیہ جس قدر بھی صحیح صورت میں موجود تھیں ان کا اخفاء اور خود تراشیدہ تاویلات کے ذریعے ان کی معنوی تحریف ان کا شیوہ تھا۔ مزید برآں ان کے علماء اور سردار بھی اعتقادی گمراہی کے علاوہ عملی تباہی اور گراوٹ کی انتہا کو پہنچ چکے تھے۔ حق پوشی، خود پسندی اور مفاد پرستی کے باعث نہ وہ اپنی اصلاح کے لئے تیار تھے اور نہ ہی کسی ہادی و رہنما کی بات سننے کے لئے ، بلکہ راہِ حق کی طرف بلانے والوں کا تمسخر، ان کی مخالفت و مزاحمت اور ان کے خلاف سازش و کینہ پروری ان کی سیرت کا جزو لا ینفک بن چکی تھی۔ فی الحقیقت یہ ایک ایسی بگڑی ہوئی اُمت تھی جس کی اعتقادی اور عملی اصلاح کی کوئی صورت ظاہراً نظر نہیں آتی تھی کیونکہ یہ لوگ اپنی تمام علمی، اعتقادی، عملی اور اخلاقی خیانتوں کے باوجود خود کو سب سے بڑا دیندار، دانشمند، ہدایت یافتہ اور بخشش کا مستحق طبقہ تصور کرتے تھے۔ حالانکہ انہوں نے خدا کے انعام کو ٹھکرا کر اس کے غضب کو دعوت دی تھی اور نتیجتاً تمام نعمتوں سے محروم ہو چکے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سب سے پہلے ان کی اصلاح اور ان کے اعتقادی اور عملی بگاڑ کے اثرات کو زائل کرنا تھا کیونکہ مدینہ میں سب سے زیادہ ذی اثر اور ذی حیثیت لوگ یہی تھے۔
یہی وجہ ہے کہ سورہ بقرہ کی تعلیمات کا بیشتر حصہ یہود ہی سے متعلق ہے۔ عامۃ الناس اور ملت اسلامیہ کے لئے بھی ان مخصوص تعلیمات کی اہمیت کچھ کم نہیں کیونکہ یہودیت صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ ایک مستقل ذہنیت بن چکی ہے جس کا مشاہدہ ہم آج بھی مختلف کرداروں کے روپ میں کر سکتے ہیں۔
مدنی دور میں منافقین کا طبقہ بھی نمایاں طور پر معرضِ وجود میں آ گیا تھا۔ اسلام کو کھلی مخالفت و مزاحمت کا سامنا تو آغازِ دعوت کے وقت سے ہی تھا اور اہلِ اسلام اس سلسلے میں بے پناہ مصائب و شدائد برداشت کرتے چلے آئے تھے۔ لیکن ہجرت مدینہ کے بعد ایک نئی طرز کی مخالفت بھی بڑے زور و شور سے شروع ہو گئی اور یہ تھی ’’منافقت۔‘‘کچھ لوگوں نے زبان سے اقرار کر لیا، ظاہراً اسلام کے دائرے میں داخل ہو گئے اور مسلمانوں کے ہمراہ اسلامی تحریک میں شامل ہونے کا دعویٰ کرنے لگے لیکن یہ لوگ فی الحقیقت ’’منافق‘‘ تھے اور منافقین بھی کئی اقسام کے تھے:
منافقین کی اَقسام
پہلی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے برحق ہونے کے قائل تھے لیکن اس کی خاطر نہ اپنے مفادات کی قربانی کے لئے تیار تھے اور نہ مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے لئے لہٰذا کچھ خود غرضی و مفاد پرستی اور کچھ بزدلی ان کے سچا مسلمان ہونے کے راستے میں حائل تھی۔
دوسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو دل سے قطعاً اسلام کے منکر تھے اور محض سازش اور فتنہ و شر کے لئے اسلامی صفوں میں گھس آئے تھے۔ یہ اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔
تیسری قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کے اقتدار و حکومت کے باعث مفاد پرستانہ خواہشات کے تحت اسلام سے وابستہ ہو گئے تھے۔ لیکن مخالفین ِ اسلام سے بھی اپنا تعلق بدستور قائم رکھے ہوئے تھے تاکہ دونوں طرف سے حسب ِ موقع فوائد بھی حاصل کر سکیں اور دونوں طرف کے خطرات سے بھی محفوظ رہیں۔
چوتھی قسم ایسے منافقین کی تھی جو ذہنی طور پر اسلام اور کفر کے درمیان متردد تھے۔ نہ انہیں اسلام کی حقانیت پر کامل اعتماد تھا اور نہ وہ اپنی سابقہ حالت ِ کفر یا جاہلیت پر مطمئن تھے۔ وہ اوروں کی دیکھا دیکھی مسلمان ہو گئے تھے لیکن اسلام ان کے اندر راسخ نہیں ہوا تھا۔
پانچویں قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو حق سمجھے ہوئے دل سے اس کے قائل تو ہو چکے تھے لیکن پرانے اوہام و عقائد اور رسم و رواج کو چھوڑنے، دینی اور اخلاقی پابندیوں کو قبول کرنے اور اوامر و نواہی کے نظام پر عمل پیرا ہونے کے لئے ان کا نفس تیار نہیں ہو رہا تھا۔
چھٹی قسم ایسے منافقین کی تھی جو اسلام کو توحید، احکامِ الٰہی اور آخرت وغیرہ پر ایمان لانے کی حد تک تو تسلیم کرتے تھے لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور وفاداری سے گریزاں تھے۔ نہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و سیادت دل سے ماننے کو تیار تھے اور نہ آپؐ کی حاکمیت و شفاعت۔ اس میں وہ اپنی ہتک اور ذلت محسوس کرتے تھے۔ چنانچہ وہ تعلق نبویؐ کے بغیر ذاتِ ربانی تک رسائی حاصل کرنے کے خواہاں تھے۔
اسلام اپنے پیروکاروں کو تمام منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ وہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اس لئے سورہ بقرہ نے اس سلسلے میں اہم اشارات فراہم کئے تاکہ حق و باطل میں امتیاز کا صحیح شعور پیدا ہو سکے۔ اس کا دوسرا رکوع اس ضمن میں بطورِ خاص نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔(ملاحظہ کیجئے آیات ۸؍تا ۲۰)
سورہ بقرہ کے پہلے رکوع میں دو گروہوں کا بیان تھا۔ ایک مومنین و متقین کا اور دوسرا کفار و منکرین کا۔ پہلا گروہ دل و دماغ اور قول و عمل ہر طرح سے ایمان لانے والوں پر مشتمل تھا۔ جب کہ دوسرا گروہ ظاہراً و باطناً ہر طرح سے اسلام کا انکار کرنے والوں پر۔یہاں سے تیسرے گروہ کا بیان شروع ہو رہا ہے جو گروہ منافقین ہے۔
مختصر تاریخی پس منظر
یہاں منافقین کے وجود کا مختصر تاریخی پس منظر واضح کرنا ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ اہلِ ایمان اور اہل کفر کے علاوہ اہلِ نفاق کا تیسرا گروہ کیوں معرض وجود میں آ گیا تھا۔
اہلِ مدینہ کے قبیلہ خزرج کا ایک بہت بڑا سردار عبد اللہ ابن ابی تھا۔ اُسے اس کے اثر و رسوخ کے باعث مدینہ کا حکمراں بنایا جا رہا تھا۔
نبی اکرم ﷺ کی ہجرت سے صورتِ حال میں زبردست تبدیلی آگئی۔ یہودیوں سمیت تمام اقوام نے متفقہ طور پر آپﷺ کو مدینہ کا حاکم تسلیم کر لیا۔ جس سے عبداللہ بن اُبی اور اُس کے ساتھیوں کے مزعومہ مفادات کو سخت نقصان پہنچا۔ چنانچہ وہ اس دن سے اسلام اور بانیٔ اسلام ﷺکے خلاف مخفی کاروائیوں اور پس پردہ سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ یہ طبقہ اسلام کے خلاف کھلی مخالفت و مزاحمت کی جرأت نہ کر سکا۔ لہٰذا ظاہراً اسلام سے وابستگی کا لبادہ اوڑھ کر مختلف قسم کی فتنہ انگیزیوں کاجال بچھانے لگا۔ قرآن مجید نے اس طبقے کی نشاندہی اس قدر جامع اور ہمہ گیر انداز میں کی ہے کہ نہ صرف عہد رسالت کے منافقین کی واضح تصویر سامنے آ جاتی ہے بلکہ ہر دور میں منافقت کے مختلف روپ بے نقاب ہوتے چلے جاتے ہیں۔
یہاں (سورہ بقرہ میں)منافقوں کی علامات اور ان کی نفسیات کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ اس لئے بیان کیا گیا ہے کہ حقیقت میں یہی خرابی اہلِ اسلام کی ذلت و رسوائی کا باعث بنی ہے۔ اگر اس کی صحیح قرآنی پہچان سامنے رہے اور اس کا علاج بھی قرآن و سنت کے مطابق جرأت مندی کے ساتھ کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان زوال و انحطاط کی حالت سے نجات نہ پا سکیں۔
آیت نمبر۸۔۹؍ میں منافقت کی دو اہم علامات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:
دعویٔ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اُس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
ان آیات کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان لانے کی بات تو کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان پر ایمان نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کا قول ایمان زبان کے اقرار کی حد تک ہے مگر دل کی تصدیق سے محروم ہے۔ اس بیان سے یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ جو بات محض زبان سے کہی جائے دل اس کی تصدیق و تائید نہ کر رہا ہو تو یہ منافقت کی سب سے پہلی پہچان ہے۔ خواہ کہی ہوئی بات خدا و آخرت پر ایمان لانے کی ہی کیوں نہ ہو۔ جب ایسی پاکیزہ بات کا، جو اسلام اور ایمان کا اصل الاصول ہے صرف زبان سے ادا ہونا خدا کے ہاں منافقت ہے تو زندگی کے عام معاملات میں باہمی گفتگو اور تعلقات کا یہ انداز منافقت کیوں نہ قرار پائے گا۔ اس معیار کو سامنے رکھ کر ہمیں اپنے شب و روز کا جائزہ لینا چاہئے کہ ہم جس کسی سے جو کچھ بھی کہتے ہیں کیا دل سے کہتے ہیں یا محض زبان سے۔ اگر دل کی کیفیت ہماری زبان کی ہمنوا نہ ہو تو زبان میں تاثیر کہاں سے آئے اور اس منافقانہ رویہ زندگی میں برکت و نتیجہ خیزی کہاں سے پیدا ہو؟