اول تو مالیگاؤں کافیصلہ ٹرائل کورٹ کا ہے جس میں بری تو کیاگیا مگر ملزمین کو کلین چٹ نہیں دی گئی جبکہ ٹرین بلاسٹ کا فیصلہ ہائی کورٹ کا ہےجس نے یہ کہہ کر ملزمین کو کلین چٹ دی کہ ’’یہ یقین کرنامشکل ہے کہ ماخوذ کئے گئے افراد نے اِس جرم کا ارتکاب کیا ہے‘‘
بری ہونے والےمالیگاؤں بم دھماکہ کے ملزمین کی یہ خوشی مقدمے میں این آئی اے کی نرمی کا نتیجہ ہے۔ تصویر:آئی این این۔
مالیگاؤں بلاسٹ ۲۰۰۸ء کیس کا وہی فیصلہ آیا جس کا اندیشہ تھا۔ یہ اتفاق ہے کہ مہاراشٹر میں دہشت گردانہ حملوں کے۲؍ اہم مقدمات کے فیصلے ۱۰؍ دن کے دورانیہ میں آئے اور دونوں میں ملزمین کو بری کر دیا گیا۔ مالیگاؤں کےکیس میں این آئی اے کی خصوصی عدالت نے یہ کہتے ہوئے کہ بلاسٹ میں ملزمین کے ملوث ہونے کا ’’شبہ بہت پختہ‘‘ ہے لیکن شبہ’’قانونی ثبوت‘‘کا متبادل نہیں ہو سکتا، سادھوی پرگیہ اور کرنل پروہت سمیت اس مقدمے کے تمام ۷؍ ملزمین کو بری کر دیا۔ اس سے قبل ۲۱؍ جولائی کو بامبے ہائی کورٹ نے ٹرین بم دھماکہ کیس میں جو تاریخی فیصلہ سنایا اس میں بھی ملزمین کو بری کیاگیا مگر اس میں ۲؍ رکنی بنچ نے یہ کہتے ہوئے ملزمین کو فوری طور پر بری اور رہا کرنے کا حکم دیا کہ ’’یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ ماخوذ کئے گئے افراد نے اس جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ ‘‘ ملزمین کو بری کرنے کے تعلق سے دونوں فیصلوں کے عدالتی ریمارکس سب کچھ بیان کردینےکیلئے کافی ہیں۔
یہ حیرت انگیز ہے کہ ایک طبقہ مالیگاؤں بم دھماکوں کے ملزمین کو بری کرنے کے فیصلے کا موازنہ ٹرین بم دھماکوں میں ملزمین کے بری کئے جانے کے ہائی کورٹ کے فیصلے سے کررہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ یہ اظہر من الشمس ہے کہ ایک کیس میں استغاثہ نے اس بات کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا کہ ملزمین کو پھانسی کی سزا ہوا اور ٹرائل کورٹ کے مرحلے میں وہ بڑی حدتک کامیاب بھی ہوا جبکہ دوسرے (مالیگاؤں بلاسٹ)کیس میں سماعت کے دوران کئی بار استغاثہ اور دفاع میں فرق کرنا ہی مشکل ہوجاتا تھا۔ کیس این آئی اے کے سپرد ہونے اور مرکز میں حکومت کی تبدیلی کے بعد کئی موقعوں پر استغاثہ کی کوشش ملزمین پر عائد کئے گئے الزامات کو ثابت کرنے سے زیادہ انہیں کلین چٹ دینے کی نظر آئی۔ مثال کے طو رپر اگر استغاثہ کی چلتی تو سادھوی پرگیہ کے خلاف کیس ہی نہ چل پاتا۔ پہلے ۱۳؍ مئی ۲۰۱۶ء کو اپنی دوسری اضافی چارج شیٹ میں این آئی اے نے اس کیس سے مکوکا کو ہٹا دیا جس کے بعد ملزمین کے وہ اقبالیہ بیانات جومکوکاکے اطلاق کی شکل میں بطور ثبوت قابل قبول تھے، اپنی حیثیت کھوبیٹھے پھرباقاعدہ سماعت شروع ہونے سے قبل این آئی اے نے عدالت میں درخواست دی کہ ملزمین کی فہرست سے پرگیہ ٹھاکر کا نام ہٹا دیا جائے کیوں کہ ان کے خلاف سازش میں ملوث ہونے کے ثبوت نہیں ہیں۔ یہ تو کورٹ کی سختی تھی کہ اُس نے ’’بادی النظر میں موجود شواہد‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے این آئی اے کی اس درخواست کو مسترد کردیا اور فیصلہ سنایا کہ سادھوی کو مقدمہ کا سامنا کرنا پڑےگا۔
این آئی اے اوراس کے وکیلوں کا یہ رویہ اس کیس کی تیز طراروکیل استغاثہ روہنی سالیان جنہیں ۲۰۱۷ء میں مقدمہ سے ہٹا دیاگیا، کے اس دعوے کی بھی تصدیق کرتا نظر آیا کہ انہیں ملزمین کے تعلق سے ’نرمی‘ کی ہدایت دی گئی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کیس این آئی اے کے سپرد کئے جانے کے بعد مرکز میں حکومت بدلتے ہی این آئی اے کا رویہ اس کیس کے تعلق سے یکسرتبدیل ہوگیا۔ ہیمنت کرکرے اور ان کی ٹیم نے جو کیس انتہائی جانفشانی اور کئی چیلنجز کا سامنا کرتے ہوئے کھڑا کیاتھا، این آئی اے نے اسے مسترد کردیا۔ روہنی سالیان بتاتی ہیں کہ ’’مجھے تو اسی فیصلے کا اندیشہ تھا۔ جب آپ پہلے پیش کئے گئے شواہد کی جگہ دوسرے شواہد پیش کریں گے تو کچھ بھی ہوسکتاہے۔ ا ین آئی اے کے مطابق پہلے کی گئی جانچ غلط تھی، اس لئے انہوں نے پوری جانچ دوبارہ کی، دوبارہ ملزمین کے بیان ریکارڈ کئے۔ یہ بیان اے ٹی ایس کو دفعہ ۱۶۴؍ کے تحت (جو عدالت میں بطور ثبوت قابل قبول ہوتے ہیں ) دیئے گئے سابقہ بیانات سے مختلف تھے۔ کورٹ میں یہی نئے شواہد پیش کئے گئے، ان ہی کی بنیاد پر عدالت نے اپنافیصلہ سنایا۔ ‘‘ یعنی جس طرح کے شواہد پیش کئے گئے، اس طرح کا فیصلہ آیا۔ یہ بھی کم دلچسپ نہیں کہ ۱۳؍ کلیدی گواہوں کے بیانات جو اے ٹی ایس نے ۱۶۴؍ کے تحت درج کئے تھے، ۲۰۱۶ء میں کورٹ کے ریکارڈ سے اس طرح غائب ہوئے کہ مقدمہ کی سماعت مکمل ہونے تک نہیں ملے۔ مقدمے کے ۳۳؍ اہم گواہ منحرف ہوگئے اور این آئی اے نے کسی ایک کے خلاف بھی دروغ حلفی کی کارروائی کی درخواست نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انگریزی اخبار ڈیکن ہیرالڈ نے اپنے اداریہ میں لکھا ہےکہ ’’ مالیگاؤں کیس اس امرکی افسوسناک داستان بن چکا ہے کہ کس طرح دہشت گردی کی تفتیش کو آسانی سے موڑا جاسکتا ہے، کس طرح بیانیے دوبارہ لکھے جاتے ہیں اور کس طرح انصاف کو انتخابی حساب کتاب کی خاطر پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔ ‘‘
مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں ملزمین کے ساتھ استغاثہ کی اس نرمی کے برخلاف ٹرین بم دھماکوں کے کیس میں اس کی غیر معمولی سختی نظر آتی ہے۔ ذیلی عدالت سے اس نے ۵؍ کو پھانسی اور ۷؍ کو عمر قید کی سزا دلانے میں بھی کامیابی حاصل کرلی تھی مگر ہائی کورٹ سے اس کی تصدیق حاصل نہیں کرسکا اور وہاں اس کی ساری قلعی کھل گئی۔ بامبے ہائی کورٹ کا ٹرین بم دھماکہ کیس کے فیصلے کا یہ جملہ کہ ’’کیس کو حل کرلینے کا تاثر دیاگیا‘‘ اے ٹی ایس کی غلط جانچ کی طرف اشارہ کرتا ہے جبکہ مالیگاؤں کیس میں این آئی اے کی خصوصی عدالت کا یہ جملہ کہ بلاسٹ میں ملزمین کے ملوث ہونے کا ’’شبہ بہت پختہ‘‘ ہے لیکن شبہ’’قانونی ثبوت‘‘کا متبادل نہیں ہو سکتا، ملزمین کے جرم کو ثابت کرنے میں تفتیشی ایجنسی کی کوتاہی کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اس لئے دونوں فیصلوں کا آپس میں کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔