Inquilab Logo Happiest Places to Work

مصنوعی ذہانت کا ’’اوبنٹو‘‘  

Updated: August 03, 2025, 5:37 PM IST | Sundeep Waslekar | Mumbai

جنوبی افریقہ کو اپنے فلسفے ’’اوبنٹو‘‘ پھر فخر ہے جس کا مطلب ہے ’’مَیں ہوں کیونکہ ہم ہیں۔ ‘‘ یہاں کے شہری کہتے ہیں، ’’اگر جدید ترین اے آئی نظام سے انسانیت کے وجود یا استحکام کو خطرہ لاحق ہو جائے تو کرہ ارض کے تمام لوگ متاثر ہوں گے۔ اگر سب تباہ ہو جائیں تو مَیں بھی ختم ہوجاؤں گا۔ ‘‘

Sandeep Waslekar during a meeting on South Africa`s AI policy with Planning Minister Marupen Ramokgopa and other members at the South African President`s Office. Photo: INN.
سندیپ واسلیکر جنوبی افریقہ کے صدر کے دفتر میں وزیر منصوبہ بندی ماروپین راموکگوپا اور دیگر ممبران کے ساتھ جنوبی افریقہ کی اے آئی پالیسی پر میٹنگ کے دوران۔ تصویر: آئی این این۔

کگالیما موٹلانتھے جنوبی افریقہ کے نامور اور معزز سیاستداں ہیں جنہوں نے ملک کے تیسرے صدر کے طور پر ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء خدمات انجام دیں۔ اگرچہ وہ ’’گزرنے والی نسل‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں مگر ’’آنے والے کل کی نسل‘‘ کے بارے میں ہمہ وقت سوچتے رہتے ہیں۔ جوہانسبرگ میں واقع ان کا ادارہ غریب علاقوں کے اسکولی طلبہ کو ڈجیٹل مہارتوں سے لیس کرنے کیلئے وقف ہے۔ یہ انہیں روبوٹکس اور کوڈنگ سکھاتا ہے۔ ۱۴۔ ۱۵؍  سال کے طلبہ جب ان کے فاؤنڈیشن کا دورہ کرتے ہیں تو ان کی خوشی اور جوش دیدنی ہوتا ہے۔ اس ادارے کا اگلا مرحلہ ان طلبہ کو اے آئی (آرٹی فیشیل انٹیلی جنس، مصنوعی ذہانت) سے لیس کرنا ہے۔ 
سابق صدر کے دوست میتھیوز فوسا کے خیالات مختلف ہیں۔ وہ موٹلانتھے ہی کی طرح تحریک آزادی کے مجاہد ہیں۔ پچھلی دو دہائیوں میں وہ ’’کنگ میکر‘‘ بن چکے ہیں۔ وہ ایک انتہائی کامیاب سیاستداں، وکیل، تاجر اور مصنف ہیں۔ وہ عالمی تکنیکی دوڑ میں جنوبی افریقہ کے مقام کے بارے میں بھی فکر مند رہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ وزراء کے پاس درست اور قابل عمل پالیسیاں ہوں جو اے آئی کے عالمی قوانین پر بات چیت کے وقت جنوبی افریقہ کو ایک خاص مقام عطا کریں۔ 
دونوں ہی متذکرہ شخصیات کی حکمت عملیوں میں ایک مشترکہ پیغام ہے۔ جنوبی افریقہ کے ماضی کے مسائل ہیں جو حال تک آگئے ہیں لیکن اسے مستقبل پر نظر رکھنا چاہئے۔ دونوں ہی کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت اس صدی کا اہم محرک ہے۔ جنوبی افریقہ اس بات پر ناراض ہے کہ موجودہ اے آئی ماڈلز نسلی تعصب رکھتے ہیں۔ جب آپ گروک، چیٹ جی پی ٹی یا جیمینائی سے کامیاب بزنس مین کے بارے سوال کریں تو وہ سوٹ بوٹ میں ملبوس کسی سفید فام شخص کی تصویر پیش کرے گا۔ یہ سیاہ فام نسل کے کسی کامیاب بزنس مین کی تصویرکشی نہیں کرے گا۔ جب ان ماڈلز سے کہا جائے کہ کسی مجرم کی تصویر بنادے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ اس کے جواب میں پھٹی ہوئی قمیص پہنےکسی سیاہ فام آدمی کی تصویر ہی پیش کر ے گا۔ 
جنوبی افریقہ نئی ٹیکنالوجی میں نسلی تعصب کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے۔ پیلونومی موئلا اور ووکوسی موریواتے نے ایک ماڈل تیار کیا ہے جسے جنوبی افریقی زبانوں پر تربیت دی جا رہی ہے۔ یہ ایسا رجحان ہے جسے ہم ہندوستان، برازیل، کوریا اور سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں دیکھ سکتے ہیں۔ مقامی زبان کے ڈیٹا پر تربیت یافتہ اے آئی ماڈلز مقبول ہو رہے ہیں۔ لیکن نسلی، ثقافتی اور صنفی توازن کو ظاہر کرنے والے دنیا کے معروف ماڈلز کا سوال جوں کا توں ہے۔ ان ممالک کیلئے مصنوعی ذہانت کے مستقبل کی تشکیل کیلئے عالمی قوانین کی تشکیل کیلئے اکٹھا ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ جنوبی افریقی اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ اسے عالمی کردار ادا کرنا چاہئے، لیکن وہ ایسا اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک نسلی تعصب کی شکایت کرتا رہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ اسے اس تعصب سے بالاتر ہو کر جدید ترین اے آئی نظام کے ذریعے پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ 
 گزشتہ دنوں میری ملاقات الفریڈ مشیشی سے ہوئی۔ وہ جنوبی افریقہ کی ڈجیٹل ٹیکنالوجی کی وزارت میں ایک اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ انہوں نے اے آئی کے مستقبل پر کئی پالیسی پیپرز لکھے ہیں جن میں سے کچھ پر پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی ہے۔ ان تمام دستاویزات میں پیغام واضح ہے: ’’جنوبی افریقہ عالمی سطح پر ایک اہم کھلاڑی بننا چاہتا ہے۔ اس میں نہ صرف تکنیکی ترقی شامل ہے بلکہ عالمی اے آئی اخلاقیات اور گورننس فریم ورک کو متاثر کرنا بھی شامل ہے۔ ‘‘ کیپ ٹاؤن اور پریٹوریا میں جن وزراء، اعلیٰ حکام، اور سیاستدانوں سے میں نے ملاقات کی، انہوں نے اسی خواہش کا اظہار کیا۔ 
جنوبی افریقہ مقامی خدشات کو مستقبل کے عالمی خطرات کے ساتھ یکجا کرنے کیلئے منفرد حیثیت رکھنے کا خواہش مند ہے۔ یہاں کے شہریوں کو احساس ہے کہ ’’وہ اس تعصب سے گزر چکے ہیں۔ ‘‘ انہوں نے صرف ۴۰؍ سال قبل نسل پرستی سے آزادی حاصل کی ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ الگورتھم اس رنگ برنگی دنیا پر حکمرانی کرے۔ ان کے پاس کبھی ایٹمی ہتھیار تھے جنہیں انہوں نے رضاکارانہ طور پر ختم کر دیا۔ وہ نہیں چاہتے کہ اے آئی جوہری ہتھیار جیسے دوسرے خطرناک ہتھیار میں تبدیل ہو۔ جنوبی افریقہ کے لوگ دیکھتے ہیں کہ اے آئی کے مستقبل کو ان کی اپنی تاریخ کے تجربے سے تشکیل دینا چاہئے۔ 
انہیں اپنے فلسفے پر بھی فخر ہے جسے ’اوبنٹو‘ کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ’’مَیں ہوں کیونکہ ہم ہیں۔ ‘‘ اگر جدید ترین اے آئی نظام سے انسانیت کے وجود یا استحکام کو خطرہ لاحق ہو جائے تو کرہ ارض کے تمام لوگ متاثر ہوں گے۔ اگر سب تباہ ہو جائیں تو مَیں بھی ختم ہوجاؤں گا۔ ناقدین کا استدلال ہے کہ جنوبی افریقی اپنی روزمرہ کی زندگی میں ’اوبنٹو‘ کی پیروی نہیں کرتے۔ ہو سکتا ہے اس میں سچائی ہو۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ جنوبی افریقہ اپنی خارجہ پالیسی میں ’اوبنٹو‘ کی پیروی کرتا ہے۔ صدر سیرل رامافوسا نومبر میں جی ۲۰؍  سربراہی اجلاس کی صدارت کریں گے۔ 
 خیال رہے کہ جنوبی افریقہ برکس اور بہت سے پین افریقن فورمز کا ایک فعال رکن بھی ہے۔ اس کے پاس دنیا میں اے آئی گورننس کیلئے ایک نیا ’’اوبنٹو‘‘ (Ubuntu) پیش کرنے کے مواقع ہیں۔ لیکن یہ آسان نہیں ہوگا۔ جی ۲۰؍ کے میزبان کے طور پر جنوبی افریقہ کو تقریباً ۳۰۰؍ ماہر گروپس سے تجاویز موصول ہوئی ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے متعلق سفارشات ٹیکنالوجی تک رسائی اور شمولیت پر رک جاتی ہیں۔ وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ اے آئی انتہائی جدید نظاموں کی سمت بڑھ رہا ہے، اور یہ ممکنہ طور پر انسانی معاشرے پر کنٹرول حاصل کر سکتا ہے۔ جس طرح جنوبی افریقہ نے نسل پرستی اور اپنے جوہری ہتھیاروں کو مسترد کرنے کی جرات کا مظاہرہ کیا، اسی طرح اسے انصاف اور انسانیت کیلئے ذمہ داری کے اصولوں کو فروغ دینے کیلئے عالمی کردار ادا کرنا ہوگا۔ 
(سندیپ واسلیکر، اسٹریٹجک فورسائٹ گروپ کے صدر ہیں، جو ایک بین الاقوامی تھنک ٹینک ہے۔ آپ ’’اے ورلڈ وِدآؤٹ وار‘‘ کے مصنف بھی ہیں۔ )

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK