سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں فتح مکہ کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں ملاحظہ کیجئے کہ آپؐ کوہِ صفا پر تھے ، لوگ ٹولیاں بنا بنا کر حاضرخدمت ہوکر بیعت کررہے تھے ، ان میں رؤسائے مکہ بھی تھے اور خواتین بھی
EPAPER
Updated: July 14, 2023, 11:27 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai
سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں فتح مکہ کا تذکرہ جاری ہے۔ آج کی قسط میں ملاحظہ کیجئے کہ آپؐ کوہِ صفا پر تھے ، لوگ ٹولیاں بنا بنا کر حاضرخدمت ہوکر بیعت کررہے تھے ، ان میں رؤسائے مکہ بھی تھے اور خواتین بھی
کوہِ صفا پر بیعت
(گزشتہ سے پیوستہ) لوگ الگ الگ یا ٹولیاں بنا کر حاضر ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کرتے۔ روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اسی دن حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ نے بھی اسلام قبول کیا، اسود بن خلفؓ کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپؐ لوگوں کو بیعت کررہے ہیں، اس وقت آپ سمرہؓ کے گھر کے پاس تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! اسلام کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ پر ایمان لانا، میں نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! کلمۂ شہادت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ (مسند احمد: ۲۴/۱۶۱،رقم الحدیث: ۱۵۴۳۱، مستدرک حاکم: ۳/۳۳۵، رقم الحدیث: ۵۲۸۳) اسی دوران ایک شخص ڈرا سہما ہانپتا کانپتا حاضر ہوا، آپؐ نے اس سے فرمایا کہ ’’ڈرو مت، میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میں تو ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کھایا کرتی تھی۔‘‘ (ابن ماجہ: ۲/۱۱۰۱،رقم الحدیث: ۳۳۱۲)
مُجاشع بن مسعود اپنے بھائی مجالد بن مسعود کو لے کر آئے اور عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میں اپنے بھائی کو لے کر حاضر ہوا ہوں، آپؐ ان کو ہجرت پر بیعت فرمالیجئے، آپؐ نے فرمایا: ہجرت انہی لوگوں کے لئے تھی جو ہجرت کرچکے ہیں، میں نے عرض کیا: اب ہم آپؐ سے کس بات پر بیعت کریں، آپؐ نے فرمایا: اسلام پر اور جہاد پر۔ (صحیح البخاری: ۴/۵۰،رقم الحدیث:۲۹۶۲) بخاری شریف میں یہ روایت موجود ہے اور اس کا ذکر پہلے بھی آچکا ہے کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’فتح کے بعد ہجرت باقی نہیں رہی، لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اگر تم راہِ خدا میں نکلنا چاہو تو نکلو۔‘‘ (صحیح البخاری: ۴/۱۵، رقم الحدیث: ۲۷۸۳) اس روایت کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہجرت جو مکہ مکرمہ سے کی جاتی تھی اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے؛ کیوں کہ اب اس شہر کی حیثیت بدل چکی ہے، اللہ نے اسلام کو سربلندی عطا فرمادی ہے اور لوگ جوق درجوق اس دین میں داخل ہورہے ہیں، البتہ دار کفر سے دار اسلام یا دار امن کی طرف ہجرت کرنے کا سلسلہ قیامت تک باقی رہے گا، اگر کوئی شخص کسی ایسی جگہ رہ رہا ہو جہاں وہ اپنے دینی شعائر پر آزادی کے ساتھ عمل نہیں کرسکتا اسے چاہئے کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ نے کی کوشش کرے، یہ بھی ہجرت ہی ہے اگرچہ مقام ومرتبے میں اور اجر وثواب میں اس ہجرت سے کم ہے جو اسلام کے ابتدائی دنوں میں مکہ سے حبشہ اور مدینہ کی طرف کی گئی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے جہاد اور انفاق فی سبیل اللہ کی مشروعیت ابھی بھی باقی ہے، لیکن اگر یہ دونوں عمل فتح مکہ سے قبل کئے گئے ہیں تو ان کا اجر وثواب فتح مکہ کے بعد کئے جانے والے اعمال کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس سلسلے میں قرآن کریم کی یہ آیت بہ طور دلیل پیش کی جاسکتی ہے:
’’اور تمہارے لئے کون سی وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، حالاں کہ آسمانوں اور زمین کی ساری میراث اللہ ہی کے لئے ہے، تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں، وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ سب سے کررکھا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘ (الحدید:۱۰)
روایات میں ہے کہ مَردوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام پر اور اللہ ورسول کی اطاعت پر بیعت لی، مردوں کے بعد عورتیں حاضر خدمت ہوئی تھیں، آپؐ نے ان کو بھی بیعت فرمایا، قریش کی جو خواتین اس وقت بیعت کے لئے حاضر ہوئیں ان میں یہ چند نام قابل ذکر ہیں: ام ہانیؓ بنت ابی طالب( حضرت علیؓ کی ہمشیرہ)، ام حبیبہؓ بنت عاص بن امیہ عمرو بن عبدودعامری کی بیوی، اروٰی بنت ابی العَیص، عتاب بن اُسید کی پھوپھی، عاتکہ بنت أبی العیص، ہند بنت عتبہ اہلیہ ابوسفیانؓ والدہ حضرت معاویہؓ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے بیعت کرتے ہوئے مصافحہ نہیں فرمایا۔ (صحیح البخاری: ۶/۱۵۰، رقم الحدیث: ۴۸۹۱، صحیح مسلم: ۳/۱۴۸۹، رقم الحدیث: ۱۸۶۶) آپؐ خواتین سے صرف زبانی کلمات کے ذریعے بیعت فرمایا کرتے تھے، آپؐ کا ارشاد تھا کہ میرا ایک عورت سے کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے میں سو عورتوں سے کچھ کہہ رہا ہوں۔ (البدایہ والنہایہ: ۴/۳۱۹)
بہر حال آپ نے آج کے دن متعدد خواتین کو بیعت فرمایا اور ان سے وہ الفاظ کہلوائے جو عورتوں کی بیعت کے سلسلے میں نازل شدہ آیت کریمہ میں موجودہ ہیں، ارشاد ربانی ہے:
’’اے نبی! جب آپ کی خدمت میں مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کے لئے حاضر ہوں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہرائیں گی اور چوری نہیں کریں گی اور بدکاری نہیں کریں گی اور اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان سے کوئی جھوٹا بہتان گھڑ کر نہیں لائیں گی (یعنی اپنے شوہر کو دھوکہ دیتے ہوئے کسی غیر کے بچے کو اپنے پیٹ سے جنا ہوا نہیں بتائیں گی) اور (کسی بھی) امرِ شریعت میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی، تو آپ اُن سے بیعت لے لیا کریں اور اُن کے لئے اللہ سے بخشش طلب فرمائیں، بیشک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔‘‘ (الممتحنہ:۱۲)
ہند بنت عتبہ کی بیعت کا واقعہ
حضرت ابوسفیانؓ کی بیوی اور حضرت معاویہؓ کی والدہ ہند بنت عتبہ بھی فتح مکہ کے دن بیعت کرنے والی خواتین میں شامل تھیں، فتح مکہ سے پہلے وہ اسلام کی اور پیغمبر اسلام کی سخت دشمن تھیں، مگر فتح کے بعد اللہ نے ان کا دل بدل دیا، وہ نادم ہوکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں، اس وقت انہوں نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال رکھا تھا، تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ان پر نہ پڑے، مبادا آپ کو اپنے چچا حضرت حمزہؓ کی شہادت کا خیال آجائے اور وہ انہیں اس خوشی اور مسرت کے موقع پر غمگین کردے، ہند بنت عتبہ نے آکر عرض کیا: یارسولؐ اللہ! آپؐ ہم سے کن باتوں پر بیعت لیتے ہیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس بات پر کہ ہم خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گی، ہندہ نے کہا: یارسولؐ اللہ! آپؐ ہم سے ان اُمور پر بیعت لیتے ہیں جن پر مردوں سے نہیں لیتے، تاہم ہمیں آپؐ کی تمام باتیں منظور ہیں، رسولؐ اللہ نے فرمایا: اور یہ کہ ہم چوری نہیں کریں گی، ہندہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! میرے شوہر ابوسفیان بخیل آدمی ہیں، وہ مجھے اتنا نہیں دیتے جو مجھے اور میرے بچوں کے لئے کافی ہوجائے، میں اُن کے مال میں سے کچھ لے لیتی ہوں، اور انہیں معلوم نہیں ہو تاکہ میں نے لیا ہے، کیا یہ چوری ہے، ابوسفیانؓ اس وقت وہیں موجود تھے انہوں نے کہا جو گزر چکا وہ معاف ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا: تم اپنے شوہر کے مال میں سے اتنا لے سکتی ہو جو تمہیں اور تمہارے بچوں کو کفایت کرجائے، اور یہ کفایت کرجانا عُرف اور دستور کے مطابق ہو، اس کے بعد آپؐ نے فرمایا کہ اس بات پر عہد کرو کہ زنا نہیں کروں گی، ہندہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا کوئی شریف عورت زنا بھی کرسکتی ہے، رسولؐ اللہ نے فرمایا: اور اولاد کو قتل نہیں کروں گی، ہندہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم نے تو اپنے بچوں کو چھوٹے سے بڑا کیا، پھر جب وہ بڑے ہوگئے تو بدر کے دن آپ نے ان کو قتل کردیا۔ آپ جانیں اور وہ جانیں، حضرت عمر بن الخطابؓ بھی یہ گفتگو سن رہے تھے، وہ یہ سن کر ہنس پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور کسی پر تہمت نہیں لگاؤں گی، ہندہ نے کہا: خدا کی قسم کسی پر بہتان لگانا نہایت برا فعل ہے، اور آپؐ ہمیں صرف ہدایت کی باتیں بتلاتے ہیں اور اچھے اخلاق اختیار کرنے کا حکم دیتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور کسی نیک کام میں ہماری حکم عدولی اور نافرمانی نہیں کروگی، ہندہ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ! ہم اس مجلس میں آپ کی نافرمانی اور حکم عدولی کرنے کا خیال لے کر نہیں آئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے فرمایا: ان کو بیعت کرلو۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہچان لیا، اور دریافت فرمایا: کہ کیا تم ہند بنت عتبہ ہو، اس نے عرض کیا: جی ہاں! یارسولؐ اللہ! جو کچھ ہوا اس سے درگذر فرمائیں اور ہمیں معاف کردیں۔ آپؐ نے ان کے لئے دعاء مغفرت فرمائی۔
رؤسائے مکہ کا قبول اسلام
فتح مکہ کے دن اور اس کے بعد بھی مکہ مکرمہ کے ذمہ دار لوگوں، اور مختلف قبیلوں اور خاندانوں کے سربراہوں نے اسلام قبول کرنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دی، اور اسلام کی دولت سے بہرہ ور ہوئے، ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جنہوں نے مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی مخالفت نہیں کی تھی، نہ کبھی آپ کو کوئی تکلیف پہنچائی تھی نہ کبھی برا کہاتھا، بس وہ اس وقت اسلام کی دعوت پر لبیک نہ کہہ سکے تھے، اور وہ لوگ بھی شامل تھے جن کا کام ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنا تھا، اگر بات صرف مخالفت ہی کی ہوتی تب بھی کوئی حرج نہ تھا، مخالفت دشمنی میں تبدیل ہوئی اور دشمنی ظلم وستم تک لے گئی، آج مکہ فتح ہوگیا، آپ چاہتے تو اپنے مخالفین سے اور دشمنوں سے دل کھول کر بدلہ لیتے، لیکن دو چار لوگوں کے علاوہ آپؐ نے سب کو معاف فرمادیا، یہ دو چار بھی وہ لوگ ہیں جنہوں نے فتح کے بعد کے حالات میں بھی تعنت اور سرکشی کا راستہ اختیار کئے رکھا۔ اگر وہ چاہتے تو آپ انہیں بھی معاف فرمادیتے، کیوں کہ آپ کے دل میں بندگانِ خدا کے لئے رحم ہی رحم تھا، شفقت ہی شفقت تھی، جو لوگ بھی نادم ہوکر معافی کے خواستگار ہوئے آپؐ نے انہیں معاف فرمادیا، کٹر سے کٹر دشمن کو معافی دے دی اور اس کی معذرت قبول فرمالی، بلکہ آپؐ نے اس کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا۔ ذیل میں چند اہم لوگوں کے قبول اسلام کے واقعات پیش کئے جارہے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مکہ مکرمہ کی اہم شخصیات میں شمار کئے جاتے تھے، معاشرے پر ان کے گہرے اثرات تھے اور وہ لوگ سماجی زندگی میں نہایت معتبر سمجھے جاتے تھے۔
ابوقحافہؓ کا قبول اسلام
حضرت ابوبکر صدیقؓ ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور ایمان لائے، لیکن ان کے والد حضرت عثمان بن عامر التیمی جن کی کنیت ابوقحافہ ہے اور جو اسی کنیت سے پہچانے جاتے تھے تقریباً بیس برس تک ایمان کی دولت سے محروم رہے، حالاں کہ وہ حضرت ابوبکرؓ کے والد تھے، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ کے دادا تھے، دین حق کی اعانت میں اس خاندان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں، ایک طرف تو دین حق کے لئے حضرت ابوبکرؓ کے پورے گھرانے کی قربانیوں کا یہ حال تھا کہ گھر کی عورتیں تک اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں تھیں، دوسری طرف اس خاندان کے سربراہ ابوقحافہ نہایت ثبات قدمی کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر قائم تھے، وہ اپنے بیٹے سے بھی ناراض رہا کرتے تھے، حضرت ابوبکرؓ ہجرت کرکے مدینے چلے گئے ایک دن حضرت علیؓ ان کے گھر کے سامنے سے گزر رہے تھے، انہوں نے حضرت علیؓ کو دیکھا تو لوگوں سے کہا کہ ان لڑکوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کردیا ہے۔(جاری)