نئی نسل کو اُردو زبان سے نابلد رکھنے والے والدین اُس کا بہت نقصان کر رہے ہیں۔ یا تو اُردو سے تعلیم دلائی جائے یا گھر میں اُردوسکھائی جائے، کوئی تیسرا متبادل نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: May 23, 2025, 4:52 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai
نئی نسل کو اُردو زبان سے نابلد رکھنے والے والدین اُس کا بہت نقصان کر رہے ہیں۔ یا تو اُردو سے تعلیم دلائی جائے یا گھر میں اُردوسکھائی جائے، کوئی تیسرا متبادل نہیں ہے۔
اُردو کے دو مشہور شعراء، جو مشرق اور مغرب دونوں کے بادہ خواروں میں تھے اور انگریزی زبان اور مغربی علوم پر ماہرانہ نظر رکھتے تھے، نے مسلمانوں کو للکارا تھا اور اس جدید نظام تعلیم کے فتنہ سے ان کو باخبر کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ تھے اکبر اِلٰہ آبادی اورڈاکٹر علامہ اقبال۔ یہ کوئی مولوی اور دینی مدارس کے فیض یافتگان میں سے نہیں تھے۔ ان کی پوری تعلیم اسی درس گاہ میں ہوئی جو اس زمانہ میں مغرب کی نمائندہ تھی؛ بلکہ اقبالؔ نے تو یورپ کے قلب میں پہنچ کر علم حاصل کیا اور اس نظام تعلیم کو سر کی آنکھوں سے دیکھا اور کہہ اُٹھے :
اور یہ اہل کلیسا کا نظام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف
ایک موقع پر اقبال نے کیا تیکھی تنقید کی ہے :
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ
روشِ مغربی ہے مدِ نظر
وضعِ مشرق کو جانتے ہیں گناہ
اقبالؔ زندہ ہوتے تو وہ اعتراف کرتے کہ پردہ اُٹھ چکا ہے اور جس الحاد کا انتظار تھا وہ اب نگاہوں کے سامنے پوری طرح بے لباس ہے۔
جن لوگوں نے اس نظام تعلیم پر تنقید کی ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ تحقیق و سائنس کے خلاف ہوں ، سائنس تو کائنات میں چھپی ہوئی حقیقتوں سے پردہ اُٹھا تی ہے، اگر اس سے لوگوں کو نفع پہنچے تو کوئی سمجھدار شخص کیسے اس کی مخالفت کر سکتا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ ہر قوم کا نظام تعلیم اس کے افکار اور سماجی ماحول سے ہم آہنگ ہونا چاہئے، وہ علم کے ساتھ ساتھ اسے اپنے عقیدہ پر پختگی دے، اپنی تہذیب و ثقافت سے اس کی وابستگی کو بر قرار رکھے اور اپنے بارے میں احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ ہندوستان کو جو نظام تعلیم اپنے مغربی آقاؤں سے ملا، وہ اس خوبی سے محروم ہے، وہ دیسی شہریوں کو اپنی زبان، اپنی تہذیب، اپنے ادب اور اپنی سماجی قدروں کے بارے میں احساس کمتری میں مبتلا کرتا ہے، اور اس کی اہم وجوہ میں ایک یہ ہے کہ ہم نے انگریزی کو بحیثیت ایک زبان پڑھنے کے بجائے اسی کو ’’ ذریعہ تعلیم ‘‘ بنالیا، کہ ہمارے بچے ابتداء ہی سے انگریزی میں بولنا، انگریزی میں لکھنا اور انگریزی میں سوچنا شروع کردیں۔
انگریزی کی عظمت کچھ اس طرح ہمارے دل و دماغ پر مسلط ہوئی کہ ہم نے اس کو علم کی معراج سمجھ لیا، اور اس چیز نے ہمارے بچوں کو ذہنی اعتبار سے بھی اور صحت جسمانی کے اعتبار سے بھی، بہت نقصان پہنچا یا ہے۔ غور کیجئے کہ ابتداء ہی سے انگریزی ذریعہ تعلیم قرار پائی، ہندوستان میں قومی زبان کی حیثیت سے اسے ہندی بھی پڑھنی ہے اور چونکہ یہ ایک ’’مختلف لسانی‘‘ خطہ ہے اس لئے ہر علاقہ کی اپنی اپنی زبانیں اس کے سوا ہیں، طالب علم اسے بھی پڑھے گا، اگر ہندی ریاستوں میں کوئی اور مقامی زبان نہیں تو اب قوم پر سنسکرت مسلط کی جارہی ہے، ان کے علاوہ مسلمانوں کو اپنے سماجی رابطہ اور مذہبی ورثہ سے وابستگی کیلئے اُردو بھی پڑھنی ہے، اس طرح ہمارے بچے ابتداء سے چار چار زبان سیکھتے ہیں۔
طبّی اعتبار سے نو عمر بچوں کے لئے یہ ایک بار گراں ہے، بالخصوص ان حالات میں کہ فی زمانہ چار سال کی عمر سے ہی بچوں کی تعلیم شروع کرادی جاتی ہے اور ابھی زبان کا تلفظ بھی درست نہیں ہوتا کہ کتابوں کا ضخیم بستہ پشت پر رکھ دیا جاتا ہے۔ دوسرے کسی بھی انسان کے اندر اپنی زبان کو بے تکلف سمجھنے اور ادا کرنے کی جو صلاحیت ہوتی ہے، اجنبی زبان کو اس طریقہ پر پڑھنا پڑھانا دشوار ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اصل مضمون کو سمجھنے اور اس میں فکری ترقی حاصل کرنے کے بجائے اس کا ذہن چند انگریزی فقروں کے گرد گھومتا رہتا ہے اور اصل فن پر اس کی توجہ کم ہوتی ہے۔ اسی لئے دنیا کی جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں، انہوں نے علوم و فنون کو اپنی مادری زبان کا جامہ پہنایا ہے اور وہ اپنے بچوں کو اسی زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔
فرانس اور جرمنی جغرافیائی اعتبار سے برطانیہ سے کتنے قریب ہیں ؟ لیکن ان کے یہاں ذریعہ تعلیم فرانسیسی اورجرمنی ہے، چین اور جاپان دنیا کے ترقی یافتہ اور معاشی اور صنعتی اعتبار سے طاقتور ترین ممالک میں ہیں ؛ لیکن ان کے یہاں ذریعۂ تعلیم چینی اور جاپانی ہے، روس میں جب کمیونسٹ انقلاب آیا اور اس نے ترقی کی نئی کروٹ لی، تو سب سے پہلے مغربی علوم کو روسی زبان میں منتقل کیا؛ لیکن ہمارے ذہنوں پر انگریزی کا ایسا سحر طاری رہا کہ ہم دیسی زبانوں میں عصری تحقیقات کو منتقل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے اور بجائے اس کے کہ دیگر علوم کو اپنی زبان میں لاتے ہم نے اپنی ہی زبان سے منہ موڑ لیا۔
مسلمان جب فاتحانہ یورپ تک پہنچے اور یورپ میں ان کو حکمت و دانش کا ورثہ ملا تو نہایت بے تعصبی کے ساتھ اسے گلے لگایا اور سر آنکھوں پر رکھا؛ لیکن جلد سے جلد اس علمی سرمایہ کو عربی زبان میں منتقل کر لیا، عباسی دور میں اس سلسلہ میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے گئے وہ کسی صاحب ِعلم کیلئے محتاج اظہار نہیں، ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے مادری زبان سے محرومی کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ ہمارے دینی علوم و معارف کا بہت بڑا حصہ اُردو زبان میں ہے، انگریزی یا دوسری مقامی زبانوں میں اسلام پر جو کچھ کام ہوا ہے، وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں، ان حالات میں اگر ہماری نسلیں اردو سے نابلد اور ناواقف رہیں تو یہ براہِ راست دین و ایمان سے ان کا رشتہ کاٹ دینے جیسا ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اُردو ذریعہ تعلیم کے معیاری مدارس قائم کریں، بچوں کو مادری زبان میں کم سے کم میٹرک تک تعلیم دیں اور انگریزی کو بھی ایک زبان کی حیثیت سے پڑھائیں ؛ تاکہ وہ اصل فن میں آگے بڑھ سکیں اور جو صلاحیت محض سمجھنے اور سمجھانے میں صرف ہوتی ہے، وہی صلاحیت اصل مضمون میں استعمال ہو، یہ ان شاء اللہ ان کی تعلیمی ترقی کا ضامن ہوگا۔ اگر آپ ہر سال رینک لانے والے طلبہ کا جائزہ لیا لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ وہ ہیں جنہوں نے مادری زبان میں تعلیم حاصل کی۔ مہاراشٹر میں بحمدللہ کئی سال سے مسلم طلبہ اُردو سے تعلیم پا کر امتیازی کامیابی حاصل کررہے ہیں اور رینک لا رہے ہیں۔
انگلش میڈیم کا جو طوفان اس وقت آیا ہوا ہے اور غالباً مسلمان اس کے زیادہ شکار ہیں، وہ جہاں معاشی اعتبار سے متوسط خاندان کے لوگوں کی کمر توڑ رہا ہے، وہیں یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ بہت سے بچوں کیلئے یہ تعلیم ایسا بوجھ ثابت ہوتی ہے کہ وہ چند قدم چل کر تھک ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور اپنا تعلیمی سفر مکمل نہیں کرپاتے۔ اس کے علاوہ اُردو زبان سے ناواقفیت انہیں سماج سے بھی کاٹ دیتی ہے، وہ اپنے خاندان کے بزرگوں سے کسی اہم موضوع پر مؤثر گفتگو نہیں کر سکتےاور دین و مذہب سے جو ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے وہ نقصان تو سب سے سوا ہے، اس لئے اُردو ذریعۂ تعلیم کی درس گاہیں قائم کرنا، اپنے تعاونِ عمل سے انہیں مستحکم کرنا اور ان کو تقویت پہنچانا وقت کی اشد اور اہم ضرورت ہے اور اسی میں ہمارے مذہب اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت ہے۔