Inquilab Logo Happiest Places to Work

اپنی زندگی کے دُہرے معیار کا محاسبہ کیجئے!

Updated: May 23, 2025, 4:54 PM IST | Dr. Abdullah bin Awad Al-Juhani | Mumbai

ہمیں خیر کا علم ہے لیکن ہم وہی خیر انجام دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، ہمیں شر کا علم ہے مگر ہم اسی شر سے بچتے ہیں جس سے بچنا چاہتے ہیں،ایسا کیوں ہے؟

A person must always be accountable. Photo: INN
انسان کو ہمہ وقت اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

اللہ کے بندو! میں آپ کو اور خود کو اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں اور یہ کہ ہم اس کے لئے اعمال کو خالص کریں، تمام حالات میں اس سے ڈریں، ان طاعتوں سے اس کا تقرب حاصل کریں جن سے وہ راضی ہو اور اس کی ناراضگیوں اور ممنوعات سے بچیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
” سمجھدار وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کیلئے کام کرے اور لاچار وہ ہے جو خود کو خواہشات کے تابع کرے اور اللہ سے امیدیں رکھے۔ ‘‘ اللہ کے بندو! ہم ان دنوں اللہ تعالیٰ کی فراواں نعمتوں اور وافر بھلائیوں میں کروٹیں بدل رہے ہیں، ہمارا آسمان بارش برسا رہا ہے، ہمارے درخت پھل دے رہے ہیں اور ہماری زمین سرسبز و شاداب ہو رہی ہے۔ اللہ نے ہمارے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور اپنی بارش سے ہماری ساری زمین کو ڈھانپ لیا، چنانچہ بند، وادیاں ، نخلستان اور کنویں بھر گئے اور زمین سیراب ہو گئی۔ اے اللہ ! تو ہمیں اپنے فضل اور رحمت میں سے مزید عطا فرما، اس کا مالک تیرے سوا کوئی نہیں۔ اے اللہ !رحمت کی بارش برسا، نہ عذاب کی بارش اور نہ ڈھانے اور ڈبونے والی بارش۔ 
مسلمانو! دنیا آزمائشوں اور مشکلات کا گھر ہے اور ہوشمند وہ ہے جو اپنے نفس اور دین کیلئے احتیاط برتے تا کہ فتنوں کا شکار نہ ہو اور ان سے نجات پائے۔ مخلوق میں سب سے بڑا فریب خوردہ وہ ہے جو دنیا اور اس کی جلدی ملنے کی چیز سے دھو کہ کھائے، اسے آخرت پر ترجیح دے اور آخرت کو چھوڑ کر اس پر راضی ہو جائے۔ لہٰذا جس نے اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑا، اللہ کی روشنی سے روشنی حاصل کی اور اللہ کی کتاب کو مضبوطی سے پکڑ لیا، وہ راہ راست پر آگیا اور نجات پا گیا۔ اور جس نے اسباب گنوا دیئے، نور سے اپنی آنکھیں بند رکھیں اور صراط مستقیم سے دور رہا، اللہ کی پناہ! وہ گمر اہ اور ہلاک ہو گیا۔ 
اللہ کے بندو! اس دنیا کے اندر انسان زندگی کے سمندر میں خیالات، افکار، وسوسوں، گمانوں، خواہشوں اور شہوتوں کی موجوں اور عوارض کے طوفانوں کے بیچ غوطے لگاتا ہے اور وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا اور اس میں اس کے افکار، وسوسوں اور خواہشوں کو اور ان عوارض کو پیدا کیا جو اسے گھیرے رہتے ہیں، وہ ذات اس سے غافل رہی نہ اسے نظر انداز کیا، بلکہ اسے عقل و بصیرت سے نوازا اور اس کے پاس رسول بھیجا، اس پر ایسا نظام اتارا جو اس زندگی کے سفر میں اس کی رہنمائی کرے اور اس کے لئے ایسی رسی بڑھا دی جو نجات کے کنارے سے ملی ہوئی ہے اور جس میں نہ ٹوٹنے والا مضبوط کڑا ہے۔ انسان ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر میں ایک چھوٹی ناؤ کی طرح ہے جسے موجیں اٹھاتی اور گراتی ہیں اور ہوائیں دائیں بائیں ہلاتی رہتی ہیں، اسلئے ضروری ہے کہ کوئی ہو جو اسے کنارے تک پہنچائے اور اس کی رہنمائی کرے، ضروری ہے کہ اس کا کوئی ماہر ناخدا ہو جو گزر گاہوں کو جانتا ہو اور اسے ساحل تک لے جائے، اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ بھول بھلیوں میں بھٹک جائیگا اور ڈوب جائیگا۔ 
 اس مثال سے ہم اِس دور کے دہرے پن اور اختلاف کو سمجھ سکتے ہیں کہ جہاں علم زیادہ ہو ا وہیں جہالت پھیلی، جہاں دولت کی بہتات ہوئی وہیں غربت بھی بڑھی، جہاں طب نے ترقی کی وہیں عوارض اور بیماریاں پھیلیں۔ نظریات، صنعت کاریوں اور فلسفوں کا علم بڑھا، لیکن اس زندگی میں انسان کی ذمہ داری، اس کے پیغام اور اس کے مقصد کے تعلق سے لاعلمی بھی بڑھی۔ 
 اس لئے علم بغیر تقویٰ کے ہو گیا اور ہدایت پر نہیں رہا، چنانچہ علوم کو ان مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا جن کیلئے انہیں پیدا نہیں کیا گیا، انہیں تو اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ اپنے خالق کی قدرت و وحدانیت کی دلیل اور انسان اور اس کے خالق کے بیچ رابطہ بنیں۔ انہیں پیدا کیا گیا تاکہ انسان کو اپنے رب کی طاعت میں مدد دیں لیکن اس وقت علم اس سے دور ہے، الا ماشاء اللہ۔ آج بعض علوم کو تخریب کاری، تباہ کاری، اللہ کے دین سے روکنے اور کمزور کو غلام بنانے کیلئے استعمال کیا گیا، اس کا سبب ہے ایمان سے علم کو جدا کرنا، تو یہ جہالت کب تک؟
اقتصادی ترقی ہوئی اور دولتوں کی بہتات ہوئی، مگر نفسوں میں کنجوسی و بخیلی بڑھ گئی اور ان میں حرام و حلال طریقہ سے اور حق و ناحق مال اکٹھا کرنے کی حرص بڑھ گئی۔ سمندر کا پانی پینے والا اس سے جتنا پیئے گا اس کی پیاس اتنی بڑھے گی۔ کچھ لوگ سیاحتی سفر میں لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں، لیکن وہ کسی فقیر کی غمخواری نہیں کرتے اور نہ کسی یتیم پر شفقت کرتے ہیں۔ اس کا سبب اسلامی نظام اور بھلائی سے لاعلمی ہے۔ 
 ہماری زندگی کا سب سے بڑا دہراپن ہمارے دینی معاملہ میں ہے۔ ہمیں خیر کا علم ہے لیکن ہم وہی خیر انجام دیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں، ہمیں شر کا علم ہے مگر ہم اسی شر سے بچتے ہیں جس سے بچنا چاہتے ہیں، ہم ہدایت کو جانتے ہیں، لیکن ہم پوری ہدایت میں داخل نہیں ہوتے، ہم گمراہی کو جانتے ہیں، مگر ہم پوری گمراہی سے نہیں نکلتے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت پر ہمارا اعتماد ایسے ہے جیسے ہم قرآن کو نہیں پڑھتے۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرما دیا کہ اس کی رحمت ہر چیز کو شامل ہے، تو اس نے یہ بھی بتایا کہ رحمت والے کون لوگ ہیں اور کون اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
 ’’میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو نافرمانی سے پرہیز کرینگے، زکوٰۃ دینگے اور میری آیات پر ایمان لائینگے۔ ‘‘ (الاعراف:۱۵۶)۔ ہم سب کو اللہ سے ڈرنا چاہئے اور اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانا چاہئے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کیلئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘(آل عمران: ۱۱۰)
آپ یہ جان لیں کہ ایمان و تقویٰ زمین و آسمان سے برکتوں کے دروازے کھلواتے ہیں اور نافرمانی و سرکشی فتنہ اور ڈھیل کے طور پر ہر چیز کا در کھولتی ہے، چنانچہ ضروری ہو جاتا ہے کہ اس بات سے بہت زیادہ بچا جائے کہ امت میں نافرمانی پھیلے۔ اللہ تعالیٰ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے ان کا شکر ادا کیا جائے اور دنیا سے دھوکہ نہ کھایا جائے۔ آپ یہ بھی جان لیں کہ عزت واحترام اللہ کی اطاعت میں ہے اور ذلت ورسوائی اللہ کی نافرمانی میں، اس لئے آپ اللہ کی حلال کردہ چیزوں پر قناعت کریں اور اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے بے رخی برتیں اور یہ یقین رکھیں کہ موت اور معاملات کو چلانا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے، آدمی کو معلوم نہیں کہ صبح اور شام میں اس کے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اس لئے آپ اپنے بچاؤ کا سامان کر لیں اور اپنے نفس کا محاسبہ کریں قبل اس کے کہ آپ کا محاسبہ ہو۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK