مگر جب جاگے تب سویرا کے تحت آج بھی ہم سرور کائناتؐ کے اسوۂ حسنہ کو مقصد ِ حیات بنالیں تو کچھ عجب نہیں کہ ہماری مشکلات آسان نہ ہوں اور مسائل کا حل نہ نکلے۔
EPAPER
Updated: May 23, 2025, 7:40 PM IST | Maulana Abdul Majid Daryabadi | Mumbai
مگر جب جاگے تب سویرا کے تحت آج بھی ہم سرور کائناتؐ کے اسوۂ حسنہ کو مقصد ِ حیات بنالیں تو کچھ عجب نہیں کہ ہماری مشکلات آسان نہ ہوں اور مسائل کا حل نہ نکلے۔
بزم کائنات اپنی ساری دلفریب زینتوں اور دلکش آرائشوں کے ساتھ سج چلی، طلسم خانۂ فطرت اپنی تمام ندرتوں اور نیرنگیوں کے ساتھ تیار ہوچکا، نگارخانۂ موجودات کا ایک ایک نقش آب و رنگ کی جگمگاہٹ سے چمک اٹھا۔ اس وقت ماکان وما یکون کا سب سے زیادہ بے بہا، سب سے زیادہ عزیز الوجود گوہر ’’امانت الٰہی‘‘ کے نام سے کثرت کے بازار میں پیش ہوا اور وحدت کے خلوت کدہ سے آواز آئی کہ ’’ہے کوئی جو اس گوہر شرف کا حامل بن سکے؟ ہے کوئی جو اس بار امانت کو اٹھا سکے؟‘‘ عالم ملکوت میں سناٹا چھا گیا ، عالم ناسوت پر لرزہ پڑ گیا، پہاڑ تھرتھرائے، سمندر کی موجیں رک گئیں، ماہتاب ماند پڑ گیا، آفتاب کی ہمت نے جواب دے دیا، اونچے آسمانوں نے اپنے دوش ناتواں کو اس کا اہل نہ پا کر آنکھیں نیچی کرلیں ، پھیلی ہوئی زمین اپنے عجز و درماندگی کے احساس سے سمٹ کر رہ گئی۔ اس وقت ضعیف و ناتواں، کمزور و حقیر، ظلوم و جہول خاک کا پتلا آگے بڑھا اور اپنی ہمت کے بازوؤں کو پھیلا کر یہ بار عظیم اپنے سر لے لیا۔
یہ بھی پڑھئے: دینی علوم سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے اُردو سے دوری!
صبح محشر
خاک نژاد آدم کی بے شمار نسلیں پیدا ہوئیں اور رخصت ہوگئیں ، پھیلی اور بڑھیں، ابھریں اور مٹیں، یہاں تک کہ عالم عنصریات کی شب دراز ختم ہوتی ہے اور صبح محشر طلوع ہوجاتی ہے، کمزور و جلد باز ، خطاکار و نسیاں شعار انسان طلب ہوتا ہے، اس کا فرد ’’امانت‘‘ کا حساب سمجھانے سے حاضر ہوتا ہے، افراد کی تعداد حد شمار سے خارج ہے، ریاضی کا ہر عدد سب کی گنتی بتانے سے قاصر ہے، اچھے اور برے، فاسق و فاجر، مومن و کافر، عالم و جاہل، شاہ و گدا، امیر و فقیر، حکیم و شاعر، عابد و زاہد، ولی و درویش سب ایک ایک کرکے صف در صف حاضر ہورہے ہیں ، لیکن کسی ایک کا نامۂ عمل فطرت کے محاسبہ پر پورا نہیں اترتا، کسی ایک کا بھی دامن امانت خیانت کے داغ سے پاک نظر نہیں آتا، کسی ایک کی بھی فرداعمال ایسی نہیں جو دعوے کے ساتھ پیش ہوسکے، ہر سمت حسرتیں، ندامتیں، پشیمانیاں اور پریشانیاں ہیں، زاریاں اور بے قراریاں، افسردگیاں اور غمگینیاں ہیں، انتہا یہ ہے کہ وہ نفوس قدسیہ تک جو دوسروں کی ہدایت و رہنمائی کے لئے خلق ہوئے تھے اور جو عرش کا پیام لے کر فرش پر آئے تھے، آج اپنی اپنی حالت میں گرفتار ہیں اور زبانوں پر نفسی نفسی کا وظیفہ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اپنی زندگی کے دُہرے معیار کا محاسبہ کیجئے!
گستاخ و شوخ چشم انسان اس وقت بھی تمرد و خیرہ سری سے باز نہیں رہتا اور سوال کر بیٹھتا ہے کہ ایسی ناقص ہستیوں کے وجود میں لانے کا کیا ثمرہ تھا جن میں سے کوئی ایک بھی معیار کمال پر پوری نہیں اترتی؟ اس بے شمار انبوہ کو خلعت وجود سے مشرف کرنے کا کچھ بھی حاصل تھا؟ جس کا ایک فرد بھی اپنے مقصد آفرینش کو پورا نہ کرسکا؟ حریم قدس سے آواز آتی ہے کہ دیکھ اے جاہل انسان اور اپنی جہالت کا اقرار کر ، سن اے نادان آدم! اور اپنی نادانی پر شرما ، یہ پیکر نورانی جو تیرے سامنے عرصۂ محشر میں موجود ، اپنی ذات کی طرف سے فارغ و مطمئن اور دوسروں کے نجات دلانے کی کوشش میں مصروف و سرگرم نظر آرہا ہے، تیری ہی طرح ایک انسان تھا، تیری ہی طرح اس کا خمیرہ آب و گل سے تھا، تیری ہی طرح خاک کے ذروں سے اپنے جسد عنصری کی ترکیب رکھتا تھا، لیکن ہمارا عبد کامل تھا، ہماری امانت کا پورا امین اور اپنے عہد کو نبھانے والا، قید عناصر میں داخل ہونے سے قبل ہر وقت ہماری حمد و ثنا میں مشغول رہا ، تو ہم نے احمد (بہت تعریف کرنے والا) کے نام سے پکارا (ﷺ) اور اس کا صلہ یہ دیا کہ جب عالم آب و گل میں پابند بنا کر بھیجا تو اس کا لقب محمد (بہت تعریف کئے گئے) (ﷺ)رکھا، دیکھ اے غافل انسان کہ آج نہ صرف ہم اپنے اس سب سے اچھے اور سب سے پیارے بندہ کو کیا درجہ نصیب کرتے ہیں، بلکہ جس کسی نے اس کی پیروی کی بھی کوشش کی، اس کیلئے بھی آج ہمارے یہاں کیا کیا سرفرازیاں اور سربلندیاں موجود ہیں!
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ جائیے، حکیموں اور داناؤں کی سوانح حیات پڑھ جائیے، درویشوں اور عالموں کے کارناموں پر نظر کر جائیے، حضرات انبیاء علیہم السلام کی دعوتوں سے واقفیت حاصل کرلیجئے ، دنیا کی بڑی سے بڑی اصلاح ، بڑے سے بڑے انقلاب ، بڑے سے بڑے اجتہاد کا مطالعہ کرجائیے، ہر اصلاح، ہر دعوت، ہر تبلیغ کسی نہ کسی ملک، کسی نہ کسی قوم، کسی نہ کسی زمانہ کے ساتھ مخصوص و محدود ملے گی۔ حضرت مسیحؑ صرف بنی اسرائیل کے گلوں کی بھیڑوں کو بچانے کے لئے آئے تھے، حضرت ہودؑ ، حضرت شعیبؑ ، حضرت صالحؑسب کا روئے سخن صرف اپنی اپنی قوم کی جانب تھا، دنیا کے اس عالمگیر کلیہ سے اگر کوئی استثناء ہوسکتا ہے توو ہ محمد عربیؐ (روحی فداہ) کی دعوت و پیام کا تھا ۔ آپﷺ کی دعوت کسی ایک ملک، کسی ایک قوم، کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں، ہر ملک، ہر قوم اور ہر زمانہ کیلئے ہے ، تمدن انسانی کی ہر سطح کے متناسب، حالت بشری کے ہر درجے کیلئے موزوں اور معاشرت ِ قومی کی ہر شان کے شایاں۔
کمال اور ختم نبوت
سیدالمرسلینؐ کا ایک لقب خاتم النبیینؐ بھی ہے۔ ختم نبوت کے معنیٰ بالکل واضح ہیں، جب ایک پیام اس قدر جامع و مکمل آچکا کہ اب اس میں کسی ترمیم و اضافہ کی گنجائش ہی نہیں باقی تو کسی جدید پیام کا آنا سرے سے بے معنی ہوجاتا ہے۔ پیام کی ہمہ گیری کے معنی ہی یہ ہیں کہ آئندہ کے لئے سلسلۂ پیامات منقطع۔عرب کے اُمیؐ کے لائے ہوئے پیام نے علی الاعلان اپنا دعویٰ ساری دنیا کے سامنے پیش کردیا کہ میں ہر امکانی ضرورت ِ زندگی کے لئے مکمل ہدایت نامہ ہوں، اور آج تک بڑے سے بڑا مخالف بھی اس دعوت کو کسی دلیل سے جنبش نہ دے سکا۔
پیام اور پیامبر
اس قدر جامع و مکمل پیام کے لئے ضروری تھا کہ اس کے لانے والے کی ذات بھی ہر حیثیت سے کامل و مکمل ہو۔ اللہ کا بھیجا ہوا پیام، لکھا لکھایا مرتب کتاب کی شکل میں بھی کسی پہاڑ یا درخت پر آسمان سے اتر سکتا تھا لیکن حکیم ِ مطلق کی مشیت نے پیام اور ’’پیامبر‘‘ دونوں کو ایک دوسرے کے لئے بطور لازم و ملزوم قرار دیا اور دونوں کو ایک دوسرے کی تصدیق کا ضامن۔ لیکن ترتیباً پیامبر کا وجود پیام پر مقدم ہے۔ دنیا کا یہ آخری ہادیؐ و رہنما پورے چالیس برس اپنے ہم جنسوں کے درمیان رہ لیا، تب جا کر اس پر پیام حق نازل ہونا شروع ہوا اور اس کے بعد تئیس سال کی عمر اس نے اپنے ہی جیسے انسانوں کے درمیان گزاری ۔ اس کی پاک و پاکیزہ زندگی اس وقت بھی دشمنوں کے لئے ایک کھلے ہوئے چیلنج کی طرح موجود رہی کہ کوئی اٹھے اور اس میں عیب نکالے، کوئی بڑھے اور اس پر حرف گیری کرے۔ ابوجہل اور ابولہب جیسے دشمن اٹھے اور بڑھے ، لیکن اس مقدس سیرت، اس پاکیزہ زندگی اور اس پاک معاشرت میں ایک بات بھی قابل گرفت نہ پا سکے۔
محمد بن عبداللہ ﷺ فرشتہ بنا کر نہیں بھیجے گئے، کسی دوسرے عالم کی مخلوق کی حیثیت سے نہیں اتارے گئے، حوائج بشری سے بے نیاز ہوکر نہیں مبعوث ہوئے، انسان بنا کر، بشریت کے تمام اوصاف و لوازم، تمام احتیاجوں اور ضرورتوں کے پابند بنا کر اس ظلمت کدۂ گیتی کو مطلع انوار کرنے کے لئے بھیجے گئے۔ آپؐ نے شادیاں کیں، آپؐ کی کئی اولادیں ہوئیں، بعض وفات پا گئیں اور بعض حیات رہیں، دوست بھی آپؐ کے بہت تھے اور دشمن بھی تھے، مخلصین کا بھی ایک گروہ تھا اور منافقین کا بھی، عسرت کا بھی زمانہ گزرا اور خوشحالی کا بھی ، لڑائیاں بھی بہت سی ہوئیں اور امن کا زمانہ بھی گزرا ، محاربات میں کبھی فتح بھی ہوئی کبھی اس کے برعکس، خلق کے رد و انکار کا بھی تجربہ فرمایا اور مقبولیت و مرجعیت کا بھی، غرض انسانی زندگی میں گرم و سرد، نشیب و فراز کے جتنے مواقع پیش آسکتے ہیں، سب سے ہوکر وہ پاک و طاہر زندگی گزری اور اس طرح بے داغ گزری کہ آج محض اس کا مطالعہ سارے عالم کیلئے ایک مستقل درس بن سکتا ہے۔
جامعیت
حبیب کبریاؐ کی حیات ِ مبارکہ کی یہ جامعیت صرف اس لئے تھی کہ ہر فرد بشر اس نمونہ کو اپنے پیش نظر رکھے اور جہاں تک اس کا ظرف و بساط اجازت دے، انہیںؐ کے قدموں کے نقش پر چلے، گلستان دہر میں بارہا روح پرور بہاریں آچکی ہیں لیکن موسم ربیع کا یہ گلدستہ ایسا ہے جو ہر ملک، ہر زمانہ، ہر قوم کے مشام جاں کو معطر رکھے گا۔ آج دنیا کی سب سے بڑی شامت یہی ہے کہ اس نے سب سے زیادہ کامل و مکمل نمونہ کی طرف سے قطع نظر کرلی ۔ غیروں کا ذکر نہیں، خود ہم کلمہ گویانِ اسلام کی بدبختی یہی ہے کہ ہم نے آفتابِ ہدایتؐ کی طرف سے آنکھیں بند کرکے اپنے تئیں یا تو اندھیرے میں ڈال رکھا ہے یا اگر روشنی کی طلب ہے بھی تو ٹمٹماتے ہوئے چراغوں اور لالٹینوں پر قناعت ہے۔
یہ بھی پڑھئے: قیادت کیلئے مطلوب معیار و اصول کا فلسفہ جانئے
اگر آج ہم اس بڑے ’’امین ؐ‘‘ کے نقش قدم پر چلتے ہوتے تو ہم میں خیانت و بددیانتی کا گزر نہ ہوتا ، اگر آج ہم اس رؤف و رحیمؐ کے پیرو ہوتے تو ہمارے دلوں میں ایک دوسرے کی جانب سے بے اعتمادی و بدگمانی نہ ہوتی، اگر آج ہم نے اس غارِ حرا کے بیٹھنے والے کے آثار مبارک کو اپنا سرمۂ چشم بنایا ہوتا تو ہمارے باطن میں کسی قسم کی گندگی باقی نہ رہ جاتی ، اگر آج ہم فاتحؐبدر کی عظمت دل سے کرنے والے ہوتے تو مخالفین کے مقابلے میں ہمیں شکستیں نصیب نہ ہوتیں، اگر آج ہم رحمۃ للعالمینؐ کے پیام پر سچے دل سے ایمان رکھے ہوتے تو اپنے جیسی مخلوقات کے ساتھ ہمیں بے گانگی و مخالفت نہ ہوتی ، اگر آج سچ بولنے والے اور سچ کے برتنے والے نبیؐ کے طریقے پر ہم قائم ہوتے تو جھوٹ کا ہماری آبادیوں میں نام و نشان ہی نہ ہوتا، اگر آج ہم کو اسم پاک احمدؐ کی لاج ہوتی تو اللہ کی حمد و ثنا سے ہمیں اس قدر گریز نہ ہوتا، اگر آج ہم کو اسمِ گرامی محمدؐ سے عملاً کوئی واسطہ ہوتا تو اپنی موجودہ پستی و بدنامی کے یہ مراحل دور ہوتے !