Inquilab Logo

مجھے وزیراعظم کے آنسوؤں کو دیکھ کرکوئی شبہ نہیں ہوتا

Updated: May 30, 2021, 4:22 PM IST | Priya Darshan

لیکن یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ان کے آنسو حقیقی بھی ہوئے تو کیا ہوگا؟کیا آنسو بہانا حساس ہونے کی علامت ہے؟ نہیں! یہ جذباتیت کی علامت ہے اور یہ کوئی اچھی چیز نہیں ہے

Narendra Modi.Picture:INN
نریندر مودی۔تصویر :آئی این این

میں ایک بار پھر دہرا نا چاہتا ہوں کہ میں ان لوگوں میں شامل نہیں جو وزیر اعظم کے آنسوؤں کو مکمل طور پر مگرمچھ کے آنسو سمجھتے ہیں۔مجھے  اس بات پر یقین کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ وزیر اعظم کے آنسو سچے ہوں گے اور وہ  دل سے نکلے ہوں گے۔ کچھ دن قبل ، غلام نبی آزاد کی راجیہ سبھا سے وداعی کے دوران، وہ گجراتی سیاحوں میں سری نگر پر دہشت گردوں کے حملے کی خبر  کو دُہراتے ہوئے بھی روئے تھے۔اُس وقت بھی بہت سے لوگوں نے کہا تھا کہ یہ آنسو نقلی ہیں۔ تب بھی میں نے یہی کہا تھا کہ وہ حقیقی آنسو ہوں گے۔
 لیکن اگر ان کے آنسو حقیقی بھی ہوئے تو اس سے کیا ہوگا؟کیا آنسو بہانا حساس ہونے کی علامت ہے؟ نہیں! بلکہ یہ جذباتیت کی علامت ہے اور جذباتیت کوئی اچھی چیز نہیں ہے۔ جذباتی لوگ اکثر جواز کا ساتھچھوڑ دیتے ہیں اور جذبات میں ڈوب جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی کے قتل پر آنسو بہا رہے تھے ، وہی لوگ بعد میں سکھوں کو بے رحمی سے قتل کر رہے تھے۔ ۲۰۰۲ء میں جن لوگوں کے آنسو گودھرا میںجلتی ہوئی ٹرین کے اندرمارے گئے کارسیوکوں کو لے کررُک نہیں رہے تھے، انہی لوگوں کو اگلے تین ماہ تک قہقہہ لگاتے ہوئے دیکھا جارہا تھا جب پورا گجرات ایک جلتی ہوئی ٹرین بنا ہوا تھا۔
 جذباتیت ایک نہایت یک طرفہ چیز ہے۔ یہ ایک بہت ہی فوری  رد عمل کا اظہار ہوتا ہے۔ ہم فرضی کہانیوں پر جذباتی ہو جاتے ہیں۔ہم بکواس فلموں پر بھی آنسو بہانے لگتے ہیں۔ زندگی میں جو لوگ اپنی بہنوں کو کسی سے محبت  کرنے پرگولی مار دیتے ہیں ، وہ بھی سنیما میں ہیروئن کی جدوجہد دیکھ کر رودیتے ہیں۔ بہت سارے لوگ اپنے کتوں اور بلیوں کی موت پر رنجیدہ  ہوجاتےہیں لیکن ان کے دل آدھی رات کو گلی کےکونے پرسردی میں بھیک مانگتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر نہیں پسیجتے۔
 جذباتیت فطری طور پر آجاتی ہے۔ ہم ان لوگوں کے ساتھ ایک طرح کی اضافی رواداری اور جذباتیت محسوس کرتے ہیں جن کے ساتھ ہم جڑے ہوتے ہیں... لیکن حساسیت خود بخود نہیںآ تی بلکہ اسے پیدا کرنا پڑتا ہے۔ حساس ہونے کے بعد ، اپنی دنیا کو وسعت دینی پڑتی ہے اور اسے دور تک پھیلانا  پڑتاہے۔ حساس ہونے کا مطلب اصلی دکھوں اور پریشانیوں سے آگاہی ہے۔ حساس ہونے کا مطلب ہے منطق اور استدلال سے محبت کا رشتہ ہموار کرنا۔
 کیا وزیر اعظم صرف جذباتی ہیں یا حساس بھی ہیں؟ اس پر سیدھے سیدھے کو لکیر کھینچ دینا ، یا وزیر اعظم کو کسی ایک جانب کھڑا کردینا  بھی بالکل اسی طرح غیرحساسیت اور جذبانیت کا مظاہرہ ہوگا جیسا کہ ہمارے بہت سارے ساتھی مودی کی مخالفت میں کرتے ہیں.... لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر وزیر اعظم حساس ہیں .... تو بھی انہوں نے متعدد ایسے مواقع آئے ہیں، جب انہوں نے اس حساسیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر وہ حساس ہوتے تو مغربی بنگال کی انتخابی ریلیوں میں جمع ہونےوالی بھیڑ پرخوشی جتانے کے بجائے  فکر مندی کااظہار کرتے۔لوگوں سے گھر جانے اور کورونا سےاحتیاط برتنے کی اپیل کرتے.... لیکن انہیں اس بات کی ذرا بھی فکر نہیں تھی کہ اتنی بھاری بھیڑ کے درمیان کہیں کورونا بھی ٹہل رہا ہے۔ اگر وہ حساس ہوتے، تو وہ ملک کے مختلف حصوں میںشہریت مخالف قانون کے خلاف چلنے والی جمہوری انداز کی تحریکوں کواحترام کے ساتھ دیکھتے، ان کے ساتھ بات چیت کرتے اور  انہیں یقین دلانے کی کوشش کرتے کہ اس کی وجہ سے ان کی شہریت خطرے میں نہیں  پڑے گی۔
 اگر وزیر اعظم حساس ہوتے ، تو وہ ملک کے اندر ایک بڑے طبقے میں پھیلے عدم تحفظ کے احساس کو ٹھیک سے پہچانتے اور اسے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے ہوئےاکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے اپنے پُرجوش  حامیوں سے اپیل کرتے کہ وہ ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس کی وجہ سے اس ملک کے دوسرے طبقات میں خوف پیدا ہو یا ان میں یہ شکایت پیدا ہو کہ وہ دوسرے درجے کے شہری بنائے جارہے ہیں۔ایک اور بات ، آنسو بہانا ہمیشہ حساس ہونے کی علامت نہیں ہوتی۔ بعض اوقات آنسو روکنا بھی حساسیت کی علامت قرار پاتی ہے۔ دکھوں کا عوامی مظاہرہ ہی حساسیت نہیں ہوتی بلکہ غموں کو اپنے اندر دبا کر رکھنا بھی حساسیت کی علامت  ہوتی ہے۔۱۹۸۰ءمیں، جب اندرا گاندھی کے چھوٹے بیٹے سنجے گاندھی کا ایک ہوائی حادثے میں انتقال ہوگیا تھا ، تب انہیں اس کا خواہ کتنا ہی غم کیوں نہ رہا ہو،اس کا انہوں نے عوامی مظاہرہ نہیں کیا۔اُس وقت اخباروں اور رسالوں میںشائع ہونےوالی ان کی ایک تصویر اب بھی یادوں کے دریچوں سے جھانک رہی ہوگی ، جس میں وہ سیاہ عینک لگائے اپنے بیٹے کے جسد خاکی کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہیں۔ وہ ایک مضبوط اور حساس لیڈر تھیں۔ انہیں عوامی سطح پر ماتم  پسند نہیں تھا۔
 سچی بات یہ ہے کہ ہمارا یہ ملک غموں اور دکھوں سے بھرا ہوا ہے۔ ان دکھوں پر ہمارے لیڈر اگر واقعی رو نے اور آنسو بہانے لگیں تو ان کے آنسوؤں ہی سے ایک سمندر وجود میں آجائے گا.... لیکن وہ اپنے آنسوؤں کو الیکشن اور انتخابی تقریروں کیلئے سنبھال کر رکھتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب کبھی وزیر اعظم کا بھی گلا رندھ جاتا ہے تو بہت سے لوگوں کو مگرمچھ کی یاد آجاتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK